پکچر ابھی باقی ہے : جے آئی ٹی رپورٹ
(عرفان حسین)
ترجمہ: محمد فیصل
نوازشریف اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی بنا پر نہیں جانے جاتے۔ ان کی شہرت یہ ہے کہ وہ آخر تک لڑتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ جب تک انہیں اٹھا کر وزیراعظم ہاؤس سے باہر نہ پھینک دیا جائے اس وقت تک وہ عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ اپنے پورے سیاسی کیریئر میں انہوں نے ‘مفادات کے ٹکراؤ’ کے تصور کی بابت کچھ بھی نہیں جانا چنانچہ ان کے خاندان کے کاروباری مفادات پھلتے پھولتے رہے۔
ہم 20 سال سے جانتے ہیں کہ لندن میں مے فیئر فلیٹس شریف خاندان کی ملکیت ہیں لہٰذا جے آئی ٹی نے ہمیں کوئی نئی بات نہیں بتائی۔ تاہم ان فلیٹس کی خریداری میں استعمال ہونے والی رقم اور اس حوالے سے قطری شیخ کے ساتھ لین دین کے معاملات خاصے پیچیدہ اور پراسرار ہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی بہت سے خامیاں ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم نے قطر کے اس سابق وزیراعظم سے انٹرویو کی زحمت نہیں کی جس سے اس پر تعصب کے الزامات لگ رہے ہیں۔ اگرچہ جے آئی ٹی ان سے پاکستانی سفارت خانے میں بات کرنے کو تیار تھی مگر اس نے شیخ کی رہائش گاہ پر جانے یا سکائپ پر انٹرویو سے اجتناب کیا۔
حکومت کی قانونی ٹیم جے آئی ٹی رپورٹ میں لگائے گئے ہر الزام پر سوالات اٹھائے گی۔ اگر سپریم کورٹ کے بینچ نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ فل بینچ کے روبرو اپیل کر سکتے ہیں۔ اس تمام کارروائی میں وقت لگے گا اور کوئی حتمی فیصلہ آنے سے قبل انتخابات کا ماحول گرم ہو چکا ہو گا
جے آئی ٹی کی تحقیقات میں یہ ایک ایسا خلا ہے جس سے نوازشریف کے حامیوں کو یہ کہنے کا جواز مل گیا ہے کہ ان کے رہنماؤں کو سازش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوازشریف کے خلاف تحقیقات اور ‘منی ٹریل’ کے حوالے سے قطری شیخ کی گواہی اہم ترین عنصر تھی اور اس کی جانب سے شریف خاندان کو بھاری رقوم دینے کے دعوے کو مسترد کر کے جے آئی ٹی نے دراصل حکمران خاندان کے کیس کو کمزور کیا ہے۔
جو لوگ اس کھیل کے فوری خاتمے کی توقع کر رہے ہیں انہیں میرا مشورہ ہے کہ ابھی صبر کریں۔ یہ کھیل ابھی اور آگے چلے گا۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت کی قانونی ٹیم جے آئی ٹی رپورٹ میں لگائے گئے ہر الزام پر سوالات اٹھائے گی۔ اس کے بعد اگر سپریم کورٹ کے بینچ نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ فل بینچ کے روبرو اپیل کر سکتے ہیں۔
اس تمام کارروائی میں وقت لگے گا اور کوئی حتمی فیصلہ آنے سے قبل انتخابات کا ماحول گرم ہو چکا ہو گا۔ تاہم اگر نوازشریف قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرتے ہیں تو الگ بات ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب میں نوازشریف کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے۔ آیا ان کے ووٹر پاناما کیس کے باعث ان سے منہ موڑتے ہیں یا نہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
سالہا سال تک اپنے مینڈیٹ کو فوجی بوٹوں تلے روندے جانے کے بعد عوام اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے منتخب رہنماؤں کو نااہل قرار دینے کے تماشے کے بھی عادی ہو چکے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے رہنماؤں کے خلاف سازشوں کے تانے بانے داخلی کرداروں سے لے کر غیرملکی طاقتوں تک جاتے ہیں۔
یہ عام خیال بھی نواز شریف کے حق میں جاتا ہے کہ تمام سیاستدان پیسہ بناتے ہیں۔ تاہم لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ رہنماؤں کو ترقیاتی منصوبے شروع کرنا چاہئیں اور انہیں اچھی حکمرانی ملنی چاہیے۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو شریف برادران کی پوزیشن اچھی ہے۔ انہوں نے ایسے ترقیاتی منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کیے ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ان کی کوئی معاشی اہمیت نہیں ہے۔ تاہم سی پیک کی بدولت پنجاب کا ووٹر یہ سمجھتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔
برطانوی امدادی ادارے ‘ڈی ایف آئی ڈی’ کے مطابق پنجاب نے تعلیم اور صحت کا معیار بہتر کرنے کے لیے غیرملکی امداد کو موثر طریقے سے استعمال کیا ہے۔
اس تمام صورتحال میں یہ امر واضح ہے کہ ملک میں اس قدر تقسیم پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دونوں میں ایک دوسرے کے خلاف اس قدر نفرت اور غصہ پایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے پر یہ دہکتا ہوا سیاسی گولہ خوفناک دھماکے سے پھٹ سکتا ہے۔
حکمران جماعت جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتائج کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ تصور کیجیے کہ اگر سپریم کورٹ نوازشریف کے خلاف فیصلہ نہیں دیتی تو کیا ہو گا۔
دونوں صورتوں میں کسی ایک جماعت بری طرح زک اٹھائے گی۔ 1999 میں فوج نے نوازشریف کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا انہیں پہلے ہی بے حد رنج اور غصہ ہے۔ اب انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ عدلیہ انہیں دیوار سے لگا رہی ہے اور ان کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے تلخ لہجے میں کہا جا رہا ہے کہ صرف سویلین سیاست دانوں کا ہی احتساب ہوتا ہے جبکہ جرنیلوں اور ججوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔
مجھے خدشہ ہے کہ آنے والے عرصے میں یہ تلخ زہر ہماری سیاست میں اندر تک سرایت کر جائے گا۔
بشکریہ: نقطہِ نظر سجاگ