چلیں اظہار ندامت نہ کریں
نصیر احمد
ابھی کل ہی اپنے راجا صاحب ایک بیٹے کا قصہ سنا رہے تھے کہ اس نے اپنی بوڑھی ماں کو اپنے بیمار باپ کی خدمت کرتے دیکھا تو اپنے ماضی کے سارے دکھ اسے یاد آگئے۔
بابا، اچھی طرح یاد ہے کہ تم ماں کو پیٹا کرتے تھے اور ماں بے چاری کا جسم خراشوں سے بھر جاتا تھا اور اس کی راتیں آہیں اور سسکیوں میں بیت جایا کرتی تھیں اور آج بیماری نے تمھارا جسم خراشوں سے بھر دیا ہے اور ماں مداوے میں مصروف ہے۔ اس کے والد کو یہ سچی بات بہت بری لگی اور وہ اسے گالیاں دینے لگا۔ بیٹے نے جیب سے بہت سارے پیسے نکالے اور باپ کی چارپائی پر پھینک دیے اور کہا۔ بابا ،بات ساری ان پیسوں کی ہے، اور ہم سب ان پیسوں کا بندوبست کرتے رہے ،مار کھاتے ریے لیکن تمھارے چہرے پر نہ کبھی ندامت دیکھی اور نہ کبھی تاسف۔یہ کہہ کر وہ بیٹا گھرسے نکل گیا۔
اور پھر ایسے بہت سے قصے یاد آئے ان میں یہ واقعہ بھی تھا کہ بزرگوں نے حماقت کے باعث کڑیل جوان گنوا دیے لیکن کہا یہ گیا کہ جوان تو ہوتے ہی اسی لیے ہیں کہ بزرگوں پر فدا ہو جائیں۔ قربانی کی اس بات کے شور میں حماقت کہیں گم ہو گئی۔
اسی طرح کچھ عرصہ پہلے سرگودھا میں ایک پیر صاحب نے حیات بعد ازممات کا معجزہ دکھانے کے چکر میں بیسیوں مرید کاٹ دیے ۔ ان کا ٹیلی پر انٹرویو بھی چلا، اور ان کے چہرے پر بھی کہیں ندامت نہیں تھی بلکہ مستقبل میں کسی روشن صبح اپنے معجزے کی حقانیت کا یقین تھا۔
وہ اپنے فیض صاحب کا شعر بھی تو ہے نا کہ دل پر ہر داغ ہے بجز داغ ندامت۔ یہ شعر انھوں نے ایک منتخب حکومت کو گرانے کی سازش میں ملوث ہونے کے بعد لکھا تھا۔ بس غیر آئینی، غیر اخلاقی اور غیر جمہوری کو خیر کثیر سے جوڑتے شعر لکھتے رہے، نازیبا کو زیبا کہتے رہے اور مشہور ہوتے رہے۔
پچھلے دنوں میں ہمارے ایک اور وزیر اعظم حکمرانی کے ناہل قرار دیے گئے۔ اور فیصلے کی نوعیت کچھ متکلمین کی مانند تھی۔ متکلمین کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ایمان پہلے لاتے ہیں اور ایمان کے جواز بعد میں ڈھونڈتے ہیں۔تو یہ فیصلہ بھی متکلم قسم کا تھا جس کے جوازفیصلے کے بعد ڈھونڈے گئے۔اور جواز کے لیے جو قانون استعمال کیا گیا، وہ ایک سیاہ آمر کا ایک قانون تھا جو جمہوری قانون سازی سے کچھ مطابقت نہیں رکھتا۔
ہماری نظر میں وزیر اعظم کی بدترین بدعنوانی اس سیاہ دل آمر کی حمایت تھی۔ اور اس حمایت پر انھوں نے کبھی کچھ خاص ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ عدالتوں نے پے درپے عوامی نمائندوں کے خلاف ایسے ہی فیصلے دیے ہیں، جن پر کبھی بھی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ اسی طرح جرنیلوں نے بھی بارہا آمریت نافذ کی ہے اور سیاست میں مسلسل مداخلت کی ہے لیکن حرف ندامت کو کان ترستے رہے۔ہر دفعہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر جمہوری جعلی پارسائی کی چمک دمک میں لپیٹ دی جاتی ہے اور حماقت اور شقاوت کا ذکر نہیں ہو پاتا۔
اپنے اعتزاز احسن بھی تو ہیں، جنھوں نے ماں جیسی ریاست کے جنون میں بے نظیر بھٹو کی عملیت کو بے کار کر دیا اور ملک پر ایک ایسے منصف مسلط کر دیے جو خبروں میں رہنے کے لیے قانون کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے تھے اور یہ کچھ بھی اعتزاز صاحب نے بھگتا بھی لیکن سرگودھا کے پیر صاحب کی طرح ابھی بھی ماں جیسی ریاست کے معجزے کے منتظر ہیں۔
خدا کرے وہ ریاست رونما ہو جائے لیکن اتنا تو ہم سب جانتے ہیں کہ بذریعہ حماقت تو وہ ریاست رونما نہیں ہو گی بلکہ ملتوی ہوتی رہے گی لیکن اعتزاز صاحب نے کب یہ سچی بات ماننی ہے۔وہ تو کہتے رہیں گے کہ انھوں نے بڑی دانشمندی کی۔
اب اتنی اونچی جگہوں پر مسلسل حماقت اور مسلسل شقاوت کی موجودی گلی کوچوں میں بھی ندامت سے بے صفت ذہنیت کو فروغ دیتی ہے کیونکہ جب جرائم مالی اور معاشرتی کامیابی کی وجہ بنتے ہیں تو ان کو جاذب توجہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا اور جب جرائم توجہ کھینچ لیں تو ان کے عام ہونے میں کچھ دیر نہیں لگتی۔ اسی لیے بے ندامت ظلمتوں کے واقعات سے ہماری معاشرتی زندگی بھرپور ہے۔
یہ نہیں کہ ہمارے ہاں ندامت نایاب ہے، موجود ہے، مفادات سے جڑی ہوئی، رو رو کر دعائیں مانگتی نظر آتی ہے اور پر تاثیر دعاوں کا معاوضہ بھی وصول کرتی ہے لیکن جمہوری اخلاقیات سے الٹی سمت رواں دواں ہے۔ اور اس کی کجروی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب تو عبدالقادر حسن جیسے پیران ظلمت بھی شہریت کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں اور جمہوریت، قانون، اخلاقیات اور تعلیم پر توجہ دیے بغیر شہریت کیسے ممکن ہو گی؟
چلیں اظہار ندامت نہ کریں ، دل ہی دل میں ہی اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیں لیکن رستہ تو بدل دیں۔ سابق وزیر اعظم نے ضیا الحق کی آمریت سے ہر قسم کے مالی اور معاشرتی فوائد اٹھائے اور شجرظلمت کے ہر طریقے کو اپنی طاقت اور دولت بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ اب وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ جمہوریت کے علاوہ پاکستان کے پاس اس کے مسائل کو کوئی حل نہیں۔
اتنے سالوں کے بعد انھوں نے رستہ بدلنے کی کچھ ہمت تو کی ہے، اس کی انھیں سزا بھی مل گئی اور کروڑوں کی سزا ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آئی لیکن بات تو وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں، سب سزاوں کی تخفیف جمہوریت سے خلوص سے ہی ہو گی۔اور