عورت اور مالک رام
(انوار حسین حقی)
انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس( جسے جیمز ہسٹیکنز نے ای کیا ہے) کے مطابق بابلی تہذیب میں سب سے پہلے عورت کو مرد کی جائیداد سمجھا گیا اس طرح اس کی حیثیت مال اور ذرائع پیداوار کی ہو گئی۔ قتل کی دیت میں سو اونٹ یا چالیس اونٹ اور ایک دوشیزہ دی جانے لگی۔ یہ رسم آج بھی قتلِ خطاء کی صورت میں مصر، اُردن اور شام میں عام ہے۔ اس کے بعد اونٹوں کے بجائے نقد رقم اور دوشیزائیں دی جانے لگیں۔
بابلی تہذیب میں تقریباً 1800 قبل مسیح میں قتل کی دیت میں قاتل اپنی بیٹیاں یا قریبی رشتہ دار دوشیزائیں دےنے لگے تھے۔ اس قسم کی مختلف رسومات آج پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھی رائج ہیں۔ بات رسموں تک محدود نہیں اکسیویں صدی کے 16 سال گزرنے کے باوجود بھی ہمارے روشن خیال معاشرے میں ابھی تک بابلی تہذیب کے ذہن رکھنے والے مرد پائے جاتے ہیں۔
اندھیروں سے بھرا ہمارا سماج عورت کو مرد کی جائیداد سے بالاتر کچھ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس خطے میں بدھ مت کے اثرات بھی ہیں جس میں عورت کو گناہوں کی پوٹ سمجھا جاتا ہے۔ ایسی ہی مختلف وجوہات کی وجہ سے اس پورے خطے میں عورت کو زمانہ قدیم سے ذلت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔
اسلام اور فطرت نے عورت کو احترام ، نزاکت اور امیتاز عطا کیا ہے۔ قدیم ایام کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ
”دھرتی کو ماں کا تصور بھی عورت سے ہی ملا ہے کیونکہ زمین اور عورت پیدائش کے عمل میں اشتراک رکھتی ہے۔“
زراعت پیشہ اقوام میں عورت کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے۔ انسان کو زراعت اور کھیتی باڑی سے وابستہ کرنے والی عورت ہی ہے ورنہ مرد تو صرف شکار ہی کیا کرتے تھے۔ آج کی دیہی زندگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو آج کی عورت کھیتوں میں مردوں سے زیادہ کام کرتی ہے، گھر بار سنبھالتی ہے، بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے۔
یہ مردوں سے کئی گناہ زیادہ کام کرتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں عورت کو وہ مقام کبھی حاصل نہیں رہا جس کی وہ حقدار ہے۔
ہماری سیاست اور معاشرت میں عورت لافانی کردار کی مالک ہے۔ تاریخ آزادی اور اُس سے پہلے کی خواتین کے زندہ اور مثبت کردار کی مشعلیں فروزاں ہیں۔ بیٹی کو رحمت اللعالمین نے اللہ پاک کی رحمت قرار دیا ہے۔
علامہ اقبال نے جنگ طرابلس میں زخمی سپاہیوں کی عیادت اور دیکھ بھال کرنے والے فاطمہ کو آبروئے ملت کہا ہے۔ تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان کے زریں ابواب قوم کی بہنوں ، بیٹیوں اور ماوں کے کردار سے اُجلے ہیں۔
یہ سب کچھ ہمیں معلوم ہے لیکن شاید ہمارا معاشرتی مزاج بگڑ گیا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی صرف اپنے نفع و نقصان کا ترازو تھامے بیٹھا ہے۔ حق و ناحق اور جائز و ناجائز کی تمیز اُٹھ گئی ہے، ہر فرد ہر متاع اور ہر نفع خود سمیٹ لینے کی فکر اور کاوش میں مگن ہے۔
اس گھٹن زدہ ماحول میں جب بھی دل گھُٹتا ہے تو کتابوں کے آس پاس رہنے سے نہ صرف سکون نصیب ہوتا ہے بلکہ اُڑانوں کی وراثت کی ترسیل بھی ہوتی ہے۔
ہماری سیاست اور معاشرت کے برہمن کتابوں سے سروکار نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے ان کی شعوری نا پختگی کے مظاہرے آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔کچھ دنوں تک تو ان پر ماتم ہوتا ہے اور پھر نسیان کے مرض میں مبتلا معاشرہ کسی دوسری جانب اپنا اپنا رُخ موڑ لیتا ہے۔
غالبیات کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے والے قارئین پاکستانی گجرات کے ضلع پھالیہ میں پیدا ہونے والے مالک رام پونجا سے نا واقف نہیں ہیں۔ اپنے دور کے سوداگر لالہ نہال چند کے اس فرزند نے غالب پر یادگار اور شاندار کام کیا ہے۔ علم و ادب میں زندہ رہنے والے مالک رام پونجا نے اپنی وفات سے چند روز قبل اسلام قبول کرکے اپنا نام عبد المالک رکھ لیا تھا۔
وہ ہندو تھے تو انہیں اسلامیات سے بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ انہوں نے آریہ سماج کے ہفتہ وار ترجمان اخبار ”آریہ گزٹ “ کی ادارت کے دنوں میں مختلف مذاہب بالخصوص اسلام، ہندو مت، اور عیسائیت کا تقابلی مطالعہ شروع کیا۔
اس مطالعے کے دوران مالک رام کو جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اسلام میں عورت کا درجہ اور مقام ہے۔ انہوں نے دو کتابیں عورت اور اسلامی تعلیم اور اسلامیات قلمبند کیں۔ عورت اور اسلامی تعلیم مالک رام کی خاص تصنیف ہے۔ اسے اس موضوع کے حوالے سے شاندار کاوش کہا جا سکتا ہے۔
ایک عمدہ ترتیب سے بیٹی ، بیوی ، ماں اور وارثہ کی مختلف حیثیتوں سے خواتین سے متعلق اسلامی احکام اور ہدایات پیش کی گئی ہیں اور اس سلسلہ میں قرآن و حدیث سے بہ کثرت استدلال کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر مالک رام کا مطالعہ اسلام قابل قدر اور بعض خامیوں کے باوجود لائق اعتبار ہے۔
عورت کے اُس مقام و مرتبہ کی حقانیت کی گواہی قدم قدم پر ملتی ہے جو اسلام نے عورت کو عطا کیا ہے۔ ایک مثال کے طور پر مالک رام کا تذکرہ کالم میں کیا گیا ہے۔ مالک رام کو قبول اسلام کی جانب راغب کرنے میں اسلام میں عطا کردہ عورت کے مقام نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
لیکن افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں روز مرہ کا جو طرزِ عمل ہے اُس کا نوحہ لکھنے کے لیے میں لفظوں کے ذخیرے چھاننا بھی چاہوں تو الفاظ بے وقعت اور گونگے لگتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے جرنیلی استبداد کے سائے تلے جمہوری نظام میں دینی سیاسی جماعتوں کو اقتدار کا وافر حصہ ملا تو تنظیمی جدوجہد کرنے والی خواتین کو چھوڑ کر دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی قریبی رشتہ دار خواتین پارلیمان میں جا بیٹھی تھیں۔
اس وقت صوبہ خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن وہاں پاکستان تحریک انصاف کی وہ خواتین سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں جو وزیر اعلیٰ اور وزراء کی قرابت داری کے بجائے عمران خان کے مشن سے وابستہ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی کمان ایک طویل عرصہ تک بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو مرحومہ کے ہاتھ میں رہی ہے لیکن اس جماعت کی خواتین بھی کسی مثالی سلوک کی حامل نہیں ہیں۔
ایک دوسرے کے حقوق بھُلا دینے کی وجہ سے ہمارے ہاں خود غرضی کا جو دور دورہ ہے وہ کسی اچھے اور پر امن مستقبل کی پیش گوئی کرتے نظر نہیں آتا۔
اس صورتحال کے تدارک کے لیے یقیناً کئی راستے اور راہیں ہیں لیکن جو راستہ مجھے دکھائی دیتا ہے اُس کے بارے میں کچھ کہنے کے بجائے سید نصیر شاہ کی ایک نظم قارئین کی نذر کرکے کالم کا اختتام کرنا چاہوں گا۔
اے مردو
اب خدا را تُم عنان حکمرانی عورتوں کے ہاتھ میں دے دو
ضرورت تھی زمینوں کو کہاں ان خون سے لتھڑے زمانوں کی
تمہاری خون میں ڈوبی ہوئی تاریخ سے دنیا ہے شرمندہ
حکومت دے کے پاگل بھیڑیوں کو آج فطرت بھی پشیماں ہے۔
جہاں بانی تمہیں آتی نہیں اب جہاں والوں کی جان چھوڑو
لہو میں لت پت کر دیا ہے وقت کے بے داغ چہرے کو
تمہاری زخم خوردہ آدمیت کو
محبت کی ضرورت ہے ضرورت ہے اسے ماوں کی ممتا اور بہنوں کی وفاوں کی
تمدن کا ہوا آغاز جن سے ان دعاوں کی
اے مردو، اب خدا را تُم
عنانِ حکمرانی عورتوں کے ہاتھ میں دے دو۔