حکمرانو! قومی آزادی اور خود مختاری کا تحفظ یقینی بناؤ
انور عباس انور
پوری قوم جشن آزادی منارہی ہے، گلی گلی ، محلے محلے، قریہ قریہ نگر نگر، گاؤں گاؤں اور شہر شہر پاکستانی قوم پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہی ہے، جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے ہیں، لوگ ٹولیوں کی صورت میں جلسہ گاہوں کی جانب رواں دواں ہیں، سیاسی ، سماجی حکومتی اور حزب مخالف کے راہنما گرمی جوش خطابت سے عوام کے دلوں اور جذبات کو گرما رہے ہیں، تحریک پاکستان کے وہ واقعات بیان کیے جا رہے ہیں جن سے قوم آگاہ ہے اور ایسے واقعات سے بھی انہیں آگاہ کیا جا رہا ہے جن سے قوم بے خبر ہے۔
گزشتہ دنوں لاہور پریس کلب کے صدر محمد شہباز میاں جو ہر معزز ممبر کلب کے جنم دن پر اس کی سالگرہ کی محفل سجاتے ہیں، لیجنڈ صحافیوں کے ساتھ شامیں مناتے ہیں ان کی ’’یادیں اور باتیں‘‘ سنتے اور نوجوان صحافیوں کو سناتے ہیں، ان کی سالگرہ کے کیک کاٹتے ہیں، ان کی اپنی سالگرہ تھی، دوستوں نے آنے کا پیغام بھجوایا ، سو شامل ہوا۔
نثار عثمانی ہال میں تین تین کیک کاٹے گئے، شامل تقریب ہر صحافی کے چہرے پر مسکراہٹیں رقصاں تھیں اور تمام شرکاء تقریب محترم محمد شہباز میاں کو بڑھ چڑھ کر سالگرہ کی مبارکبادیں دے رہے تھے اور فوٹو اور مووی بھی اپنے موبائلز میں محفوظ کر رہے تھے۔
تقریب سے فارغ ہوکر محترم سکریٹری لاہور پریس کلب جناب عبدالمجید ساجد کے کمرہ میں آ گئے، وہاں نوجوان صحافی عبدالحنان، قاسم رضا و دیگر کے ہمراہ حالات حاضرہ پر بحث و تمہید میں وقت کا پتہ نہ چلا، صبح سویرے کلب سے نکل کھڑا ہوا ، میری اگلی منزل چیئرنگ کراس تھی، ایجرٹن روڈ پر دیوار وں پر تعلیمی اداروں کے طلبہ کی جشن آزادی کے حوالے سے رنگ برنگی تصاویر بنائی دیکھ کر دل باغ باغ ہوا،دل خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔
آگے جا کر ایک تصویر نے ساری خوشیاں اور مسرتیں چلتا کیں ،وہ تصویر آپ بھی دیکھیں ، محسن قوم ، بابائے قوم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال علیہ رحمۃ کی نوجوان طلبہ کی تخلیق کردہ تصاویر میں سے قائد اعظم جنہوں نے ہمیں انگریز اور ہندوؤں سے آزادی دلوائی، آزاد وطن لے کر دیا، کے چہرے پر کسی بد باطن، محسن کش،احسان فراموش نے سیاہی مل دی ہے۔
قدم آگے بڑھنے سے انکاری ہوئے، قریب جا کر بد بخت کے سیاہ کرتوت کی تصویر محفوظ کرلی، اوپر جو ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ’’مجھے ایسی آزادی نہیں چاہیے‘‘ اس کا باعث یہی دکھ دینے والی حرکت ہے، باضمیر قومیں تو اپنے محسنوں کو تاقیامت یاد رکھتی ہیں، لیکن ایک ہم ہیں کہ اپنے محسنوں کو برا بھلا کہنے کو وطیرہ بنا رکھا ہے، محسن قوم محمد علی جناح ہو یا ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہوں کسی کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں روا رکھا۔
تھوڑی دور دو سڑکوں کے درمیان لوگوں کی سہولت کے لیے بورڈز آویزاں کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چیئرنگ کراس جانے والے کس طرف جائیں اور منٹگمری روڈیا کوپر روڈ کی طرف جانے کے خواہشمند کو نسا راستہ اختیار کریں یا مال روڈ پر پہنچنے کے لیے کس جانب کا رخ کریں، شائد ہماری مقامی حکومت(لاہور کی مقامی حکومت) اس بات سے بے خبر ہے کہ حکومت نے لاہور سمیت ملک بھر کی گلیوں، محلوں چوکوں اور شاہروہوں کو اپنے قومی مشاہیر کے ناموں سے منسوب کر رکھا ہے۔
