مسئلہ موسیقی کا
از، محمد تہامی بشر علوی
عرضِ مصنف: ہم نے کوشش کی ہے کہ موسیقی اور آلات موسیقی کے بارے میں بے شمار دلائل اور حوالہ جات میں سے محض اتنے حوالے سامنے رکھ دیے جائیں کہ کسی نتیجے پر پہنچنا کسی کے لیے ناممکن نہ رہے۔ یہ سب حوالہ جات مولانا شاہ محمد جعفر پھواری صاحب کی کتاب “اسلام اور موسیقی” میں یکجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ جو دوست موسیقی کے مباح ہونے سے اتفاق نہ بھی کر سکیں کم از کم موسیقی کی حرمت پر اجماع کا دعوٰی نہیں کر سکتے، اور نہ ہی جواز کے موقف کو من گھڑت قرار دے سکتے ہیں۔ اور نہ ہی یہ کہنے کی کوئی مجال ہے کہ یہ چند “جدیدیت زدہ” ذہنوں کی اختراع ہے۔ سچ یہ ہے کہ جب تک انسان میں لطافت کی حسیں باقی ہیں موسیقی سے اس کا رشتہ کاٹا نہیں جا سکتا۔ اسلام کو بھی بھلا اس پر اعتراض کیا ہو سکتا ہے الا یہ کہ یہ مباح کام کسی اور مباح کام کی طرح حدود سے بڑھ جائے یا بے حیائی کا ذریعہ بنا دیا جائے.اب کوئی بدذوق ہی ہو گا جو جائز حدود کو ناجائز سے الگ کرنے کی صلاحیت بھی نہ رکھتا ہو گا؟
گو اس مسئلہ پر سلف تا خلف مختلف آراء و مواقف رہے ہیں پر ہم یہاں اسی موقف کو لیں گے جو دلیل کی میزان پہ پورا اترتا محسوس ہو رہا ہے۔ اس موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ موسیقی اور آلات موسیقی مطلقاً ممنوع نہیں۔ جو چیزیں آلاتِ موسیقی کے بغیر پڑھنا سننا جائز ہے وہ آلات موسیقی کے ساتھ پڑھنا سننا بھی جائز ہے۔ دف، ساز، باجا، ڈھول، بانسری، طبلہ، چمٹا وغیرہ بجانا حرام نہیں۔ البتہ ان آلاتِ موسیقی کے ذریعے فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والا یا کوئی اور کسی پہلو سے ممنوع کلام گایا جائے تو وہ درست نہ ہو گا۔ یعنی اصل حکم کا تعلق اس چیز سے ہو گا جو ان آلات کی سنگت کے ساتھ پڑھی یا گائی جا رہی ہو، سرے سے یہ آلات ہی ممنوع اور حرام نہیں۔ سو اگر ان آلات کے ذریعے مباح اور جائز چیز پڑھی جا رہی ہوں تو وہ جائز ہی ہوں گی اور کفریہ، شرکیہ یا فحش افکارپر مبنی یا کوئی اور ممنوع کلام سنایا جا رہا ہو تو وہ ناجائز ہو گا۔ درج ذیل حوالہ جات اسی موقف کی تائید کرتے ہیں۔
1۔ امام شوکانی اپنی کتاب “ابطال دعوی الاجماع فی تحریم مطلق السماع” میں لکھتے ہیں:
موسیقی اور آلات موسیقی مطلقاً ممنوع نہیں۔ جو چیزیں آلاتِ موسیقی کے بغیر پڑھنا سننا جائز ہے وہ آلات موسیقی کے ساتھ پڑھنا سننا بھی جائز ہے۔ دف، ساز، باجا، ڈھول، بانسری، طبلہ، چمٹا وغیرہ بجانا حرام نہیں۔
