اشرافیہ اور عوامی مفاد میں تصادم
(آصف مالک)
کہتے ہیں بھٹو کو پھانسی کے وقت نادان دوست کہا کرتے تھے: بھٹو کو پھانسی دے دو ملک میں قتل ختم ہو جائیں گے۔ “پھر بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔”
ملک میں قتل بھی جاری ہیں، آج کل سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے حوالے سے کچھ نادان دوست کہتے ہیں: نواز شریف کو سزا دے دو گے ملک کی سمت درست ہو جائے گی۔ اسی طرح کی باتیں پہلے بھی ہوئی تھیں۔ گیلانی کو جب سزا دی جا رہی تھی تب بھی یہی کہا گیا تھا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس ملک کی اشرافیہ آپس میں ملی ہوئی ہے۔ یہ ایک دوسرے کے مفاد کا احترام اور حفاظت کرتے ہیں۔ یہاں کے جج، صحافی، بیوروکریٹ، جرنیل، وکیل، پولیس، سیاستدان الغرض ہر چھوٹی مچھلی بڑی مچھلی کے لئے “خوراک” کا بندوبست کرتی ہے۔
ان چھوٹی مچھلیوں پر “مگرمچھوں” کی نظر ہوتی ہے اور یہ مگرمچھ ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی آپس میں رشتہ داریاں ہوتی ہیں، یہ کبھی بھی سچے دل سے ملک کو ٹھیک نہیں کرنا چاہتے۔ اگر یہ ملک کا سوچیں تو ان کے رشتے ختم ہوتے ہیں۔ ان کی رشتہ داریاں ٹوٹتی ہیں۔ اور کوئی یہ نہیں چاہتا کہ کے رشتہ دار کو نقصان پہنچے۔
عمران خان کبھی نہیں چاہے گا کہ علیم خان، جہانگیر ترین، اس کی بہنوں، پرویز خٹک الغرض شوکت خانم ہسپتال اور پارٹی فنڈ کا آڈٹ ہو۔ کیونکہ اس طرح اس کے مفادات کو گزند پہنچے گی۔ خود دیکھ لیں الیکشن کمیشن میں اکبر ایس بابر کا کیس 4 سال سے چل رہا ہے۔ مگر کوئی حل نہیں نکلا جو مطالبات نوازشریف سے کیے جا رہے ہیں خود الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں جواب نہیں دیا جا رہا۔
عمران خان کبھی نہیں چاہے گا کہ جہانگیر ترین کا احتساب ہو کیونکہ وہ اس کے جہاز پر سفر کرتا ہے۔ علیم خان سے لاہور میں پراپرٹی سکیموں میں لوگوں کو لوٹنے کا نہیں پوچھے گا کیونکہ وہ شوکت خانم کا ایک بڑا ڈونر ہے۔ نیازی سروسز میں اپنی بہنوں کے اثاثے اور اکاؤنٹس نہیں سامنے لائے کیونکہ وہ اس کی بہنیں ہیں مگر حسن اور حسین سے مریم کے اثاثوں کا ثبوت ضرور مانگے گا کیونکہ وہاں سیاست ہے اور حلیف کو زیر کرنا ہے۔ یہاں بہنیں اور مفاد ہیں اور مفاد ہر کسی کو پیارا ہے۔
مفاد تو شریف خاندان کو بھی پیارا ہے۔ بٹوں اور کشمیریوں کے علاوہ ان کی نظر کرم کسی دوسرے پر رکتی ہی نہیں۔ مانا آپ کے خاندان کا کاروبار 1937 سے ہو گا، دو بار آپ کے اثاثے بھی قومیائے گئے ہوں گے۔ ان کو نقصان بھی پہنچایا گیا ہو گا۔ مگر ثبوت دینا آپ کا فرض کیونکہ اگر حضرت عمر فاروق (رض) سے سوال پوچھا جا سکتا ہے تو آپ سے کیوں نہیں۔ آپ ملک کے وزیراعظم ہیں اسی وجہ سے سوال بھی پوچھا جا رہا ہے جو آپ کو برا لگ رہا ہے۔
مگر بقول شاعر
جن کے رتبے ہیں سوا
ان کی سوا مشکل ہے
تلہ گنگ کے کسی پسماندہ گاؤں میں رہنے والے اللہ دتہ سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ اس کے اثاثے اتنے کیوں ہیں وہ اس حد تک جواب دہ نہیں جتنا آپ ہیں۔ آپ کو ہر شخص کے سوال کا جواب دینا چاہے جو اس ملک کا باسی ہے کیونکہ آپ پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ آپ سچے ہوں گے مگر اپنے ووٹرز کے لیے؛ لیکن تحریک انصاف والوں کے لئے آپ نے ملک کو لوٹا ہے۔
فیصلہ آپ نے کرنا ہے کیونکہ حقیقت اور سچ بھی آپ جانتے ہیں۔ اگر آپ سچے ہیں تو سب کچھ عوام کے سامنے لے آئیں۔ اگر آپ سچے ہیں تو مالٹا کے وزیراعظم کی طرح نئے الیکشن کا اعلان کر دیں جن ڈیڑھ کروڑ ووٹرز نے 2013 میں آپ کو وزیراعظم بنایا وہ 2018 میں بھی بنا دیں گے۔
اگر آپ سچے ہیں تو بجلی کے لگائے ہوئے منصوبوں پر اعتماد کریں۔ آپ کہتے ہیں ہم نے ثبوت دے دیے ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ بطور وزیراعظم قوم سے خطاب کریں تمام ثبوت اور سازشوں کو عوام کے سامنے لے آئیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں کرتے تو یا تو آپ سچ نہیں بول رہے یا پھر آپ کسی کے مفاد کی حفاظت کر رہے ہیں۔