پردے میں رہنے دو
امر جلیل
ڈر لگتا ہے۔ بہت زیادہ ڈر لگتا ہے۔ اس لیے بات ہو گی اشاروں کنایوں میں۔ کھل کر بات نہیں ہو گی۔ بات ہو گی کھسیانی بلّی کی مگر نہ کھمبے کا ذکر آئے گا اور نہ کھمبا نوچنے کا۔ ذکر ہو گا دال کا مگر دال میں کچھ کالے کا ذکر نہیں آئے گا۔ آگ کا ذکر آئے گا مگر تن بدن کا ذکر نہیں آئے گا۔ جھوٹ کا ذکر آئے گا مگر جھوٹ کے پاؤں کا ذکر نہیں آئے گا۔ چھل کپٹ کی دنیا میں پھندے دکھائی نہیں دیتے۔ جال نظرنہیں آتے۔ اچانک گم ہو جانے کے بعد آپ اکثر واپس نہیں آتے اور اگر واپس آ بھی جاتے ہیں تب تک آپ گنجے ہو چکے ہوتے ہیں۔ آپ بھینگے ہو چکے ہوتے ہیں۔
آپ اپنا اور اپنی گرل فرینڈ کا نام بھول چکے ہوتے ہیں۔ میں ایسی کارستانی کے تصوّر سے کانپ جاتا ہوں۔ ڈر جاتا ہوں۔ پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا ہوں۔ اس طرح جینے والے خوف زدہ زندگی گزارتے ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں گول مول باتیں کیوں کرتا ہوں۔ میں چوکور باتیں کیوں کرتا ہوں۔ گھما پھرا کر باتیں کیوں کرتا ہوں۔
یہ سوچ قطعی غلط ہے کہ پاکستان بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پاکستان کا صرف ایک پرابلم یعنی مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دیگر نام نہاد مسئلے ایک بڑے مسئلے سے نکلنے والے ذیلی اور ضمنی مسائل ہیں۔ ان مسائل کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر آپ نے بڑے مسئلہ پر قابو پا لیا تو یقین جانیے ذیلی اور ضمنی مسائل خود بہ خود ختم ہو جائیں گے۔
پاکستان کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ یہاں جس کو جو کام آتا ہے، جس کام میں اس نے مہارت حاصل کی ہے، وہ، وہ کام نہیں کرتا۔ وہ کسی اور کام میں دلچسپی لیتا ہے۔ اگر آپ پلمبر ہیں تو پھر آپ دندان ساز بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کا کام ہے کموٹوں کو رواں رکھنا۔ ٹونٹیوں کی مرمّت کرنا۔ کسی کے پوپلے منہ میں مصنوعی دانت لگانا آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔ اور دندان سازوں کو اپنا کام کرنے دیں۔ مگر آپ کسی کی نہیں سنتے۔
آپ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ڈاکٹر بنتے ہیں۔ ڈاکٹر بننا آپ کا بچپن کا خواب تھا۔ آپ دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ پھر نہ جانے کیا آپ کے جی میں آتا ہے کہ آپ پبلک سروس کمیشن کے پولیس سروسز آف پاکستان کے امتحانوں میں بیٹھتے ہیں۔ کامیاب ہونے کے بعد ایس پی بن جاتے ہیں، ڈی آئی جی بن جاتے ہیں، آئی جی بن جاتے ہیں۔ آپ انجینئر ہوتے ہیں۔ پھر نہ جانے کیا ہو جاتا ہے کہ آپ بینک منیجر بن جاتے ہیں۔ آپ کوتوال ہوتے ہیں۔ پھر نہ جانے کیا ہوتا ہے کہ آپ چور بن جاتے ہیں۔ اور اگر آپ چور ہوتے ہیں تو پھر ایک دن آپ کوتوال بن جاتے ہیں۔
آپ اچھے خاصے باورچی ہوتے ہیں۔ پھر نہ جانے کیوں آپ ٹیچر بن جاتے ہیں اور لوگوں کو اسلامیات کا درس دینے لگتے ہیں۔ آپ درزی ہوتے ہیں۔ پھر نہ جانے کیوں آپ لوگوں کے میلے، غلیظ کپڑے چوراہوں پر دھونے لگتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جس کام میں آپ مہارت رکھتے ہیں، اچانک وہ کام چھوڑ کر آپ دوسرے کسی دھندے سے لگ جاتے ہیں۔ آپ سنار ہوتے اور ہر کام نفاست سے کرتے ہیں۔ پھر آپ لوہار بن جاتے ہیں۔ لوہا پگھلاتے ہیں اور ہتھوڑے چلاتے ہیں۔ آپ گاڑی کے پہیے ہوتے ہیں۔ پھر آپ اچانک گاڑی کا انجن بن جاتے ہیں اور انجن سے پہیوں کا کام لیتے ہیں۔
