جشن آزادی کی اصل روح
شیخ محمد ہاشم
جوں جوں جشن آزادی کا دن قریب آرہا ہے پاکستان کے چپے چپے میں خوشی کاسا سماں ہے، ہر جانب گہماگہمی ہے۔ اس حوالے سے لگائے گئے بے شمار خصوصی اسٹالوں پر سے مشہور زمانہ قومی گیتوں کے مد ھر سروں سے لہو کو گرما یا جارہا ہے، بے روزگاروں کو روزگار مل گیا ہے۔ جھنڈے، جھنڈیاں، اسٹیکر، بیجز کی بہار آئی ہوئی ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان، خواتین ہر کوئی ان ہریالے اسٹالوں سے پاکستانی جھنڈے، سٹیکرز اور بیجز خریدنے میں پہل کرتے نظر آرہے ہیں، ہر شخص پاکستان کے خوبصورت جھنڈے نما بیجز کو اپنے دل کے ساتھ چسپاں کر کے پاکستان کو من سے تسلیم کرنے کا عہد کرتا ہوا نظر آتا ہے ، رنگساز سبز رنگ کے دوپٹے رنگ رہے ہیں ، درزیوں کی سلائی مشینیں ہرے رنگ کے سوٹوں کی سلائی کر رہے ہیں ، ماہ اگست کے شروعات سے ہی تمام پاکستانی ٹی وی چینلز پر سبز رنگ کے لوگو ز نظر آرہے ہر در ہر دیوار ہر دل پاکستانی نظر آرہا ہے، بے انتہا خوشگوار ماحول ہے ۔ کیوں نہ ہو،14، اگست یومِ آزادی پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل دن ہے۔
میں اور میرا نواسہ جس اسٹال سے خریداری کر رہے تھے اُسی اسٹال پر ایک کمسِن معصوم بچہ اپنے والد سے سوال کر رہا تھا۔ “بابا! ہر سال آج کے دن ہم جشن کیوں مناتے ہیں”؟
“بیٹا! آج کے دن پاکستان بنا تھا “۔ والد نے جواب دیا،
“پاکستان کیوں بنا تھا”؟بیٹے نے دوسرا سوال پوچھا،
“بیٹا! ہندو ہمارا دشمن تھا اور اب بھی ہے ، ہم ہندو کے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔”
“ہندو ہمارا دشمن کیوں تھا”؟
اس دفعہ محترم والد صاحب نے معصوم بچے کو گھور کر دیکھا۔ بچے کے مسلسل سوالات سے وہ جھنجلاہٹ اور بیزار سا نظر آرہا تھا۔ معصوم بچے کو اس کا باپ دشمنی کی کہانی کو جواز بنا کر راہِ فرار اختیار کرنا چاہ رہا تھا، موقع غنیمت جان کر اس دفعہ بچے کے بجائے میں نے اُس سے سوال کر ڈالا:
“محترم ! آپ مجھے یہ بتانا پسند کریں گے کہ قیام پاکستان سے قبل انگریزوں کے خلاف گاندھی جی کی قیادت میں ، کیا مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر ہندوستان کی آزادی کے لیے جنگ نہیں لڑی تھی”؟
معصوم بچے کے باپ کے پاس میرے سوال کا جواب نہیں تھا،وہ میری شکل کو اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے ریسلنگ میں ہارنے والا پہلوان جیتنے والے پہلوان کو گھور کر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ کمسن بچہ اپنے ننھے ہاتھوں سے باپ کے ہاتھ کو جھنجھوڑ رہا تھا۔”
“بابا،بابا بتاؤ نا, ہندو ہمارا دشمن کیوں تھا”؟
میں نے ایک نظر معصوم بچے پر ڈالی اور اُس کے باپ سے پوچھا:
“آخر ہم کب تلک معصوم ذہنوں کو دشمنی اور نفرتوں کی کہانیوں سے سینچتے رہیں گے”؟
