زندگی بخش دریاؤں اور جھیلوں کا ریپ
از، وسعت اللہ خان
اس دنیا میں پندرہ ممالک اور اٹھارہ نیم خود مختار خطے ایسے ہیں جہاں کے اکثر باشندے نہیں جانتے کہ دریا کس شے کا نام ہے۔ ان میں سعودی عرب ، یمن ، اومان ، متحدہ عرب امارات ، بحرین ، قطر اور کویت جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب کے رقبے کا صرف صفر اعشاریہ سات فیصد آبی ہے۔ بس ایک قابلِ ذکر جھیل ہے ال اصفار۔ اور دوسری جانب بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی ہیں جہاں سات سو سے زائد چھوٹے بڑے دریا ہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ دو ممالک فن لینڈ اور کینیڈا میں دنیا کی آدھی جھیلیں موجود ہیں۔
مقصد یہ بتانا ہے کہ پاکستان اگرچہ رقبے کے اعتبار سے زیادہ بڑا ملک نہیں لیکن اگر آپ کے پاس طیارہ ہو تو سال کے کسی بھی ایک دن میں چار مختلف کونوں میں تین بنیادی موسموں ( گرمی ، سردی ، بہار) کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ یہاں ہمالیہ ، قراقرم اور ہندو کش کے طفیل دنیا کے معدودے چند عظیم دریائی نظاموں میں سے ایک انڈس ریور سسٹم موجود ہے۔یہ سسٹم ستائیس چھوٹے بڑے دریاؤں پر مشتمل ہے مگر ہم میں سے اکثریت بس ستلج ، بیاس ، چناب ، جہلم ، راوی ، کابل اور دریائے سوات سے ہی واقف ہے۔
انڈس ریور سسٹم چار ممالک میں لگ بھگ بارہ لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان میں انڈس ریور سسٹم کا سینتالیس فیصد ، بھارت میں انتالیس فیصد ، چین میں آٹھ فیصد اور افغانستان میں چھ فیصد حصہ موجود ہے۔ پاکستان کا پینسٹھ فیصد ، بھارت کا چودہ ، افغانستان کا گیارہ اور چین کا ایک فیصد رقبہ انڈس ریور سسٹم سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔
یہ دریائی نظام چاروں ممالک میں کم از کم تیس کروڑ لوگوں کی زندگی کا ضامن ہے۔ انڈس ریور سسٹم پاکستان کی تریسٹھ فیصد اور بھارت کی چھتیس فیصد آبی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس کا ترانوے فیصد پانی زرعی اور سات فیصد صنعتی و گھریلو استعمال میں آتا ہے۔ بلکہ پاکستان کا تو پچانوے فیصد زرعی رقبہ انڈس ریور سسٹم کا احسان مند ہے۔
اور ہم اس احسان کے بدلے اس آبِ حیات کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ سالانہ چار لاکھ ملین گیلن آلودہ پانی ہم اس سسٹم میں دوبارہ پھینک رہے ہیں۔کیونکہ ہم صرف ایک فیصد آلودہ پانی ٹریٹ کرکے دوبارہ استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس سسٹم کا سب سے بڑا دریا یعنی سندھو سب سے زیادہ ریپ ہو رہا ہے۔