ترجمہ: “حرمت سماع و مزامیرسے متعلق بے شمار روایات مروی ہیں، جن کو بعض علماء مثلا ابن حزم، ابن طاہر،اور ذھبی وغیرہ نے اپنی اپنی تصانیف میں یکجا کیا ہے. ان میں زیادہ تر وہ احادیث ہیں جو آلات لہو کی ممانعت سے متعلق ہیں۔ ان ساری احادیث کا جواب ان علماء نے دیا ہے جو غناءکو جائز بتاتے ہیں۔ ظاہریہ، مالکیہ، حنابلہ اور شافعیہ میں سے ایک جماعت نے ان تمام احادیث کو ضعیف بتایا ہے جو حرمت غناء کے بارے میں وارد ہوئی ہیں.اور ان احادیث کو نہ آئمہ اربعہ نے حجت مانا ہے، نہ داوود ظاہری نے اور نہ سفیان ثوری نے۔ ابوبکر ابن عربی کہتے ہیں کہ غناء اور آلاتِ لہو کی حرمت سے متعلق جتنی بھی حدیثیں آئی ہیں ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں۔ علامہ ابن حزم نے قسم کھا کر کہا ہے کہ اس بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں سب کی سب من گھڑت ہیں۔ اگر کوئی حدیث صحیح ہوتی تو سب سے پہلے ہم اسے مانتے” (ص 40)
2۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب مدارج النبوہ میں لکھتے ہیں
ترجمہ: “امام مالک سے سماع کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: میرے اپنے شہر کے اہل علم اس کے منکر نہیں۔ وہ گانا سنتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کا منکر صرف وہی ہو سکتا ہے جو عامی یا جاہل یا غلیظ الطبع عراقی ہو”۔
3۔ سید جمال الدین محدث حنفی اپنے رسالہ “جواز السماع” میں لکھتے ہیں، ترجمہ:
“چند روایات ایسی ہیں جن سے فقہاء سماع کی حرمت پر دلیل لاتے ہیں جیسے کہ “گانا باجا سننا حرام ہے، وہاں بیٹھنا فسق اور اس سے لذت لینا کفر ہے” وغیرہ ان روایات سے متعلق امام نووی لکھے ہیں کہ اس قسم کی کوئی روایت بھی صحیح نہیں۔ امام سخاوی بھی ان روایات سے متعلق کہتے ہیں کہ ان کی کوئی اصلیت نہیں، امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں حرمت غناء پر بعد میں آنے والے علماء جن احادیث سے استدلال کرتے ہیں ان کی کوئی اصل نہیں۔ صحیح حسن تو کیا ضعیف حدیثیں بھی ایسی نہیں جن سے گانے کی حرمت ثابت ہو۔ ”
4۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوہ میں ہی لکھتے ہیں۔
ترجمہ: “فقہاء جو سماع، گانے اور مزامیر وغیرہ کے سخت منکر ہیں اور اس بارے میں تعصب اور عناد کا انداز رکھتے ہیں، بلکہ اس فعل کو کبیرہ گناہ اور اس کے جواز کے عقیدے کو کفر زندقہ اور الحاد سمجھتے ہیں. فقہاء کا یہ طرز عمل زیادتی ہے اور اعتدال و انصاف کے مسلک سے باہر ہے” (ص 245 ج1)
5۔ معروف محدث و فقیہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی لکھتے ہیں،
ترجمہ: “جب نکاح کے اعلان کے لیے دف بجانا جائز یا مستحب ہے تو ڈھول، طنبورے اور نقارے میں اور دف میں کیا فرق ہے؟
“لہو” کی غرض سے سب ہی حرام ہیں اور صحیح مقصد کے لیے سب ہی حلال ہیں۔ اعلان نکاح ہر ایک سے ہوتا ہے دف اور دوسری چیزوں میں فرق کرنا کوئی معقول بات نہیں” (مکتوبات قاضی ثناء اللہ ص8)
6۔ نواب سید صدیق حسن خان لکھتے ہیں،
امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں حرمت غناء پر بعد میں آنے والے علماء جن احادیث سے استدلال کرتے ہیں ان کی کوئی اصل نہیں۔صحیح حسن تو کیا ضعیف حدیثیں بھی ایسی نہیں جن سے گانے کی حرمت ثابت ہو۔
