کیا زمین سے ہجرت کا وقت آن پہنچا؟
وسعت اللہ خان
اسٹیفن ہاکنز کو اس وقت کرہِ ارض پر سب سے بڑا زندہ ماہرِ فلکیات ماناجاتا ہے۔ اب سے سات برس پہلے اسٹیفن ہاکنز نے بنا لاگ لپیٹ خبردار کیا کہ انسان جس طرح اپنے پاؤں پر ماحولیاتی بربادی کی کلہاڑی مسلسل مار رہا ہے۔ اس کے بعد بس اتنی مہلت ہے کہ نسلِ انسانی کو اپنی بقا کے لیے اگلے ایک سو برس میں یہ کرہِ ارض ترک کر کے کسی اور سیارے یا سیاروں پر ہجرت کرنا پڑے گی۔ ورنہ فلم ختم شد۔
اسٹیفن ہاکنز کے بقول اپنے سر پر روایتی قیامت توڑنے کے لیے انسان شائد خدا کو بھی زحمت دینا پسند نہ کرے۔ کیونکہ یہ معجزہ تو ہونے سے رہا کہ انسان آج سے درخت کاٹنا بند کردے، حیاتیاتی نسل کشی سے باز آجائے، جنگوں سے توبہ کر لے، ایٹمی ہتھیاروں کا وجود زیرو کر دے، اور ٹیکنالوجی کا غلام بننے اور اپنی باگیں روبوٹک آلات کے ہاتھوں میں دینے کے ممکنہ بھیانک نتائج کے بارے میں بھی سوچے اور یوں زندگی کے دائرے کی تیزی سے ٹوٹتی کڑیوں کے بکھرنے یا انھیں مزید کمزور ہونے سے بچانے میں اپنا کردار سنجیدگی سے ادا کرے۔
ظاہر ہے پچھلے آٹھ ہزار برس کی معلوم تہذیب میں یہ نہ ہو سکا تو اگلے سو برس میں کیسے ہوگا۔ آبادی میں تیزی سے اضافے نے دستیاب وسائل کی تیز رفتار معدومی بھی یقینی بنا دی ہے۔ چنانچہ رختِ سفر باندھنا شروع کیجیے اور قابلِ رہائش سیاروں کی تلاش شروع کر دیجے۔
اسٹیفن ہاکنز نے تو جو کہنا تھا کہہ دیا۔ مگر یہ تو ممکن نہیں کہ آٹھ ارب آبادی بس ایسے ہی کرہِ ارض سے ہجرت کر جائے۔ ویسے بھی انسان تنہا تو کوئی شے نہیں۔ اس کا وجود جنگلی حیاتیات، نباتات سے بندھا ہے۔ اسے قدرت نے سانس اور پیاس کے ڈرائنگ بورڈ پر آکسیجن اور پانی کے ایندھن سے چلنے والی مخلوق کے طور پر تخلیق کیا ہے۔
اب سو برس میں کوئی سیارہ تلاش کر کے وہاں منتقل ہونے کا نوٹس زمینی کیلنڈر کے اعتبار سے ایسے ہی ہے جیسے حکومت وارننگ دے دے کہ اگلے ایک گھنٹے میں تمام ڈھائی کروڑ شہری کراچی سے نکل جائیں ورنہ ہم ذمے دار نہ ہوں گے۔
فلکیات دان پچھلے پچاس برس سے اسی تگ و دو میں ہیں کہ اتنی بڑی کائنات میں زمین جیسا کوئی انسان دوست سیارہ ہاتھ آجائے تو مزہ آ جائے۔ مگر اب تک اس بابت سب کوششیں ناکام رہی ہیں۔
پچھلی نصف صدی میں فلکیاتی نقشوں، دور دراز سیاروں تک بھیجے جانے والے کائناتی مشنز اور خلا میں گردش کرنے والی یا ساکت انتہائی طاقتور دور بینوں کے استعمال سے البتہ اتنی کامیابی ضرور ہوئی ہے کہ کروڑوں ستاروں پر مشتمل اب تک دریافت ہونے والی کائناتوں میں سے لگ بھگ ایک ہزار ستارے اور سیارے شارٹ لسٹ کیے گئے کہ جن پر کسی بھی طرح کی زندگی کی رمق ملنے کا امکان ہے اور اگر ایک رمق بھی مل جائے تو انسان میں صلاحیت ہے کہ وہ رائی کے دانے سے پہاڑ بنا لے۔
اس اعتبار سے جو ستارے زمین کے قرب و جوار میں دریافت ہوئے ہیں ان میں سب سے معروف پروکسیما سینٹوری ہے جو ہم سے صرف چار اعشاریہ دو نوری سال کی مسافت پر ہے۔ ( یعنی اگر کوئی راکٹ روشنی کی رفتار یعنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرے تو صرف چار برس دو ماہ میں اس ستارے تک پہنچ سکتا ہے۔) لیکن اس وقت ناسا کے پاس جو خلائی ٹیکنالوجی ہے اس کے اعتبار سے وہاں تک پہنچنے کے لیے پچاس ہزار برس درکار ہوں گے۔
متعلقہ مضمون کا لنک : فکشن نگار اور ماحولیاتی تبدیلیاں
زمین پر حیات کی موجودہ شکل اس لیے برقرار ہے کہ اس کا سورج سے فاصلہ نہ بہت کم ہے نہ زیادہ۔ یعنی کوئی ترانوے ملین میل کا فاصلہ۔ حالانکہ یہ فاصلہ سال بہ سال کم ہو رہا ہے لیکن جس رفتار سے کم ہو رہا ہے تو فلکیاتی شماریات کے لحاظ سے ابھی سورج کی قربت کی حدت سے تمام سمندروں کو بخارات بننے میں تین ارب سال درکار ہیں اور خود سورج کو اپنی ساری توانائی خرچ کر کے نابینا ہونے میں کم ازکم چھ ارب سال لگیں گے۔