جیسے مال روڈ کو شاہراہ قائد اعظم، کوئینز روڈ کو شاہراہ فاطمہ جناح، ٹیمپل روڈ کو حمید نظامی روڈ ، لکشمی چوک کو مولانا ظفر علی خان کے نام عطا کر رکھے ہیں ایبٹ روڈ کو سومنات کے مندر فتح کرنے والے سپوت محمود غزنوی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے لیکن ایبٹ روڈ کہنا ہماری عادت بنی ہوئی ہے، مگر ہماری مقامی حکومتیں ان گلی محلوں ، چوکوں اور شاہراہرات کو ان کے پرانے ناموں سے ہی پکارنے اور لکھنے پر بضد ہیں ،ایسا کیونکر ہے؟ محسنان ملت سے ایسے سلوک پر مبنی آزادی بھی مجھے گوارا نہیں ہے۔
بھارت کا دماغ چل گیا ہے، یا ہوش و حوااس کھو بیٹھا ہے، جیسی حرکات بھارتی ( بھارتی خفیہ ادارہ اور اسکے اہلکار)کر رہے ہیں ایسی ابنارمل لوگ ہی کیا کرتے ہیں ،پچھلے کچھ عرصہ کے واقعات کا جائزہ لیا جائے توبھارت کو پاکستان سے غلطی سے سرحد عبور کرکے بھارت پہنچنے والا کبوتر جاسوس لگتا ہے، سرحدی آبادی کے رہائشی بچے کھیل کود میں مست ہوکر غلطی سے سرحد کے اس پار جا پہنچیں تو ان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور اپنی مکمل تفتیش و تحقیقات سے تسلی ہوجانے پر ان معصوم بچوں کو رہاکردیاجاتا ہے۔
ابھی پاکستانی قوم جشن آزادی منانے کی تیاریاں کر رہی ہے، اور پاکستان کے عاشقان صادق کی جانب سے جشن آزادی کو انتہائی جوش و خروش سے منانے اور اسے تاریخ میں یادگار بنانے کی غرض سے ایک 400 فٹ لمبا اور اونچا قومی پرچم واہگہ بارڈر پر لہرانے کی خبروں پر بھارتیوں نے واویلا شروع کردیا ہے کہ اس پرچم میں جاسوسی کیمرہ نصب ہوگا جس کے ذریعے بھارت کی جاسوسی کی جائے گی۔
بھارت کو ہٹ دھرمی اور ضد ترک کرکے مسلمانان برصغیر پاک و ہند کے اس فیصلہ کے آگے سرتسلیم خم کردینا چاہئیے جو انہوں نے قیام پاکستان کے حق میں دیا تھا۔
بھارت کو اب تلخیاں بڑھانے کی بجائے انہیں ترک کرنے کا سوچنا چاہیے ،کیونکہ تلخیاں بڑھانے سے خظے کے حالات میں سدھار نہیں آئے گا بلکہ بگاڑ ہی پیدا ہونا ہے جو نہ بھارت کے لیے سود مند ہے اور نہ ہی پاکستان کے حق میں بہتر ہے، لہذا بھارت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے کیونکہ اگر اسے گمنڈ ہے کہ وہ بڑا ملک ہے تو بڑے ہونے کے کچھ حقوق اور فرائض بھی اس پر عائد ہوتے ہیں، جو اسے برحال نبھانے ہوں گے، نہیں نبھائے گا تو خسارے کا سودا کریگا۔
ہم پاکستانی عوام اور حکومت پاکستان کو آزادی کے جشن میں خطہ جنت نظیر کشمیر اور اس کے عوام کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جو بھارتی مظالم کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں،خود ہر قسم کا ظلم و ستم سہہ رہے ہیں لیکن پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرنے سے باز نہیں آ رہے، جس پر بھارتی فوجی درندے انہیں لاشوں ، اوران کی ماؤں بہنوں اور بیتیوں کی عصمت دری کے تحفے دے رہے ہیں۔