دریائے سندھ اسکردو سے کیٹی بندر تک ہزاروں شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں کو زندگی دیتا ہے اور بدلے میں ہم اسے زرعی ، صنعتی اور گھریلو خام فضلے کی شکل میں ہر سال ایک محتاظ اندازے کے مطابق پچپن ملین کیوبک میٹر موت بہ شکل ِ آلودگی واپس کرتے ہیں۔ پینتالیس فیصد آلودگی زرعی فضلے کی شکل میں، تیس فیصد خام سیوریج اور پچیس فیصد صنعتی ، کیمیاوی و روغنی فضلے کی شکل میں دریا کے منہ پر ماری جاتی ہے۔
یوں بین الاقوامی معیارات کے مطابق دریائے سندھ کا چالیس فیصد پانی ماہی گیری ، تیراکی اور آبی زندگی کے لیے وبالِ جان ہے۔اور اب قدرت ہم سے پلٹ کے یوں انتقام لے رہی ہے کہ ایک حالیہ جائزے کے مطابق سندھ میں انسانی استعمال کا 80 فیصد پانی انسانی فضلے سے آلودہ ہے۔
اب اسی میزان پر سندھو بادشاہ کے معاون درباری دریاؤں کا انسان کے ہاتھوں حشر خود تول لیجیے۔دریا تو رہے ایک طرف ہم نے تو میٹھے پانی کی جھیلوں کو نہیں چھوڑا۔شمالی علاقوں کو چھوڑ کے میدانی پاکستان میں سب سے زیادہ جھیلیں سندھ میں پائی جاتی ہیں۔ان میں مرحوم میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر بھی ہے۔سیہون سے محض دس بارہ کلو میٹر پرے۔مگر اسے انسان کے ہاتھوں قتل ہونے سے شہباز قلندر بھی نہ بچا پائے۔
سن ستر کے عشرے تک ڈھائی سو مربع کلو میٹر پر پھیلی یہ جھیل گویا جنتِ ارضی تھی۔سردیاں شروع ہوتے ہی ایک سو دو اقسام کے مہمان سائبیریائی پرندے اتنی تعداد میں آتے تھے کہ کسی کسی دن تو جھیل بھی ان کے جھنڈ میں چھپ جاتی تھی۔دو سو سے زائد نسلوں کی مچھلیاں یہاں رہتی تھیں۔بیس ہزار کے لگ بھگ موہانے ( مچھیرے ) اس جھیل سے سالانہ پندرہ ہزار میٹرک ٹن مچھلی حاصل کرتے تھے۔چار سو سے زائد ہاؤس بوٹس (شکارے) تھیں۔ انتیس اقسام کے آبی پودے ، گیارہ نسلوں کے درخت، سترہ اقسام کی فصل جھیل کی ممتا سے زندگی کھینچتی تھی۔
پھر ایک دن یہ ہوا کہ سندھ کے وہ شہر اور قصبے جو دریا کے دائیں طرف آباد تھے۔ان کا صنعتی ، زرعی اور انسانی فضلہ ٹھکانے لگانے کے لیے کسی افلاطون نے تجویز دی کہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لے کر فضلے کی نکاسی کے لیے ایک پختہ نہر تعمیر کی جائے جو دریا کو آلودگی سے بچاتے ہوئے یہ فضلہ سیدھا سمندر تک لے جائے ( گویا سمندر تو سوتیلا تھا۔)
مگر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ یہ فضلاتی نہر سمندر تک نہ پہنچی اور بیچ میں ہی پیسے ختم ہو گئے۔چنانچہ اس کا حل یہ تلاش کیا گیا کہ رائٹ بینک آوٹ فال ڈرین کا رخ منچھر جھیل کی جانب موڑ دیا گیا۔
آج صورت یہ ہے کہ سیانے سائبیریائی پرندے بھاری دل کے ساتھ اوپر سے گذر جاتے ہیں۔ انھوں نے راجھستان کی جھیلیں دریافت کر لی ہیں۔بیس ہزار موہانے کم ہو کر چار ہزار رہ گئے ہیں کیونکہ مچھلی کی پیداوار بھی تو پندرہ ہزار ٹن سے گھٹ کے دو سے ڈھائی ہزار ٹن رہ گئی ہے۔یہ موہانے اب فیکٹریوں میں نوکری ، ساحلِ سمندر پر ماہی گیر سیٹھوں کی چاکری کرتے ہیں یا شہروں میں بھیک مانگتے ہیں۔
