بس آپ اس رستم نما سسٹم کو بچا لیجیے
(ترجمہ: یاسر چٹھہ) (از، نجم سیٹھی)
جے آئی ٹی کی سنجیدہ اور سوچی سمجھی رائے ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خانوادے نے اپنے معلوم و اعلان کردہ ذرائع آمدن سے کئی گنا زیادہ دولت کے انبار لگائے ہیں؛ ان کے خاندان کا دفاع جھوٹ کا پلندہ ہے، موٹے چھیدوں والی چھلنی جیسا؛ اوپر سے نا ہی یہ کوئی پسندیدہ معیار کے مسلمان ہیں؛ لہذا ان پر تعزیر لگانے کے سوائے کوئی اور رستہ ہی نہیں بچتا۔
کون کافر جے آئی ٹی کے اس جائزے پر حرف سوال اٹھا سکتا ہے؟ ہمارے یہاں ایک سسٹم ہے۔ اسے یقینا ایک خطا کار وزیراعظم کو دبوچ لینا چاہیے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کس قدر آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا ہوا تعصب موجود ہے اور کتنے سارے جھول پائے جاتے ہیں، انہیں آپ ایک طرف رکھیے۔ اس بات پر بھی دھیان مت دیجیے کہ وہ معزز جج جو مسند انصاف پر متمکن ہیں وہ بھی ناقابل احتساب ہیں۔ اس بات کو ایک طرف رکھنا ہی بہتر ہی ہوگا کہ وہ پکی سرکار جس نے تحقیقات کا ڈول ڈالا ہوا ہے، وہ بھی سوال و جواب سے بالا تر ہے۔
اس بات پر بھی ہونٹ سی لیجیے کہ ریش دراز متقی حضرات، اور اونچے سروں کا عادی میڈیا جو صرف اور صرف تعزیر ہی لگنے سے کم پر کسی طور راضی نہیں، وہ بھی کسی کے سامنے قابل مواخذہ نہیں۔ اس چیز کو بھی یادداشت سے کھرچ دیجیے کہ آزادی وطن کے برسوں سے لے کر اب تک آنے والے بائیس منتخب وزرائے اعظم کی مدت انتخاب کے پورا ہونے سے پہلے ہی اس رستم نما سسٹم کی جانب سے ان منتخب لوگوں کو نکال باہر کر دیا جاتا رہا ہے، اور اس نکال باہر کرنے کے لیے زور کے ٹھڈے پر کوئی باز پرس اس رستم نما سسٹم سے ہرگز نہیں ہوسکتی، اور یہ گنتی بائیس عدد وزرائے اعظم سے آگے کی جانب بھی رواں رہنے کے قرائن و آثار ہیں۔
اور ہاں اس بات پر بھی کان مت دھریے، بلکہ سنی ان سنی کر دیجیے کہ ریاست کے ان ستون اداروں کے کرتا دھرتاؤں کی دولت (جس میں بیرون ملک کے حکمران خانوادوں سے موصول شدہ عطیات و تحائف شامل رکھیے) بھی ان کے معلوم و اعلان کردہ ذرائع آمدن سے کہیں زیادہ ہے۔
سب پر حاوی یہ اعلٰی و اولٰی سسٹم جسے ہر صورت بچانے واسطے نظریہ ضرورت کے موجدین کرام منصفوں نے، ایک مقبول وزیراعظم کو پھانسی گھاٹ پر پہنچا دیا، اور کئی ایک کو گھر کا راستہ دکھا دیا، یعنی یہ اعلی عدلیہ کے جج، کسی کے سامنے قابل احتساب و جوابدہ نہیں ہیں۔
اس اعلٰی و ارفع سسٹم جسے ہر صورت بچایا جاتا ہے، اس میں وہ جرنیل جنہوں نے پاکستان کی تاریخ کے آدھے سے زیادہ برس اس پر براہ راست حکومت کی، اس ملک کا آدھا حصہ اس کاروبار میں کٹوا بھی دیا، اور حسب عادت سب سیاسی جماعتوں میں اور انتخابات میں دھاندلی بھی مچائی، وہ بھی کسی کو جوابدہ نہیں ہیں۔
اس اعلی و ارفع نظام کی ایک اور بہت عمدہ بات یہ ہے کہ یہ خودکار طریقے سے اپنے آپ کو رواں دواں رکھتا ہے۔ یہ کرپشن کے نام پر کئی کھیلوں کا اکھاڑہ رہا، لیکن سب حوادث و قرائن بتاتے ہیں کہ اس قدر رکھوالی اور نظریں گاڑے رکھنے کے باوجود کرپشن رتی برابر بھی کم نہیں ہوئی۔
لیکن یہ بڑی عجیب ستم ظریفی ہے کہ یہ کرپشن جو ہمارے مرحب و رستم نما سسٹم کو اس قدر ناگوار گزرتی ہے، عوام کی کسی گنتی میں نہیں آتی؛ انہیں جب بھی انتخابات کا موقع دیا جاتا ہے تو یہ کوڑھی، نصیبوں ماری عوام پھر سے انہی کرپٹ عناصر کو منتخب کرکے نیم جان ایوانوں میں بھیج دیتے ہیں۔
لیکن کچھ بنیادی نوعیت کے سوال پیش کرنے دیجیے۔ کیا اس طرح کے کرپشن کے مقدمات جو کہ تبدیلی اقتدار کو مدنظر رکھ کر قائم کیے جاتے ہیں، وہ پکی سرکار کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں؟