حکومت پاکستان کو کشمیر سے مخلص ہونا پڑے گا، اب تک تو سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آئی ، جس کا سب سے بڑا ثبوت مولانا فضل الرحمان کا کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ہونا ہے، پاکستان کا بچہ بچہ مولانا کی غیر سنجیدگی کا معترف ہے، نہ جانے حکومت کن مقاصد کے لیے مولانا فضل الرحمان کو کشمیر کمیٹی جیسے اہم عہدے پر چمٹائے رکھنا چاہتی ہے، کشمیر کمیٹی کے کریڈٹ پر کوئی ایسا کارنامہ نہیں جوعالمی سطح پر پیش کیا جا سکتا ہو، شائد پاکستانی عوام کی مذید آنکھیں اس وقت کھل جائیں جب باقی ممبران کشمیر کمیٹی کے اسمائے گرامی ان پر آشکار ہوں۔
مجھے ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں اپنے محسنوں کی کردار کشی کی کھلی آزادی ہو۔۔۔ مجھے ایسی آزادی نہیں چاہیے جہاں بابائے قوم بانی پاکستان کے چہرے پر سیاہی ملنے کے واقعہ سے مقامی حکومتوں سے لے کر وفاقی حکومت کے کل پرزے بے خبر ہوں، یہ سیاہ کرتوت کرنے والے ابھی تک قانون کی گرفت سے آزاد ہوں اور ان کے خلاف ’’توہین قائد‘‘ کے حوالے آئین و قانون حرکت میں نہ آئے۔۔۔ مجھے ایسی آزادی نہیں چاہیے جہاں حکمرانوں کے خلاف وال چاکینگ کرنے والے تو فوری گرفتار کر لیے جاتے ہوں مگرقومی اور ملی مشاہیر کے خلاف کام کرنے والے قانون کی گرفت سے آزاد پھرتے ہوں ۔
مجھے ایسی آزادی نہیں چاہیے جہاں آئین کو بارہ صفحات کا کتابچہ کہہ کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی بائیں کرنے والوں کو مکمل فوجی اور قومی اعزازات کے ساتھ دفن کیا جائے اور آئین کی بحالی کے لیے جدجہد کرنے والوں کی ننگی پیٹھوں پر کوڑے برسائے جائیں۔۔۔ نہیں چاہیے مجھے ایسی آزادی جہاں حکمران اورسابق حکمران کھلم کھلا ریاستی اداروں کے خلاف بھونکتے پھریں اور لوگوں کو ان ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت پر اکساتے پھریں۔
مجھے ایسی آزادی نہیں چاہیے جہاں ملک توڑنے والوں کو آزادانہ حرکت و نقل کی آزادی ہو ، کسی قسم کی پوچھ گچھ نہ ہو، جب کہ اس وطن عزیز کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والوں کو پھانسی پر لٹکادیا جائے، جلاوطن کردیا جائے۔۔۔ نہیں چاہیے مجھے ایسی آزادی جہاں غریب غریب تر اور امراء امراء تر ہوتے جائیں، غریبوں کے بچے نوکریاں نہ ملنے پر خود کشیاں کرنے پر مجبور ہوں اور ممبران پارلیمنٹ اور ان کے کارندے لاکھوں روپے رشوت لیکر کھاتے پیتے گھروں کے افراد کو نوکریاں دینے میں قادر ہوں۔
مجھے ایسی آزادی نہیں چاہیے جہاں غریب کی بچیاں جہیز نہ ہونے کے باعث والدین کی دہلیز پر بیٹھی بیٹھی بوڑھیاں ہو جاتی ہوں اور امراء کی بیٹیاں ٹرینوں اور جہازوں میں جہیز بھر کر لے جائیں،۔۔۔نہیں چاہیے مجھے ایسی آزادی جہاں تھانوں ،کچہریوں ، سرکاری دفاتر میں غریبوں کو دھکے اور گالیاں پڑیں اور چور اچکوں ،ڈاکوؤں ،چودہریوں ،نمبرداروں اور دولت مندوں کو عزت اور کرسیاں پیش کی جاتی ہوں ۔۔۔ نہیں چاہیے مجھے ایسی آزادی جہاں تھانوں میں مقدمات کے اندراج اور کچہریوں میں انساف کے حصول کے لیے ٹاوٹوں کی مدد درکار ہو۔
مجھے نہیں چاہیے ایسی آزادی جہاں حکمران لاکھوں عزتوں ،لاکھوں جانوں کی قربانی کے عوض حاصل ہونے والی آزادی کے تحفظ کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھیں، جہاں آئین و قانون موم کی ناک بنا کر رکھ دیا اجائے۔۔۔ نہیں چاہیے مجھے ایسی آزادی ،نہیں چاہیے نہیں چاہیے مجھے ایسی آزادی۔ جس کے تھفظ سے حکمرانغافل ہوں
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.