سپریم کورٹ کا پانامہ کیس فیصلہ اور جے آئی ٹی رپورٹ کا جائزہ : کیا وزیراعظم جا رہے؟
(اسد علی طور)
پانامہ لیکس کیس فیصلہ کی روشنی میں قائم کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہوچکی۔ فریقین اور میڈیا اس رپورٹ کا مطالعہ کرکے اپنی اپنی جانب سے رائے زنی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ جے آئی ٹی نے وزیراعظم اور ان کے بچوں پر جو الزامات لگائے ہیں وہ کم از کم “سیاسی” طور پر بہت سنگین ہیں، لیکن یہ قانونی طور پر بھی کیا اتنے ہی “مہلک” ہیں کہ سپریم کورٹ اِن کی بنیاد پر وزیراعظم نوازشریف کی سیاسی گردن زنی کرسکے؟
فریقین اپنی اپنی خواہشات کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ میں لگے الزامات سے سپریم کورٹ کا ممکنہ فیصلہ اخذ کررہے ہیں جس بنیاد پر کافی کنفیوژن پایا جاتا ہے۔اس بات میں دوسری کوئی رائے نہیں کہ سپریم کورٹ آئین کی حتمی تشریح کا حق رکھتی ہے اور اپنی تشریح کی روشنی میں ہی وہ اپنی حدود کا تعین بھی خود کرسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کیا سپریم کورٹ عوامی مفاد کے آرٹیکل 184/3 کے تحت زیرِ سماعت درخواستوں میں اس حد تک جائے گی کہ وزیراعظم کو اسی فورم پر مجرم قرار دے۔ پھر اس فیصلہ کو لے کر اپوزیشن اسپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن کے سامنے آرٹیکل 62/ 63 کا ریفرنس دائر کرے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے اس لیے ان کو نااہل کیا جائے۔ آئیے ان ممکنات کا جواب پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دوران ججز کے کچھ ریمارکس اور فیصلہ میں تحریر کردہ نکات کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پانامہ لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے دوران ایک موقع پر عوامی مفاد کے آرٹیکل 184/ 3 میں سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر دلائل دیتے ہوئے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے ججز کو کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات لامحدود ہیں اور وہ آرٹیکل 184/ 3 میں اپنا دائرہ سماعت بڑھاتی چلی آئی ہے اور ہم امید رکھتے ہیں اس کیس میں بھی سپریم کورٹ اپنی حدود کو مزید آگے لے کر جائے گی۔ اِس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے نعیم بخاری ایڈوکیٹ کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ:
“ہم نے baby steps لیے ہیں اس جگہ تک آنے کا فاصلہ طے کرنے کے لیے اور مستقبل میں بھی ہم اسی طرح آگے بڑھیں گے۔” یعنی کہ سپریم کورٹ کے اختیارات ضرور لامحدود ہیں لیکن ان اختیارات کے استعمال کے لیے اپنی حدود کا تعین کرتے وقت وہ بڑی بڑی چھلانگیں نہیں لگائے گی بلکہ چھوٹ چھوٹے مگر مضبوط قدموں کے ساتھ آگے بڑھے گی۔
اسی طرح پانامہ لیکس کیس فیصلہ کے مصنف جسٹس اعجاز افضل فیصلے میں لکھتے ہیں کہ:
“ہمیں ضرور ایک خط امتیاز کھینچنا ہوگا اس عدالت کو عوامی مفاد کے آرٹیکل 184/3 کے تحت حاصل اختیارات اور احتساب عدالت کو اس کے آرڈیننس اور آئین کے آرٹیکل 62/ 63 کے تحت نااہلی کے درمیان۔ عوامی نمائندگی کے قانون کی شق 99 اور جرم کا ذمہ دار قراردینے کے قانون کی شقوں نو، دس اور پندرہ کو بھی دیکھنا ہوگا۔ کسی رکن پارلیمان کو شفاف ٹرائل کے تمام ضابطے پورے کیے اور طے شدہ طریقہ کار اختیار کیے بغیر مجرم قرارنہیں دیاجاسکتا۔ ہم قانون اور آئین کی کھچڑی نہیں بناسکتے۔
اس طریقے سے کہ آرڈیننس کی شقیں نو اور پندرہ آئین کے 62/ 63 کے ساتھ عوامی نمائندگی کے قانون کی شق 99 سے ملا کر پڑھیں اور عوامی مفاد کے مقدمے کے آرٹیکل 184/ 3 میں ایسا فیصلہ دے دیں جو کہ احتساب عدالت ایک مکمل ٹرائل کے بعد دینے کی مجاز ہے۔ اس طرح کا فیصلہ نہ صرف انصاف کے خلاف ہوگابلکہ قانون کی نظر میں فیصلہ تصور ہی نہیں ہوگا کیونکہ قانون اور اختیار سماعت کے بغیر دیا گیا ہوگا۔”