منچھر میں دو سو اقسام کی مچھلیوں میں سے چودہ نسلیں صفحہِ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔چار سو ہاؤس بوٹس میں سے بمشکل پچاس باقی بچی ہیں۔جھیل چونکہ زہر کا پیالہ بن چکی ہے لہذا جھیل کے کنارے رہنے والے میٹھا پانی خرید کے پینے اور کھانے پکانے میں استعمال کرتے ہیں۔ جلدی امراض روزمرہ کا نارمل ہے۔
سندھ میں میٹھے پانی کی دوسری بڑی جھیل کینجھر کراچی کو پانی سپلائی کرتی ہے۔مگر اسے مارنے کا بھی انتظام ہو چکا ہے۔کوٹری اور نوری آباد کے صنعتی علاقوں کا فضلہ کلری بگھار فیڈر کنال کے ذریعے جھیل میں اتارا جا رہا ہے۔اردگرد آباد گوٹھوں کا فضلہ تو خیر آ ہی رہا ہے۔کہنے کو کینجھر لوک گیتوں کی محبوبہ ، جنگلی حیات کی سرکاری پناہ گاہ اور رامسر سائٹ کے درجے پر فائز ہے مگر اس کی عزت ایک بیسوا اور ٹکیائی جتنی بھی نہیں۔
ہم نے تو ہزاروں فٹ اونچی ان نیلی جھیلوں کو بھی نہیں بخشا جہاں پریوں کا بسیرا ہے۔ مجھے شمالی علاقہ جات کی ایک سبز جھیل کے بارے میں بتایا گیا کہ ایک اعلی فوجی افسر کو خؤش کرنے کے لیے مقامی جی حضوریوں نے جھیل میں کرنٹ دوڑا کر سیکڑوں مردہ مچھلیاں مہمان کے قدموں میں ڈھیر کردیں۔
جھیل سیف الملوک کی تصاویر دنیا بھر میں دکھا دکھا کر ہم سیاحوں کو پاکستان دیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ گویا یہ جھیل ہماری ٹورسٹ پوسٹر گرل ہے۔ لیکن آپ کسی بھی موسمِ گرما میں ساڑھے گیارہ ہزار فٹ بلندی پر بسنے والی اس جھیل کا رخ کیجیے۔ دکانیں اس کے آبی گریبان تک آ گئی ہیں۔ کنارے پر پکوڑے سموسے تلے جا رہے ہیں۔ جوس کے ڈبے، بچوں کے ڈائپرز، چپس کے پیکٹ، پلاسٹک کی بوتلیں اور شاپنگ بیگز غرض ہر طرح کا کچرا نیلے پانی کے سینے پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کارِ خیر میں دو لاکھ سے زائد پاکستانی ہر سال حصہ لیتے ہیں۔ انتظامیہ نے شمالی علاقوں کی جھیلوں حتیٰ کہ دیوسائی کی شہرہ آفاق دنیا کی دوسری سب سے بلند جنت نظیر سطح مرتفع پر بھی بورڈ لگا رکھے ہیں کہ اپنا کچرا ساتھ لے جائیں۔مگر کچرے کے ڈبے رکھنے کا خیال بورڈ لگانے والوں کو بھی نہیں آیا۔
پاکستان جیسے فری فار آل ممالک کے مقابلے میں اسی کرہِ ارض پر سنگاپور نامی ایک پاگل شہری ریاست بھی ہے۔ جہاں کسی سیاح کے سامان سے چیونگم برآمد ہو جائے تو دو برس تک قید اور ایک لاکھ سنگاپور ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔ فٹ پاتھ پر سگریٹ کا ٹوٹا یا کینڈی ریپر پھینکنے پر پہلی بار تین سو ڈالر، دوسری بار چھ سو ڈالر اور تیسری بار پکڑے جانے پر ایک ہفتے تک سڑک صاف کرنے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اس دوران مجرم کے گلے میں کپڑے کی تختی بھی لٹکائی جاتی ہے جس پر درج ہوتا ہے’’ ہاں میں ہی کچرا پھیلانے والا ہوں‘‘…
بشکریہ: ایکسپریس ڈاٹ پی کے