میڈیا کا نوحہ
(غازی صلاح الدین)
ان سلگتے ہوئے دنوں میں کہ جب سیاست کے درجہ حرارت سے جذبات میں ابال پیدا ہوتا جارہا ہے کسے یہ مہلت ہے کہ ٹھنڈے دل اور توجہ سے ملک کے حالات پر غور کرے۔ ویسے یہ کام تو میڈیا کا ہے۔ اور اس ہفتے تو میڈیا کو میڈیا کے بارے میں سوچنے اور بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
3 مئی ہر سال پریس کی آزادی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ گویا رسم دنیا بھی ہے اور موقع بھی… پھر ڈان لیکس کا قضیہ بھی اسی ہفتے ایسے موڑ تک آ پہنچا کہ جب میڈیا کی آزادی اور قومی سلامتی کے درمیان سرحدوں کا تعین ایک ایسا سوال بن کر ابھرا ہے کہ جس نے اداروں کے درمیان تناؤ کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس میدان کارزار میں سوشل میڈیا کا شعلہ بھی لپکا ہے۔
افواج پاکستان کے ترجمان کے ٹوئٹ کے چند الفاظ ہماری تاریخ کے کئی باب اجاگر کر گئے۔ کچھ لوگ کھل اٹھے۔ کچھ لوگ دہل گئے۔ اور کئی اس فکر میں مبتلا ہوگئے کہ حالات کی نزاکت کون کسے کس طرح سمجھائے۔ ہاں، اگر سوشل میڈیا کی بات کریں تو پامانا پیپرز کے بارے میں مریم نواز کی ٹوئٹ کی بازگشت بھی ایک جرمن صحافی کی ٹوئٹ کی شکل میں سنی گئی۔
پریس کی آزادی کے عالمی دن کی ایک خبر ہمارے میڈیا کے رنگ و روپ کو اجاگر کر گئی کہ جب پیمرا نے ٹیلی وژن کے دو چینلز کے لائسنس معطل کردیے گو اگلے دن عدالت نے انہیں بحال کردیا اس معاملے کو بھی آپ اسی لڑی میں پروکر دیکھیں کہ جس کا تعلق میڈیا کی آزادی کی حدوں اور قومی سلامتی کے تصور کی بندشوں اور اداروں کے درمیان تناؤ سے ہے۔
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کیسے ایک طرف تو انتہا پسندی اور تعصب اور عدم برداشت کی قوتیں میڈیا کی آزادی کو محدود کرتی ہیں تو دوسری طرف یہی قوتیں آزادی کا نعرہ لگا کر میڈیا پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہیں یہ سب سوچنے اور سمجھنے کی باتیں ہیں۔ لیکن سوچنا تو دور کی بات ہے۔ یہاں تو کسی کو بات کرنا بھی نہیں آتی۔ ثبوت کے طور پر ٹیلی وژن کے ٹاک شوز ملاحظہ کریں۔
ان اکھاڑوں میں میڈیا اور سیاست کے بڑے بڑے پہلوان اپنے کرتب دکھاتے ہیں۔ لیکن سوالوں کے جواب نہیں ملتے۔ کوئی گتھی نہیں سلجھتی۔ جھوٹ اور سچ کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ وہی گنے چنے لوگ گفتگو کرنے سے زیادہ ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔ کسی کویہ حساب بھی لگانا چاہئے کہ فلاں سیاسی ترجمان نے ایک مہینے یا ایک سال میں اپنا کتنا وقت ٹیلی وژن کے کیمروں کے سامنے کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر گزارا ہے۔ آنے جانے اور انتظارکرنے کا وقفہ بھی شامل کرلیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ان اہم افراد کو پڑھنے لکھنے اور سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔
یا شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں پڑھنے لکھنے اور متعلقہ ماہرین اور دانشوروں کی صحبت میں بیٹھ کر کچھ سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک خیال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو میڈیا کا فریضہ ہے کہ وہ صورت حال کی تشریح اور مسائل کا تجزیہ پیش کرے۔ لیکن میڈیا کو بھی یہ سب کرنے کی کہاں مہلت ملتی ہے۔ بس ایک میلہ سا لگا ہے۔