موجودہ پانامہ لیکس عملدرآمد تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل پانامہ لیکس فیصلہ میں مزید لکھتے ہیں کہ:
“جب کسی شخص کے خلاف احتساب آرڈیننس کے تحت مقدمہ چلانا ہے تو اس کے مطابق دیے گئے طریقہ کار کو بھی اپنانا ہوگا۔ قانون کو اپنا کام کرنے دیں، تفتیشی اداروں کو اپنا کام کرنے دیں، احتساب عدالت اور دیگر متعلقہ عدالتیں موجود ہیں ان کو کام کرنے دیا جائے، وزیراعظم کو تفتیش، ٹرائل اور اپیل کے تمام مراحل سے گزرنے دیں۔ ہم ان تمام مراحل سے چھلانگ لگاکر آرٹیکل 25 کی سنگین خلاف ورزی نہیں کرسکتے جو قانون کی حکمرانی کا دل اور اس کی روح ہے۔”
جسٹس اعجاز افضل فیصلہ میں اپنی اس دلیل کا اختتام اس نوٹ پر کرتے ہیں:
“ہم اس طرح کا کوئی بھی جھکاﺅ نہیں رکھتے کہ وہ اختیارات حاصل کرکے استعمال کریں جو آئین اور قانون نے ہمیں نہیں دیے۔ کسی بھی بیان کو دیکھنےکے لیے قانون نے جو چیزیں دی ہیں وہ جرح کے ساتھ قانون شہادت کے مطابق حقائق وثبوت کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے طریقہ کارہے۔ ہم کسی ایک مقدمےکے لیے اس طے شدہ طریقہ کار سے انحراف نہیں کرسکتے اس لیے اصول و قانون کا علم جو ہم نے صدیوں کی ریاضت سے حاصل کیا ہے جس کے لیے ہم نے اپنا خون، پسینہ بہایا ہے، اس کو کسی ایک مقدمے کے لیے مٹا سکتے ہیں اور نہ ہی فنا کریں گے۔”
اب ذرا ان نکات کی روشنی میں جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم نوازشریف پر لگے چارجز کا جائزہ لیں۔ وزیراعظم کے بارے میں جے آئی ٹی کہتی ہے کہ ان طرزِ زندگی اُن کی آمدن سے میل نہیں کھاتا۔ اِس نتیجہ کو اخذ کرنے کی بنیاد وہ وزیراعظم کے الیکشن کمیشن میں ظاہر کردہ کاروبار، آمدن اور ٹیکس ریٹرز کا جائزہ و موازنہ بتاتے ہیں۔ لیکن جے آئی ٹی خود بھی اس کے اوپر نیب قانون کی شق 9 کا اطلاق تجویز کرتی ہے اور نیب لاء قانونِ شہادت اثاثوں کی ملکیت رکھنے والے پر ہی بارِ ثبوت بھی رکھتا ہے کہ وہ ثابت کرے کہ اس نے یہ اثاثے کن ذرائع آمدن سے بنائے۔
لیکن کیا سپریم کورٹ خود نیب کورٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے یہیں وزیراعظم کا ٹرائل شروع کردے گی؟
ذرا دوبارہ جسٹس اعجاز افضل کے اٹھائے گئے نکتے کو پڑھیں کہ کیا “عوامی مفاد کے مقدمے کے آرٹیکل 184/ 3 میں ایسا فیصلہ دے دیں جو کہ احتساب عدالت ایک مکمل ٹرائل کے بعد دینے کی مجاز ہے۔ اس طرح کا فیصلہ نہ صرف انصاف کے خلاف ہوگا بلکہ قانون کی نظر میں فیصلہ تصور ہی نہیں ہوگا کیونکہ قانون اور اختیارسماعت کے بغیر دیا گیا ہوگا۔ جب کسی شخص کے خلاف احتساب آرڈیننس کے تحت مقدمہ چلانا ہے تو اس کے مطابق دیے گئے طریقہ کار کو بھی اپنانا ہوگا۔ قانون کو اپنا کام کرنے دیں، تفتیشی اداروں کو اپنا کام کرنے دیں،احتساب عدالت اور دیگر متعلقہ عدالتیں موجود ہیں ان کو کام کرنے دیاجائے، وزیراعظم کو تفتیش، ٹرائل اور اپیل کے تمام مراحل سے گزرنے دیں۔ ہم ان تمام مراحل سے چھلانگ لگا کر آرٹیکل 25 کی سنگین خلاف ورزی نہیں کرسکتے جو قانون کی حکمرانی کا دل اور اس کی روح ہے۔” یعنی یہ معاملہ نیب کورٹ کو بھجوانے کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔
اسی طرح جے آئی ٹی کی سب سے مہلک دریافت وزیراعظم کا دبئی میں قائم ایک آف شور کمپنی کے بورڈ کا 10 ہزار درہم ماہوار پر چیئرمین ہونا ہے۔ وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز نے جے آئی ٹی کی اس دریافت کی تصدیق کردی ہے۔ یہ الیکشن کمیشن کے روبرو اثاثے چھپانے کا کیس بنتا ہے جس میں الیکشن کمیشن سے استدعا کی جاسکتی ہے کہ وزیراعظم اس کمپنی کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرکے صادق اور امین نہیں رہے اس لیے آرٹیکل 62/ 63 کا اطلاق کرتے ہوئے اُن کو نااہل قرار دے دیا جائے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید جن کا کیس پوری طرح گھومتا ہی آرٹیکل 62/63 کے گرد ہے اُن کی تو یقینی خواہش ہوگی کہ سپریم کورٹ وزیراعظم کو بادی النظر میں صادق اور امین نہیں رہے کا لکھ کر الیکشن کمیشن کو نااہل کرنے کی ہدایت کے ساتھ معاملہ بھجوا دے۔ لیکن کیا ایسا ہوگا بھی؟ اگر واقعی ایسا ہوا تو پھر الیکشن کمیشن کا کردار صرف سپریم کورٹ کے احکامات پر من و عن عملدرآمد کرنے والے فورم سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا اور شریف خاندان بھی پکارے گا کہ اُن کو متعلقہ فورم پر صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔
اب اس نکتے کو دوبارہ جسٹس اعجاز افضل کے تحریر کردہ پانامہ لیکس کے فیصلے کے ان جملوں کی روشنی میں دیکھیں جس میں وہ لکھتے ہیں کہ:
“ہمیں ضرور ایک خط امتیاز کھینچنا ہوگا اس عدالت کے عوامی مفاد کے آرٹیکل 184/ 3 تحت حاصل اختیارات اور آئین کے آرٹیکل 62/ 63 کے تحت نااہلی کے درمیان۔ عوامی نمائندگی کے قانون کی شق 99 اور جرم کا ذمہ دار قرار دینے کے قانون کی شقوں نو، دس اور پندرہ کو بھی دیکھنا ہوگا، کسی رکن پارلیمان کو شفاف ٹرائل کے تمام ضابطے پورے کیے اور طے شدہ طریقہ کار اختیار کیے بغیر مجرم قرارنہیں دیاجاسکتا۔ ہم قانون اور آئین کی کھچڑی نہیں بناسکتے اس طریقے سے کہ آرڈیننس کی شقیں نو اور پندرہ آئین کے 62/63 کے ساتھ عوامی نمائندگی کے قانون کی شق 99 سے ملا کر پڑھیں۔”
جہاں تک جے آئی ٹی کی طرف سے وزیراعظم پر بچوں سے کروڑوں روپے کے تحائف وصول کرنے کو بنیاد بنا کر اُن کو ممکنہ طور پر آف شور کمپنیوں کا بےنامی دار قرار دیا گیا ہے تو یہ قانونی طور پر اتنا مضبوط الزام نہیں کہ سپریم کورٹ ہی اس کو طے کرسکے۔ کیونکہ سپریم کورٹ جیسا انصاف کا اعلیٰ ترین فورم امکانات پر فیصلے نہیں سنا سکتا۔۔ اس کے لیے طویل تحقیقات کے بعد ٹھوس شواہد کی ضرورت کی ضرورت ہوگی جس کا حکم سپریم کورٹ ممکنہ طور پر دے گی۔
پانامہ لیکس عملدرآمد کے تین رکنی بینچ کے ذہنوں میں آنے والے دنوں میں فریقین کے دلائل سنتے وقت اور فیصلہ تحریر کرتے وقت یقینی طور پر پچھلے فیصلہ کے مصنف اور موجودہ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل کے یہ جملے ضرور ہوں گے کہ “ہم اس طرح کا کوئی بھی جھکاﺅ نہیں رکھتے کہ وہ اختیارات حاصل کرکے استعمال کریں جو آئین اور قانون نے ہمیں نہیں دیے۔
کسی بھی بیان کو دیکھنے کے لیے قانون نے جو چیزیں دی ہیں وہ جرح کے ساتھ قانون شہادت کے مطابق حقائق و ثبوت کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے طریقہ کار ہے۔ ہم کسی ایک مقدمےکے لیے اس طے شدہ طریقہ کار سے انحراف نہیں کرسکتے اس لیے اصول و قانون کا علم جو ہم نے صدیوں کی ریاضت سے حاصل کیا ہے جسکے لیے ہم نے اپنا خون، پسینہ بہایا ہے، اس کو کسی ایک مقدمے کے لیے مٹاسکتے ہیں اور نہ ہی فنا کریں گے۔”
شاید تبھی گزشہ سماعت پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کو ہدایت کی کہ وہ پانامہ لیکس فیصلہ کو مکمل پڑھ کر اپنے دلائل کا فوکس صرف پانامہ لیکس فیصلہ اور جے آئی ٹی رپورٹ کو ہی رکھیں اور پچھلی سماعت میں دیے گئے دلائل کو مت دہرائیں۔ سوموار سے شروع ہونے والی سماعت میں یہ دیکھنا دلچسی سے خالی نہ ہوگا کہ درخواست گزاروں کے وکلا کیا ججز کو فیصلہ میں تحریر اس پیراگراف سے نکل کر فیصلہ دینے پر آمادہ کرتے ہیں یا شریف خاندان کے وکلاء بینچ کو جسٹس اعجاز افضل کی اسی دلیل تک محدود رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