پاکستان کے سماج و سیاست میں بنیادی تضاد کیا ہے، اور یہ تضاد کہاں ہے: یہ تضاد ایک ناقابل احتساب و مواخذہ پکی سرکار، اور ڈری سہمی سول سوسائٹی کے درمیان کہیں ہے؛ یا پھر پاکستانی عوام اور ان کے کرپٹ سیاسی رہنماؤں کے بیچ میں یہ بنیادی تضاد ہے؟
جے آئی ٹی کے مطابق شریف خاندان نے 80 اور 90 کی دھائیوں میں دولت جمع کی اور اسے سفید کیا۔ لیکن دلچسپ بات ہے کہ ان دو عشروں کے دوران میاں نواز شریف کا احتساب اور جوابدہی نہیں کی گئی، الٹا انہیں پنجاب کی وزارت اعلی سے نوازا گیا۔ انہیں صرف اس وقت جلاوطن کیا گیا جب انہوں نے پکی سرکار کے پاؤں پر پاؤں رکھا۔
اب وہ دوبارہ نرغے میں آئے ہوئے ہیں۔ ان کے گلے پر تین عشروں سے پہلے کی کرپشن کا طوق ڈالا گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ آج کی پکی سرکار کے مفادات کے لیے ہی ہمہ وقت سر جھکانے نہیں کھڑے۔ بالکل اسی کرپشن کے نام پر محترمہ بے نظیر کی حکومت کی 1990 اور 1996 میں برطرفی کی گئی۔ محترمہ کی 1993 اور 2007 میں عارضی جان بخشی کی گئی۔ لیکن جونہی انہوں نے پکی سرکار کے ساتھ نام نہاد طے شدہ رستے پر چلنے کے “معاہدے” سے ہٹنے کے اشارے دینے شروع کیے، محترمہ کو رستے سے ہٹا دیا گیا۔
محمد خان جونیجو کو 1980 میں خود ہی اقتدار میں لانے والی پکی سرکار نے کسی کرپشن کے مقدمے کا ڈول ڈالے بغیر ہی دھڑلے سے رخصت کر دیا۔ میاں صاحب سے پہلے آصف زرداری کی پیپلز پارٹی بڑی خوش قسمت رہی کہ اسے صرف ایک وزیراعظم کے بلی چڑھانے کی قیمت پر ہی پانچ سال پورے کر لینے دیے گئے؛ خود آصف زرداری بمشکل اپنی مدت صدارت پوری کر پائے، اور بعد میں ان کی پارٹی کو ایک علاقائی پارٹی کے درجے تک محدود کردیا گیا؛ زرداری صاحب خود سندھ میں اپنے گھر کی نسبت سمندر پار محفوظ سمجھنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔
تاہم میاں صاحب کی حکومت کو پکی سرکار کو غصہ دلانے پر مشاہد اللہ خان، پرویز رشید، نہال ہاشمی اور کئی دوسروں کی قربانی اب تک دینا پڑی ہے، اور اس حال تک پہنچے ہیں۔
صاف اور سیدھی بات ہے کہ شریف خاندان نے اپنے معلوم ذرائع آمدن سے کہیں زیادہ دولت کے انبار لگائے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ ساری تفتیش و کارِروائی ماضی میں کئی بار کی طرح محض تبدیلی اقتدار کے لیے ہے؛ کرپشن وغیرہ کی تو محض دھول اڑائی جا رہی ہے۔
اس تبدیلی اقتدار کے مشن کی تکمیل کے لیے پہلے دو دھرنے ناکام رہے تو یہ تیسرا رستہ منتخب کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پانامہ کیس بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ مقصد البتہ وہی پہلے والا ہی ہے۔
نواز شریف صاحب کے پاس بہت محدود رستے موجود ہیں۔ وہ مزاحمت کا رستہ چن کر بہت توہین امیز انداز سے رخصت ہوسکتے ہیں۔ بصورت دیگر وہ اعلی اخلاقی بنیادوں پر مستعفی ہوکر اپنی جنگ جاری رکھ سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں وہ اپنے آپ کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔
اس بابت جو مشکل اور اہم سوال ہے وہ ان کے سیاسی کارکنوں اور ووٹ بینک کی جانب سے ان کے اقتدار کے منظر سے ہٹنے کے فیصلے پر ردعمل کے متعلق ہےکہ وہ میاں صاحب کے کسی بھی فیصلے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ 1993 اور 1999 میں ان کی جانب سے پکی سرکار کے سامنے سینہ سپر ہوجانے کے عمل نے ان کے لیے مظلومیت کی شبیہ حاصل کر لینے میں معاونت کی؛ اس شبیہ کا انہیں 2013 میں جیت کی صورت میں بدل ملا۔
لیکن اب کی بار پکی سرکار انہیں ہمیشہ کے لیے اپنے رستے سے ہٹانے کی قسم کھائے بیٹھی ہے۔ اس بار میاں صاحب کے مخالف پکی سرکار کی صف بندی کے کردار نا صرف پہلے سے عددی لحاظ سے کہیں زیادہ ہیں، بلکہ زیادہ متحد اور کہیں زیادہ طاقت ور ہیں۔
انگریزی متن کا ذریعہ: فرائیڈے ٹائمز