اسٹال سے اپنے نواسے کے ہمراہ خریداری سے فارغ ہوکر ہم ایک چائے کے ہوٹل میں جا بیٹھے جہاں ہمارے برابر والی ٹیبل پر براجمان چند نوجوان خوش گپیوں میں مصروف تھے، میری سماعت سے جب اُن میں سے ایک لڑکے کی آواز ٹکرائی تو میری آج کے دن کی ساری خوشگواری کافور ہوگئی۔ وہ نوجوان اپنے دوستوں سے کچھ یوں مخاطب تھا۔
“ابے سنو یوم آزادی کے حوالے سے بڑے مزے کی بات، جب پاکستان بنانے والے مہاجرین کا لُٹا پیٹا قافلہ لاہور پہنچا تو لاہور والوں نے اُن سے کہا بھائی آگے جاؤ یہ پاکستان نہیں ہے، اورجب یہ قافلہ سندھ پہنچا تو سندھ والوں نے کہا آگے جاؤ، یہ پاکستان نہیں ہے، پاکستان تو آگے ہے اور اس طرح اس قافلے کو کراچی کی طرف دھکیل دیا۔”
اس کے ساتھ ہی ان نوجوانوں کے قہقہے پورے ہوٹل میں گونجنے لگے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر قربانیوں کی اس قدر بے حرمتی کی جارہی تھی جو میرے لیے ناقابلِ برداشت تھی میں نے نواسے کا ہاتھ پکڑااور اسی وقت ہوٹل سے باہرنکل گیا۔
نوجوان کی اس شگوفانہ گفتگو نے میرے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا، مضطرب د ل و دماغ نے میرے ذہن کے دریچوں میں تاریخ کے اُن اوراق کو کھول کر رکھ دیا جو خون کے آ نسوؤں سے لکھے گئے تھے ۔ مورخہ 4 ، اگست 1947 کو امرتسر میں ہزاروں مہاجرین کے گلے سکھ بلوائیوں نے ان کے جسم سے علیحدہ کر دیے تھے، سینکڑوں خواتین کی بیدردی سے عصمت دری کر کے شہید کردیا گیا تھا، سینکڑوں بچیوں نے عزت کی پامالی کے بجائے موت کو ترجیح دی تھی۔ بچوں کی لاشوں کو تلواروں اور کرپالوں پہ اچھالا گیا تھا، بے یارو مدد گار آزادی کے متوالوں کے قافلے کو قزاقوں نے تہہ وبالا کر دیا تھا۔
قافلے میں شریک ایک بچے نے (وہ اب بزرگی کی دہلیز پر ہیں) ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ “کوئی مجھ سے پوچھے کہ پاکستان کیسے بنا، آج بھی یہ بتاتے ہوئے میری ٹانگیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔ ہم مہاجرین کیمپ میں تھے، آواز آئی سکھوں نے حملہ کردیاہے۔ میرے والد نے مجھے ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ہم کیمپوں سے باہر نکل کر اُن سے مقابلہ کریں گے اور تم اپنی ماں، بہن اور دوسری عورتوں اور بچوں کے ساتھ راوی کے کنارے کھڑے رہنا، جب تک اللہ اکبر کا نعرہ بلند نہ ہو وہاں سے نہیں ہلنا اور اگر واہے گرو کا نعرہ لگے تو بچوں کے ساتھ ہی اس چلتے دریا میں کود جانا ۔میرے والد شہید ہو گئے اور میں اپنی ماں کا ہاتھ پکڑے پانی میں کھڑا تھا کہ اللہ اکبر کی آواز گونجی”۔
الگ وطن کی آرزو میں جان و مال ، عزت وآبرو نچھاور کر دینے والوں کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن میرے کانوں میں اُن نو جوانوں کی وہ بات گونج رہی تھی جن کی دانست میں یہ مزے کی بات تھی ۔ میرے ذہن میں سوالات پھانس کی مانند چبھ رہے تھے ۔ یہ کیسا جشن ہے یہ کیسی آزادی ہے ۔ یہ کیسا قومی تہوار ہے جو اپنی اصل روح سے عاری ہے، کیا ہم نے آزادی کے اُن لاکھوں متوالوں کے لہو کو خاک میں نہیں ملا دیا۔ راہ حق کے شہیدوں کا مذاق اُڑا کر ہم کون سی آزادی کا جشن منا رہے ہیں، کیا ہم نے آگ کا دریا پار کرنے والوں کی عصمتوں کی قربانیوں کو پامال نہیں کردیا۔ کیا ہم نے آج کے بچوں کو یہ بتایا کہ یوم آزادی تم جیسے معصوم بچوں کے لہو سے سینچی گئی ہے؟ مانا کہ ہم جشن آزادی بڑے جوش وخروش سے مناتے ہیں لیکن اگر ہم اس کی اصل روح سے ہی عاری ہوں تو کیا ایسا نہیں لگتا کہ ہم ریت کی بنی عمارت کے سائے تلے کھڑے ہیں جو کچھ دیر بعد گر سکتی ہے؟
میرے ہم وطنو! اگر آزادی کا مطلب سمجھنا ہے تو کشمیر، فلسطین، شام کی جانب دیکھو اُن سے پوچھو کہ آزادی کیا ہوتی ہے، تمھیں آزادی کا مطلب سمجھ میں آجائے گا جہاں موت کی حیثیت ثانوی رہ گئی ہے جہاں زندگی ہر روز موت کو گلے لگاتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ہم ہر چیز کو مصنوعی انداز میں دیکھنے کے عادی ہیں ہم نے آدھا پاکستان کھو دیا لیکن کچھ سیکھا نہیں ۔ دو نظریے کے تحت بننے والا پاکستان اب IMF کے نظریے کے تحت مصنوعی انداز میں قائم ہے۔ اغیار کی غلامی نے ہمیں تاریکیوں کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔
دُنیا کے اُن ممالک کی جانب دیکھ کر ہی کچھ سیکھ لو، جو اپنے آزادی کے شہداء کے خون کو اس طرح رائیگاں نہیں ہونے دیتے وہ اپنی آنے والی نسلوں کوسیمیناروں اور میڈیا کی مدد سے اپنے ملک کی آزادی کی خاطر جان و مال کا نذرانہ دینے والوں کو بھرپور انداز سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے یوم آزادی کے موقع پر کبھی اُن راہ حق کے شہیدوں کو یاد کیا؟
مسلمانان برصغیر کی عظیم جد و جہد لاکھوں جانوں کی قربانیوں کا ثمر پاکستان، آج یہ تقاضا کرتا ہے کہ اگر ہمیں اس کا وجود برقرار رکھنا ہے اور اپنے آنے والوں کو ایک روشن پاکستان دے کرجانا ہے تو عدل وانصاف،مساوات، معاشی استحکام، اور پاکستان کی خودمختاری کو فروغ دینا ہوگا، لسانیت ، فرقہ واریت ، بیروزگاری، اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا اور ہر سال جشن آزادی کے موقع پر شہداء کو ، آزادی کے حصول کی جدو جہد میں شامل ہونے والے غازیوں کو، ہر اُس شخص کو جس نے اس تحریک میں حصہ لیا اُنہیں زبردست خراج تحسین پیش کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں میں یہ احساس پیدا ہو سکے کہ ہمارے بزرگوں نے یہ ملک مُشتِ خاک کی مانند نہیں بلکہ آندھی کی طرح آگ اور خون کے دریاؤں کو پار کر کے حاصل کیا ہے، اُن میں ویسی ہی ولولہ انگیزی و شعوری بیداری کو اُجاگر کرنا ہوگا جو گزرے زمانے کی تحریک میں تھا، تاکہ وہ بھی انھی اوصاف کے مالک بن سکیں ، اس وقت وطن کی قدرو قیمت کا احساس اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔چودہ اگست کا دن بھی عید جیسی خوشی کے دن سے کم نہیں لیکن یہ دن ایک خاص تناظر میں ہم سے محاسبہ کا تقاضا کرتا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.