مقامی حکومت کو در پیش مسائل کا جائزہ
ذوالفقار علی لُنڈ
مقامی حکومتوں کو ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ بیت چُکا ہے مگر ابھی تک بیشتر مُنتخب نُمائندگان کو مقامی حکومت کے اختیارات لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 اور ترمیمی بل 2016 کے بارے میں بُنیادی ترین معلومات سے آگاہی بھی نہیں ہے۔
میں پچھلے ایک سال سے لوکل گورنمنٹ کے نُمائندگان کے ساتھ کام کر رہا ہوں اپنے تجربات کی بُنیاد پرحقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ لوکل گورنمنٹ کے بُنیادی ایجنڈے میں اختیارات کی نچلی سطح پر مُنتقلی، بہتر گورننس، عوام کی زیادہ سے زیادہ شراکت داری، مقامی مسائل کی نشاندہی اور بُنیادی ترین مسائل کے حل کے لیے لوگوں کی باہمی مُشاورت سے ترقیاتی منصوبہ بندی کرنا شامل ہے۔
مندرجہ بالا ایجنڈے کی تکمیل میں بہت ساری رُکاوٹیں درپیش ہیں۔ مثلاً صوبائی حکومتوں نے ابھی تک لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی بجٹ کی مد میں بہت ہی قلیل بجٹ رکھا ہے۔
کُل بجٹ کے گورکھ دھندے کے اعداد و شُمار میں جانے کی بجائے میں آپ کو ڈسٹرکٹ مُظفر گڑھ کی یونین کونسل بیٹ قائم والا اور راجن پور کی یونین کونسلز سہن والا اور نو شہرہ شرقی کے بجٹ کا نمونہ پیش کرتا ہوں۔
ان تینوں یونین کونسل کا بجٹ 2016/17 کی پہلی قسط تیس لاکھ سے بھی کم ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے یہ دونوں اضلاع بُنیادی ترقیاتی ڈھانچے کی کم ترین سطح پر موجود ہیں۔ اس بجٹ میں سٹاف کی تنخواہیں بھی شامل ہیں۔ اب آپ تصور کریں آٹھ سے دس لاکھ کی رقم میں کونسا ترقیاتی کام ہو سکتا ہے۔
کم و بیش یہی صورتحال پنجاب کے اکثر اضلاع کی یونین کونسلز کی ہے۔ ہاں البتہ میٹروپولیٹن کا درجہ رکھنے والے شہروں کا معاملہ الگ ہے۔
دوسری رُکاوٹ ہر اضلاع کے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے مُنتخب ممبرز کی صورت میں مُشاہدے میں آئی ہے شاید وہ نہیں چاہتے کہ اُن کے حلقہ کے لوگ آزادانہ طریقے سے مقامی سطح پر اپنے مسائل حل کریں۔ اس لیے دیکھنے میں آیا ہے کہ اُن کا رویہ مقامی حکومت کے مُنتخب ممبران کے ساتھ نہایت معاندانہ ہوتا ہے۔
تیسری وجہ لوکل گورنمنٹ کے منتخب ارکان کی لوکل گورنمنٹ ایکٹ سے مُکمل نا آشنائی ہے۔ اُنہیں بالکل نہیں پتا کہ اُن کے اختیارات کیا ہیں، لوکل گورنمنٹ اپنی آمدن کیسے بڑھا سکتی ہے، اور کون کون سے ترقیاتی کام لوکل گورنمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
چوتھی وجہ جاگیر دارانہ رویہ اور مُنتخب ارکان کا غیر جمہوری طرز عمل ہے۔ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ چیئرمین اپنے ڈیرے پر بیٹھے رہتے ہیں اور اُن کے ارد گرد روایتی حواریوں کی ٹولیاں براجمان ہوتی ہیں، جو بے بُنیاد پروپیگنڈہ، جھوٹی تعریف اور اپنے چھوٹے موٹے مفادات کی خاطر کان بھرتی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مُنتخب ارکان کا زیادہ تر وقت انہی لوگوں میں کٹتا ہے اور وہ باقی عوام کے مسائل پر توجہ نہیں دے پاتے۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ بیشتر مُنتخب ارکان کا تعلق ٹھیکیداری کے شعبہ سے ہے۔ وہ زیادہ تر ٹھیکہ جات کا کام کرتے ہیں۔ اُن کا فوکس اپنی کمپنی اور ٹھیکہ جات کے حصول پر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے عام عوام کے مسائل حل کرنا یا جمہوری اداروں کو فروغ دینا اُن کی قطعاً ترجیح نہیں ہوتی۔
چھٹی وجہ مقامی بیوروکریسی اور منتخب ارکان کے اختیارات کا تنازعہ بھی ہے۔ بجٹ کی منظوری، آڈٹ، ٹینڈر وغیرہ کی پیچیدگیاں اور ٹیکنیکل فارمیٹ روایتی سوچ رکھنے والے جاگیر داروں اور ٹھیکیداروں کو جھنجھٹ نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ اس عمل کا حصہ بننے سے کتراتے ہیں۔
ساتویں وجہ مُنتخب ارکان کا مُختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہونا ہے۔ عام طور پر ہمارے مُلک میں سیاسی پارٹیوں سے وابستگی ایک دوسرے سے دُشمنی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ بات عام مُشاہدے کی ہے کہ مُسلم لیگ والے پی ٹی آئی کو اپنا دُشمن سمجھتے ہیں اور پی ٹی آئی والے مسلم لیگ کو جس کا بُرا اثر ترقیاتی کاموں اور لوگوں کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔
آٹھویں وجہ خاص طور پر یونین کونسل کی سطح پر مُنتخب ہونے والے کونسلرز عموماً ان پڑھ اور نظریات سے کوسوں دور، گودے سے روایتی تعلق کی بُنیاد پر مُنتخب ہوتے ہیں جو بعد میں اپنی مرضی سے کُچھ بھی نہیں کر سکتے وہ گودے کے کہنے پر اپنی ذمہ داریاں بلکہ وفاداریاں نبھاتے رہتے ہیں۔
نویں وجہ دیہات کی سطح پر مُنتخب ہونے والی خواتین کو اُن کے خاندان کے افراد اجازت ہی نہیں دیتے کہ وہ کسی اجلاس کا حصہ بنیں یا اپنے حقوق کے لیے آواز بُلند کریں جس کی وجہ سے خواتین کے مسائل اُجاگر نہیں ہوتے اور معاشرے کا نصف حصہ اپنی آواز کے بغیر زندہ رہتا ہے۔
دسویں وجہ لوکل گورنمنٹ میں اپوزیشن کا عملی مظاہرہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے، جس کی وجہ سے جوابدہی کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ آخری اور اہم وجہ یہ بھی ہےکہ ابھی تک عوام کو بھی اپنے حقوق کے حوالے سے زیادہ علم نہیں ہے۔ جن لوگوں کا کینڈیڈیٹ الیکشن میں شکست سے دوچار ہوتا ہے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب اُن کا حق ہی ختم ہو گیا ہے، وہ جیتنے والے کے پاس اپنے ترقیاتی کاموں کے لیے جا ہی نہیں سکتے جبکہ جیتنے والا بھی یہی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے مُجھے ووٹ نہیں دیے میں اُن کے ترقیاتی کام کروانے کا پابند نہیں ہوں جو کہ سرا سر غلط بات ہے۔