اس افراتفری کے باوجود، میڈیا کی اہمیت، اس کی پہنچ اور عوام کی سوچ کو متاثر کرنے کی اس کی صلاحیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سوشل میڈیا کی ایک نئی دنیا دریافت کی جاچکی ہے۔ پرانا میڈیا کہ جس میں مجھ جیسے صحافیوں نے ایک عمر گزاری اب ایک نئے میڈیا کے سانچے میں ڈھل رہا ہے۔ میڈیا کی ہیئت اور سرشت میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کا عمل ابھی نامکمل ہے اور عالمی سطح پر میڈیا ایک بحران سے دوچار ہے۔ اب ہر شہری جس کے پاس کمپیوٹر یا اسمارٹ فون ہو سوشل میڈیا کے بازار میں اپنی دکان سجا سکتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں عام لوگ بھی صحافی بن سکتے ہیں۔ یہ جوہر چھوٹے بڑے واقعہ کی وڈیو کہیں نہ کہیں سے مل جاتی ہے تو اسی لیے کہ تقریباً سب کے پاس موبائل فون ہیں اور وہ خاموشی سے کسی بھی منظر کو اپنے فون میں محفوظ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ٹوٹے کسی واقعہ کی پوری سچائی کو بیان کرسکتے ہیں۔ پھربھی، ایسے وڈیو ہماری موجودہ صحافت کا رخ متعین کرسکتے ہیں۔ مشال خاں کے بہیمانہ قتل کی مثال موجود ہے کہ کیسے واقعہ کے مختلف پہلو بعد میں آشکار ہوئے۔ بڑے اداروں کے پیشہ ور صحافی بھی اب صرف اسمارٹ فون سے لیس ہوکر میدان میں اترتے ہیں۔
نئی ٹیکنالوجی نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ لیکن صحافت کے بنیادی اصول اٹل ہیں۔ اسی لیے میری جب صحافت کے موجودہ طالب علموں سے کوئی ملاقات ہوتی ہے یا میں کسی تعلیمی ادارے میں ان سے مخاطب ہوتا ہوں تو سب سے پہلے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میری نئے میڈیا سے کوئی گہری وابستگی نہیں ہے۔ میں کوشش کرکے بھی اس نئی دنیا کے سارے اسرار و رموز نہیں سمجھ سکتا۔ پھربھی، یہ ضروری ہے کہ پرانے میڈیا اور نئے میڈیا کے درمیان ایک معنی خیز تعلق قائم رہے۔ اسی طرح ہم صحافت کے بنیادی مقاصد کو سمجھ کر عوام کے حقوق کا دفاع کرسکتے ہیں اور سماجی انصاف کے حصول کی جدوجہد میں اپنا کردارادا کرسکتے ہیں۔
میڈیا کے کام اور اس کی ذمہ داری کے بارے میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ خبر تو ہوتی ہی وہ ہے جسے کوئی نہ کوئی چھپانا چاہتا ہے۔ اسی لیے صحافت اور حکومت یا حکمراں طبقے کے درمیان ایک حریفانہ تعلق لازمی ہے۔ البتہ جمہوری روایات کی پاسداری دونوں کا مشترکہ فریضہ ہے۔ اس ضمن میں قومی سلامتی کا مسئلہ کئی مشکلات پیدا کرتا ہے۔
قومی سلامتی کا مطلب کیا ہے اس کا فیصلہ حکمراں خود کرنا چاہتے ہیں۔ صحافی اس کی تشریح کسی اور طرح کرتے ہیں۔ ڈان لیکس پر گفتگو اس وقت ذرا مشکل ہے۔ ہماری تاریخ تو قومی معاملات کی پردہ پوشی سے عبارت ہے۔ دوسرے ملکوں میں ایک خاص مدت کے بعد تمام سیکرٹ دستاویزات شائع کردی جاتی ہیں۔ ہم نے اب تک 1971ء کے المیے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھا کہ حقائق کیا تھے۔ حالیہ برسوں میں تو لیکس کا سلسلہ ایک سیلاب بن چکا ہے پاناما پیپرز کا افشا بھی اس میں شامل ہے۔ کیا آپ اسے بھی دنیا کے اتنے بہت سے ملکوں کی قومی سلامتی پر ایک حملہ تصور کریں گے؟
میں نے پریس کی آزادی کے عالمی دن کی بات کی جو 3؍مئی کو منایا گیا۔ اس سے ایک دن پہلے ہماری تاریخ کے ایک اہم دن کی چھٹی ’’سالگرہ‘‘ تھی۔ اس دن، ایبٹ آباد میں، امریکی حملہ آوروں نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو اس لیے جاری نہیں کیا گیا کہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے اور یہ بات اس ہفتے دہرائی گئی۔ دوسرے کتنے ہی ایسے کمیشن بنے کہ جن کے فیصلے اور تجاویز قومی سلامتی کے ڈبے میں بند ہیں۔ اور جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اس سے قومی سلامتی کو کتنا خطرہ ہے اس کا ہمیں کوئی خیال نہیں… ہمارا میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ معاشرہ بکھر رہا ہے۔
چند نشانیاں تو ایسی ہیں کہ جن کی خبر تو بار بار آتی ہے لیکن جن کے تدارک کے لیے کسی مہم کا آغاز نہیں کیا جاتا۔ اب یہ امتحانوں میں نقل کی سیریل آپ آج کل روز دیکھ رہے ہیں۔ ثابت یہ ہوا کہ یہ نظام، یہ حکومت، یہ سرکاری انتظامی ڈھانچہ اس قابل نہیں کہ امتحانوں میں نقل کو روک سکے۔ اور یہ جو سیاسی جلسوں میں بلائے جانے والے کارکن کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو اس آئینے میں ہمیں اپنی قومی سلامتی کی کیا شکل دکھائی دیتی ہے؟