نوجوان نسل، مصنوعی ہیروز اور ہیرو ورشپ کی ثقافت
سبین علی
آج کل ہم اپنے ارد گرد بے شمار ہیروز سے گھرے ہوئے ہیں. ان ہیروز کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سمجھ نہیں آتی ان میں سے اصلی ہیرو کون ہے اور مصنوعی کون ؟ اسی طرح ہر ملک، قوم، مذہبی، لسانی و سیاسی گروہ کے ہیرو متضاد ہیں۔ جو ایک گروہ کا ہیرو ہے وہ دوسرے کا ولن ہے اور دوسرے ولن پہلے کا ہیرو ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ پرنٹ الیکٹرانک اور سائیبر میڈیا میں دیکھیے آپ کو اپنے ارد گرد لاتعداد ایسے کردار اور لوگ ملیں گے جنہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
قدیم داستانوں سے لے کر جدید دور کی انیمیٹڈ فلموں تک ہر جگہ ایک ہیرو کا راج نظر آتا ہے۔ کبھی یہ ہیرو دلیر جنگجو ہوتا ہے تو کبھی کوئی ایلیئن۔ کبھی کسی جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں اچانک ماورائی طاقت پا لیتا ہے تو کہیں پیدا ہی ماوارائی طاقتوں کے ساتھ ہوتا ہے جس میں عموما محنت، تربیت اور ریاضت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
ماضی کے تقریبا سبھی داستانی ہیرو ایک جیسے ہوتے تھے۔ دلیر، نڈر ،جنگی سورما، کسی جن بھوت اژدہے یا عِفریت سے لڑ کر شہزادیوں کو چھڑوانے والے حسین و جمیل شہزادے اور خطروں کے کھلاڑی جیسے سند باد. یا مافوق الفطرت اشیاء و طاقت سے لبریز عمرو عیار، ہرکولیس یا پھر چراغ سے لیس الہ دین جیسے کردار جو بچوں کی دلچسپی کا باعث ہوتے۔ مگر ان ہیروز کے تخلیق کرنے کا مقصد محض داستانوں میں چٹخارہ اور دلچسپی پیدا کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ہیرو انسانی نفسیات میں چھپی کسی جبلت کی بھی تسکین کرتے ہیں۔
جی ہاں یہ ہیرو انسانی کی کسی پوشیدہ جبلت کی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ہم سب بچپن سے ہی ان ہیروز میں اپنا آئیڈیل اور رول ماڈل تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ کئی بچوں میں ان جیسا بننے کی خواہش تحت الشعور میں چلی جاتی ہے اور وہ خیالی پیکر عمر بھر کہیں نہ کہیں انسان کے لاشعور میں بستا رہتا ہے۔ ان ہیروز کا مثبت پہلو بچوں کو تحریک دے کر زندگی میں بڑے مقاصد کے حصول کی لگن پیدا کرنا۔
ہمت بہادری اور ایمان داری اور کئی بار انسان دوستی کا درس دینا بھی ہوا کرتا ہے.۔ لیکن ایک دوسری سطح پر بے مہار طاقت سے آراستہ کئی ہیرو انیمیٹڈ گیمز اور فلموں میں انسانی جبلت کی تسکین کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں دولت و طاقت کی ہوس پیدا کرنے اور تشدد کو بھی ابھارنے کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔
ہیرو انڈسٹری نے اتنی ترقی کر لی کہ ہر جگہ آپ کو بے شمار مصنوعی ہیرو نظر آتے ہیں۔ یہ ہیروز ادب آرٹ فلم سے لے کر کھیل کے میدان، کارزار سیاست اور جرائم پیشہ عناصر تک میں تلاش کر لیے جاتے ہیں۔ ہیرو سازی کا یہ عمل معلوم انسانی تاریخ سے جاری و ساری ہے لیکن اس میں اتنا تنوع کبھی ماضی میں دیکھنے میں نہیں آیا۔
ہمارے لوگوں کی ایک بہت بڑی کمزوری ہیرو ورشپ ہے۔ بچپن سے ہی لاتعداد مصنوعی ہیرو ان کے اذہان میں اس طرح بٹھا دیے جاتے ہیں کہ حقیقی زندگی میں جب انہیں اُن محیر العقول خصوصیات کا حامل کوئی شخص نہ بھی ملے ( جس کا ملنا تقریبا نا ممکنات میں سے ہو) تو وہ اپنے ادرگرد سے کئی لوگوں کے بت تراشتے اور پرستش کی حد تک عقیدت اپنا لیتے ہیں۔
ان میں سے بیشتر ہیروز اپنی خوبیوں اور خامیوں سمیت عام انسانی صفات کے ہی حامل ہوتے ہیں اور کسی اندھی عقیدت کے ہرگز مستحق نہیں ہوتے ۔ اسی اندھی عقیدت میں اپنے خود ساختہ یا مسلط کردہ ہیرو کی کوئی خامی ہمیں نظر نہیں آتی۔ اس ہیرو ورشپ کا سب سے زیادہ فائدہ مختلف اشرافیہ (جن میں لسانی و مذہبی فرقوں کی اشرافیہ بھی شامل ہے) اور سیاسی لیڈرز نے اٹھایا۔ لوگوں میں اس طرز کے رویے پروان چڑھائے گئے کہ ان کا لیڈر یا ہیرو جو کہے وہی درست ہے۔
اس کا کوئی فیصلہ کوئی طرز عمل کبھی غلط نہیں ہو سکتا. وہ جنت کی پرچی لکھ دے تو جنت واجب وہ کھمبے پر بھی ٹکٹ لگائے تو ووٹ کھمبے کو ہی دیں گے۔ اپنے ہیرو کا ہر طرز عمل درست اور مخالف ہیرو یعنی ولن کی ہر بات ہر کام غلط قرار دینے کے رجحان نے عام آدمی سے تجزیہ کی صلاحیت چھین لی ہے ۔ ہمارے ہاں یہ کلچر پروان ہی نہ چڑھ سکا کہ کسی کے اچھے کام کو اس کی گروہی یا سیاسی وابستگی سے قطع نظر سراہا جائے، یا اپنے ہیرو کے کسی غلط کام پر سوالیہ نشان لگایا جائے۔
اس عمل نے عوام کے ایک بڑے حصے کو خواص کی ذہنی غلامی میں گرفتار کر رکھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عام لوگوں کو حالات و واقعات جانچنے پرکھنے تجزیہ کرنے اور آزادانہ سوچ کے ساتھ نتائج اخذ کرنے کی تربیت دی جائے۔ وہ اپنے ہیرو کے درست کام کو سراہ سکیں مگر اسی وقت اس کی کسی غلط بات یا غلط فیصلے کو نشان زد بھی کر سکیں۔ یہ کام عام آدمی عام اساتذہ عام والدین بھی چاہیں تو ہیرو بنے بغیر آسانی سے کر سکتے ہیں۔