روایت پرست بلوچ خواتین
نازنین بلوچ
عام طور پر جب ہم روایت پرستی کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارا دھیان خود بخود مذہب یا پھر آبا و اجداد کی معاشرتی روایات کی طرف چلا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس کو تھوڑا وسیع کر کے دیکھیں تو یہ سوچ ہمیں جدید معاشروں میں بھی نظر آتی ہے، جہاں ہم کسی نظریے یا نظام یا طریقہ کار کو مکمل آئیڈیل یا تبدیلی کو عدم گنجائش تصور کرتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اس چیز میں تبدیلی کی گنجائش ہو ہی نہیں سکتی یا پھر اس مخصوص چیز میں تبدیلی کا خیال بھی ہمیں خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لیکن تبدیلی ایک ارتقائی عمل ہے جسے معاشرے کو چلانے کے لیے انتہائی اہم و ضروری ہے۔
اگر ہم بلوچ معاشرے میں روایت پرستی کا تنقیدی جائزہ لیں تو یہاں (بلوچ معاشرے میں) روایت پرست اورروایت شکنی پر مختصر بحث کرتے ہیں۔ بلوچ 1947ء سے پہلے انگریز اور پھر پاکستان کا غلام رہا ہے، اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قابض کبھی نہیں چاہتا کہ محکوم اقوام باشعور ہوں، کیوں کہ قومی شعور استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کو جنم دیتی ہے۔
پاکستان نے بلوچ سماج میں قومی شعور کے اجتماعیت کو نقصان دینے کے لیے بلوچ سماج کو کبھی فرقہ، کبھی رنگ نسل تو کبھی مذاہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ بلوچوں کی استحصالی نظام کے خلاف اجتماعی مزاحمت ہے کہ جنہوں نے بلوچ کو بحیثیت قوم استحصالی تقسیم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی اور اپنے مقصد میں درمیانی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ لیکن ان تمام معاملات میں بحیثیت فرد ایک عام بلوچ (خواتین یا مرد) کا کردار کیا رہا ہے؟
عام طور پر اس کرہ ارض میں مرد ہمیشہ سے ہی مضبوط رہا ہے۔ اس لیے نہیں کہ جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو شاید خواتین کے مقابل زیادہ غذا لیتا ہے بلکہ اس لیے کہ معاشرہ مرد کو ہر چھوٹا یا بڑا عمل کرنے پر سراہتا ہے اور خواتین کی مرد کے مقابلے میں حوصلہ افزائی انتائی کم جاتی ہے۔ اس معاشرتی رویے کے سبب مرد زیادہ پُراعتماد اور خواتین قدرے سہمی رہتی ہیں۔ مختصراً یہ موضوع جداگانہ بحث کا متقاضی ہے۔ راقم کی موضوع یہ ہے کہ خواتین نے خود اپنے لیئے کیا کارنامے سر انجام دیے ہیں؟
بلوچ بحیثیت قوم پچھلے 70 سالوں سے غلام ہے اور اِس غلامی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن جد و جہد کی جارہی ہے۔ لیکن کسی بھی معاشرے میں استحصالی نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں معاشرے کے تمام طبقات کی شمولیت لازمی امر ہے کیوں کہ معاشرے کا نصف حصہ جدوجہد کو زندہ تو رکھ سکتا ہے لیکن ایک منظم تحریک کی تشکیل میں ناکام رہتے ہیں۔
بلوچ سماج میں آبادی کا 51 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ لیکن آج بلوچ قومی جدو جہد میں خواتین مرد کے مقابلے پانچ فیصد سے بھی کم ہیں۔ البتہ آج محدود پیمانے پر بلوچ خواتین جدوجہد میں پیش پیش تو ہیں لیکن ان خواتین کی جد و جہد کا دورانیہ محض چند سالوں پر محیط ہے۔ چند سالوں بعد روایتی طور پر ” پِیا سنگ بیاہ” کر کے چلی جائیں گی، اور پھر؟
پھر اُن کی سیاسی زندگی کی اختتام شروع ہوجاتا ہے، کیوں کہ خواتین اپنی سیاسی زندگیوں کا فیصلہ قسمت کے حوالے کردیتی ہیں۔ خواتین نے خود کبھی بھی اپنی سیاسی زندگیوں کے حوالے سے سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کیا ہے۔ جس جد و جہد میں اُن کے مرد فکری ساتھیوں نے اپنے زندگی کے تمام آسائشوں کو قربان کرکے اجتماع کو فرد پر فوقیت دی ہے۔ اسی تحریک میں خواتین پانچ سے چھ سال تک فکری حوالے سے جد و جہد کر کے اپنی سیاسی شعور میں محدود پیمانے پر تبدیلیاں لا کر تحریک، جدوجہد اور اپنی سیاسی وابستگی کو فرسودہ روایات کے سامنے دستبردار ہو کر سب کچھ چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ تحریک میں تلخ تجربات یہ ہیں کہ لوگ آتے جاتے ہیں۔
لیکن تحریک کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے فکری دوستوں کے جسمانی حوالے سے جدا ہونے کا شاید اتنا افسوس نہیں ہوتا جتنا ان فکری دوستوں کا فرسودہ روایات کے سامنے دستبردار ہونے سے ہوتا ہے۔ شاید بعض اوقات وہ اپنی سیاسی وابستگی کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے ہیں لیکن فر سُودہ روایات کو کیسے توڑیں؟ گھر سے بغاوت کرنے کا خوف اُسے خاموشی پہ مجبور کر دیتا ہے اور وہ خاموش دبے پاؤں چلی جاتی ہے۔ اور باقی تمام کی طرح روایت پرست ہو جاتی ہے۔
تمام تر زندگی جو فرسودہ روایتوں کو پاش کرنے کی باتیں کرتی ہیں وہ انہی فرسودہ روایت کی نظر ہوجاتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ بلوچ معاشرے میں کسی نے بغاوت نہیں کی، بلکہ ایک واضح مثال ہے جس نے فرسودہ روایات کا پیشہ خاندانی سے مقابلہ کیا ہے۔ کریمہ بلوچ جو تمام بلوچ خواتین کے لیے ایک آئیڈل ہے۔ جو نہ معاشرے کی فرسودہ روایات کو خاطر میں لایا اور نہ ہی رشتوں کو اپنی سیاسی وابستگی کے درمیان آنے دیا بلکہ تمام مصائب کا مقابلہ کر کے آج بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی پہلی خواتین چیئرپرسن ہے۔
آج بلوچ خواتین کو انتہائی سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاییے کہ جدوجہد ایک محدود دوارنیہ کے لیے کرنی ہے یا اپنے آپ کو جد و جہد کے لیے وقف کرنا چاییے؟ یا خواتین کو فرسودہ روایات کے سامنے دستبردای کی روایات کو برقرار رکھ کر روایت شکن نہیں ہونا ہے؟