کچھ لوگ ایک ہی نوعیت کا کام، ایک ہی نوعیت کی ملازمت کرتے کرتے بور ہو جاتے ہیں مگر وہ لوگ کسی اور نوعیت یا اور طرح کی ملازمت کرنے کا کبھی نہیں سوچتے۔ وہ اپنی بوریت سے پیچھا چھڑانے کے لیے نت نئے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایک صاحب نے اپنے کام کو دلچسپ بنانے کے لیے اپنے مرد سیکرٹری کی چھٹی کر دی اور اس کی جگہ ایک خوبصورت خاتون کو اپنی پرائیویٹ سیکرٹری رکھ لیا۔ ایک اور صاحب نے اپنے کام کو دلچسپ بنانے کے لیے روزانہ ایک، دو میٹنگ رکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
میٹنگ کے اوقات ایسے ہوتے تھے کہ دوران میٹنگ ظہر کی نماز اور لنچ کا وقفہ لازمی طور آتا تھا۔ لنچ میں فائیو اسٹار ہوٹل سے لنچ باکس آتے تھے اور اب تک آتے ہیں۔ کسی میٹنگ کے دوران عصر کی نماز اور شام کی چائے کا وقفہ آتا تھا اور آتا ہے۔ چائے صرف چائے نہیں ہوتی تھی۔ ایک بڑے ہوٹل کی طرف سے ہائی ٹی کا اہتمام کیا جاتا تھا، بلکہ اب تک کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ عہدے پر کام کرنے والے ایک صاحب اپنے کام کو دلچسپ بنانے کے لیے اکثر ملکی اور بیرون ملک دوروں پر رہتے ہیں۔ وہ جب بھی دورے پر جاتے ہیں اپنے ساتھ اپنی پرائیویٹ سیکرٹری لے جاتے ہیں جو کہ ایک ماڈل بھی ہے۔
کچھ صاحبان اپنے کام کو دلچسپ بنانے کے لیے اپنے اندر حس طنز و مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ اپنی کوششوں میں زیادہ تر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ فقرے چست کرنے میں بڑا نام کما لیتے ہیں۔ ان کی خواب گاہ میں تکیے کے نیچے آپ کو لطیفوں کی کتابیں اور طنز و مزاح سے بھرپور رسالے ملیں گے۔
ایک پولیس افسر نے ازراہ مذاق چور سے کہا ’’تم چور کی بجائے سیاستدان کیوں نہیں بن جاتے؟‘‘ عملے کے سپاہی اپنے افسر کے جوک پر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ چور نے برجستہ کہا ’’حضور! میں اگر سیاستدان بن گیا تو پھر آپ کو میری چاکری کرنی پڑے گی اور آتے جاتے مجھے سیلوٹ کرنا پڑے گا۔‘‘
مگر آپ کسی بااختیار مزاحیہ افسر کو ترکی بہ ترکی جواب نہیں دے سکتے۔ خاص طور پر آپ کسی جج کے طنزیہ فقرے کا جواب طنزیہ فقرے سے نہیں دے سکتے۔ ایک جج صاحب نے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم سے کہا ’’تم نے اس قدر بیدردی سے قتل کیا ہے کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں تمہیں دس مرتبہ پھانسی پر لٹکانے کا حکم دیتا۔‘‘
ملزم نے کہا ’’تب اخبارات میں سرخی لگتی کہ ایک بیدرد جج نے ملزم کو دس مرتبہ پھانسی پر لٹکانے کا حکم سنا دیا۔‘‘
عدالت میں بیٹھے ہوئے لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’آرڈر آرڈر۔‘‘ جج صاحب نے مقدمے کا فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے ملزم کو توہین عدالت کے جرم میں چھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا۔ توہین عدالت کی سزا کاٹنے کے بعد ملزم کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