مگر ہمیں اس لیے خوش ہونے کی ضرورت نہیں کہ ہم تو اگلے چند سو یا ہزار برس میں اجتماعی خود کشی کر چکے ہوں گے یا جن میں طاقت ہے وہ شائد کسی اور سیارے کو رہنے کے لیے ڈھونڈھ چکے ہوں گے۔
مگر کون سا سیارہ ؟ لے دے کے ہمارا پڑوسی مریخ ہی رہ جاتا ہے جو سورج سے ایک سو بیالیس ملین میل کے فاصلے پر ہے۔ ہمارے موجودہ کائناتی جہازوں کو مریخ کی سطح پر اترنے کے لیے دو سو تینتالیس دن درکار ہیں۔ مگر چار نوری سال کے موازنے میں یہ فاصلہ کچھ بھی نہیں۔ جب اکتالیس برس پہلے مریخ کا پہلا فوٹو سامنے آیا تب سے ہر چند ماہ بعد یہ افواہ اڑ جاتی ہے کہ وہاں پانی دریافت ہو گیا۔
اگرچہ مریخ پر کششِ ثقل کا دباؤ زمین کے مقابلے میں اڑتیس فیصد زائد ہے، وہاں کا اوسط درجہ حرارت منفی تریسٹھ ہے۔ وہاں آکسیجن نہیں ہے۔ تابکاری کا تناسب دس گنا ہے۔ پھر بھی اگر انسان ہجرت کا فیصلہ کرتا ہے تو مریخ سے بہتر اب تک کوئی اور سیارہ یا ستارہ نظر نہیں آیا۔
اسٹیفن پیٹرنک شہرہ آفاق سائنسی ادیب اور ماہرِ فلکیات ہیں۔ انھوں نے اپنا نام نیدر لینڈ میں پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے کھولے گئے ’’مارس ون مشن‘‘ میں لکھوایا ہے۔ اس کمپنی کا دعوٰی ہے کہ وہ دو ہزار ستائیس تک مریخ پر پہلی انسانی کالونی قائم کر دے گی جس کی آبادی سو کے لگ بھگ ہوگی۔ بالکل ایسے جیسے اب سے چار سو برس پہلے امریکا کے مشرقی ساحل پر پہلی یورپی کالونی بنائی گئی۔ اس پہلے آباد کاری مشن کی تکمیل پر لگ بھگ چھ ارب ڈالر خرچ ہوں گے اور ٹکٹ یک طرفہ ہوگا۔ یعنی مریخ سے واپسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ گئے تو گئے۔
اسٹیفن پیٹرنک کی شایع ہونے والی حالیہ کتاب ’’ ہم مریخ پر کیسے رہیں گے‘‘ کے مطابق پہلا بیس کیمپ ایسے گنبد نما خیموں پر مشتمل ہوگا جنھیں پھلایا جا سکے اور ان کے اندر درجہِ حرارت ویسے ہی برقرار رکھا جا سکے جیسے تیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے والے طیاروں کے کیبن میں برقرار رکھا جاتا ہے۔
اسٹیفن کا کہنا ہے کہ جب تک مریخ کے اولین انسانی باسیوں میں ضروری جینیاتی تبدیلیاں نہیں ہوں گی تب تک ان کے گھر، عمارات اور گاڑیاں پریشرائزڈ ٹینٹ یا ہائیڈرو فونکس ٹیکنالوجی والے شیلٹرز کی طرح ہوں گے۔ تاکہ خلائی سوٹ مسلسل پہننے کی ضرورت نہ رہے۔ اس سلسلے میں انٹارکٹیکا کے بیس کیمپوں اور ریسرچ اسٹیشنوں میں رہنے کا تجربہ اور ٹیکنالوجی بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔
مگر آکسیجن کا کیا ہوگا؟ مریخ پر نہ ہوا ہے نہ آکسیجن؟ اس کے لیے اسٹیفن پیٹرنک کا خیال ہے کہ وہاں جمی برف کے مالیکیولز کی جینیٹک انجینئرنگ کر کے آکسیجن پیدا کرنا ممکن ہے۔ اسٹیفن کو پکا یقین ہے کہ دو ہزار پچاس تک مریخ پر کم ازکم پچاس ہزار انسان رہ رہے ہوں گے۔ اس اعتبار سے اگلے سو برس میں ایک لاکھ انسان مریخ پر بس چکے ہوں گے۔ مگر زمین پر بھی انسانی آبادی بیس ارب کے لگ بھگ ہو چکی ہو گی۔
تو پھر کیا کریں؟ اگر یہ سارے پیسے جو خلا میں نئی بستیوں کی تلاش میں اڑائے جا رہے ہیں اسی کرہِ ارض نامی گھر کا خیال رکھنے پر صرف ہو جاتے تو آج ہم کائنات میں یوں خوار نہ ہو رہے ہوتے۔
اسٹیفن ہاکنز اور اسٹیفن پیٹرنک جیسی بلند پایہ شخصیات کی پیش گوئیاں، انتباہات اور خوش گمانیاں انتہائی قابلِ احترام اور قابلِ غور سہی۔ مگر مجھ جیسے مٹھی بھر قنوطیوں کا خیال ہے کہ ٹرین چھوٹ چکی ہے۔ اب تو جو کرنا ہے فطرت کے شیر کو کرنا ہے۔ ہم نے اپنے اور فطرت کے ساتھ جو ہاتھ کرنا تھا کردیا اور وہ بھی جائے پناہ ڈھونڈے بغیر۔
بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس