قدیم مصر میں صحت عامہ کا نظام
(بی بی سی اردو)
آپ نے فلموں میں اکثر ڈاکٹر کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ ‘مریض کو اب دوا نہیں بلکہ دعائیں بچا سکتی ہیں۔ قدیم مصر میں مریض کو بچانے کے کام میں ادویات کے ساتھ جادو ٹونے کا بھی رواج تھا۔ اس دور میں مذہب اور سائنس کو علیحدہ کرنے والی کوئی لائن نہیں تھی۔ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ بیماریاں دیوتاؤں کی جانب سے سزا ہیں اور اندرونی بری روح کو تعویذ، گنڈے اور منتروں سے دور کیا جا سکتا ہے۔
لیکن یہ سب ادویات کے استعمال کے ساتھ کیا جاتا تھا اور ان کے بعض رواج اتنا زمانہ گزرنے کے بعد بھی باقی ہیں۔ بد قسمتی سے قدیم مصر میں علاج سے منسلک زیادہ تر معلومات اب معدوم ہیں جن میں سکندریہ کی شاہی لائبریری کے خزانے وغیرہ شامل ہیں۔
[su_quote]تین ہزار سال قبل مسیح سے بھی پہلے مصر کی ثقافت انتہائی ترقی یافتہ اور جدید تھی۔ اس دور میں مصر کے لوگ ادویات کے بارے میں اس قدر بیدار تھے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔[/su_quote]
کس طرح کی جاتی تھی سرجری؟
مصر میں لاشوں کو ممی بنا کر رکھے جانے سے آپ واقف ہی ہوں گے۔ حنوط شدہ لاشوں کے ذریعے قدیم مصر میں لوگوں نے انسانی جسم کے بارے میں اچھی خاصی معلومات جمع کر لی تھی۔
اس وقت مرنے کے بعد انسان کے جسم کو آخری سفر کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ اس پورے عمل میں مصری جسم کے حصوں کو دیکھنے اور بیماریوں کو جان پاتے تھے جس کی وجہ سے ان کی زندگی ختم ہوئی۔
اس کام سے انھیں کئی بیماریوں کا علم ہو گیا تھا اور وہ بیماریوں کے علاج کے طریقوں سے واقف ہو گئے تھے۔ ان میں کھوپڑی میں سوراخ کرنے سے لے کر ٹیومر ہٹانے جیسے کام شامل تھے۔
دانتوں کا علاج
مصر کے لوگ آٹا حاصل کرنے کے لیے گندم صاف کرتے اور پیسنے کے لیے کڑی محنت کرتے تھے پھر بھی ان کے کھانوں میں کنکر اور ریت کے ذرات رہتے تھے۔
ایسے کھانوں سے دانتوں کے درمیان میں فاصلے اور انفیکشن رہتا تھا۔ پرانے طبی طریقہ پیپرز ایبرز کے مطابق، ایسے بہت سے طریقے تھے جن کے استعمال سے یہ فاصلے بھرے جانے کے ساتھ انفیکشن کو دور کیا جا سکتا تھا۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بتاتا ہے کہ دانت نکلنے پر ہونے والی خارش کے لیے اس حصے پر زیرہ اور لوبان کے سامان استعمال کیے جا سکتے تھے۔
ایسا ہی ایک علاج شہد بتایا گیا ہے، جسے مصر کے لوگ اینٹی سیپٹک کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ دوسرے بہت سے معاملات میں وہ ململ کا استعمال بھی کرتے تھے۔
مصنوعی اعضاء
قدیم مصر کے لوگوں کو زندہ اور مردہ دونوں لوگوں کے لیے نقلی (مصنوعی) اعضاء کی ضرورت پڑتی تھی لیکن بعد کے عہد میں ایسے اعضاء کی زیادہ ضرورت پڑنے لگی۔
[su_quote]ان کے دوسری زندگی کا یہ تصور تھا دوبارہ جسم حاصل کرنے کے لیے لاش کا مکمل ہونا ضروری ہے۔ حنوط شدہ لاش میں جسم کو پورا کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ بہر حال آج ہی کی طرح اس وقت بھی مصنوعی اعضاء زندہ لوگوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لگائے جاتے تھے۔[/su_quote]
سب سے زیادہ مصنوعی اعضاء میں انگلی شامل تھی۔ تصویر میں نظر آنے والی انگلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک خاتون نے اس کا استعمال کیا تھا اور یہ سب سے پرانا مصنوعی عضو ہے۔
ختنہ پر مصریوں کا زور
تاریخ میں دنیا کے بہت سے مذہبی عقائد اور سماج میں ختنہ کا رواج تھا۔ قدیم مصر میں بھی ختنے کیے جانے کی روایت تھی۔ اور یہ اتنی زیادہ تھی کہ بغیر ختنے والے عضوِ تناسل پر لوگ حیرت کرتے تھے۔ اس بارے میں اتنا معلوم ہے کہ مصر کے فوجی اپنے قبضے میں آنے والے لیبیائي مردوں کو اپنے گھر لے جاتے تھے تاکہ ان کے رشتہ دار بھی ان کی شرمگاہ کو دیکھ سکیں۔
[su_quote]قدیم مصر میں صحت کی دیکھ بھال حکومت کے کنٹرول میں تھی۔ اس دور میں ایسے کئی میڈیکل انسٹی ٹیوٹ تھے جو ڈاکٹروں کو اس بات کی تربیت دیتے تھے اور یہ انسٹی ٹیوٹ مریضوں کا علاج بھی کرتے تھے۔ کئی ایسے طبی نسخے بھی تھے جس میں مریضوں کے طریقۂ علاج لکھے تھے۔[/su_quote]
ایسی بھی تفصیلات ملی ہیں، جن میں کسی تعمیراتی سائٹ پر طبی كیمپس لگائے جاتے تھے۔ اس بات کے بھی اشارے ملتے ہیں کہ جب کسی تعمیراتی سائٹ پر کوئی حادثہ ہو جاتا تو وہاں ہی ابتدائی طبی امداد اور علاج کیا جاتا تھا۔