ترجمہ: “مفتی مغرب علامہ ابوالقاسم مالکی، علامہ فاکہانی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ
“قرآن میں مجھے کوئی نص اور سنت نبوی میں کوئی صحیح و صریح حدیث ایسی نہیں ملی جس سے آلات موسیقی کی حرمت ثابت ہو” (دلیل الطالب)
7۔ حرام کا اطلاق کس قسم کی موسیقی پر ہوتا ہے اس کی وضاحت ملا جیون تفسیر احمدی میں یوں کرتے ہیں،
ترجمہ: “ہمارے زمانے کے لوگ (موسیقی کی) مجلسیں منعقد کر تے ہیں، اس میں شراب پیتے اور فواحش کا ارتکاب کرتے ہیں، فاسقوں اور لونڈوں کو اکٹھا کرتے ہیں، جو محض نفسانی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے، ان باتوں کے سخت گناہ ہونے اور انہیں جائز سمجھنے کے کفر ہونے میں کوئی شک نہیں، ‘لہوالحدیث’ ان ہی کی شان میں پورا اترتا ہے۔”
8۔ صاحب القدیم والحدیث کا کہنا ہے کہ،
ترجمہ: “فن موسیقی کوئی ایسا ذلیل اور گرا ہوا فن نہیں جیسا کہ ہم لوگ آج کل سمجھتے ہیں بلکہ اس کے واقف کار وہ لوگ ہیں جو علم و دین داری کے مالک ہیں۔ اگربے وقوفی اور بیہودگی سے گانے بجانے کو آلودہ نہ کیا جائے تو اس کی کوئی ممانعت نہیں”
9۔ .شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے بارے میں مولانا حکیم عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں،
ترجمہ:”شاہ صاحب کو شہ سواری، تیر اندازی اور موسیقی میں مہارت حاصل تھی،”
(نزھہ الخواطرج 7 ص 269)
10۔علامہ شامی لکھتے ہیں،
ترجمہ: “آلہ لہو حرام بذاتہ نہیں، یہ (آلہ موسیقی) ایک موقع پر حلال ہوتا ہے اور ایک موقع پر حرام، یہ فرق اس کے مقصد اور گانے والے کی نیت کی وجہ سے ہوتا ہے” ردالمختار
(ج 5ص221)
11۔ شیخ محمد بن احمد مغربی اپنی کتاب “فرح الاسماع ” میں ص 12 تا 16 گانے بجانے کے متعدد واقعات نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
ترجمہ: “امام عزالدین بن عبدالسلام سے گانے کےتمام آلات سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا سب مباح ہیں”
12۔اسی کتاب میں شیخ یہ بھی فرماتے ہیں،
ترجمہ : “معروف فقیہ و مجتہد علامہ تقی الدین بن دقیق العید نے متعدد بار دف اورگٹار پر گانا سنا، ایک بار گانے کی محفل میں ان کے شاگرد شیخ بہاوالدین اور معتبر فقہاء بھی موجود تھے فقراء ان کے سامنے رقص کر رہے تھے، علامہ سے گانے اور بانسری کا پوچھا گیا تو فرمایا
“اس کے جواز اور عدم جواز پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں، یہ مسئلہ اجتہادی ہے، جس کا اجتہاد اس کی حرمت کی طرف لے گیا وہ حرام کا قائل ہو گیا اور جس کا اجتہاد جواز کی طرف گیا وہ جواز کا قائل ہو گیا”
فن موسیقی کوئی ایسا ذلیل اور گرا ہوا فن نہیں جیسا کہ ہم لوگ آج کل سمجھتے ہیں بلکہ اس کے واقف کار وہ لوگ ہیں جو علم و دین داری کے مالک ہیں۔
13۔ اسی کتاب میں شیخ یہ بھی لکھتے ہیں: “جس کےاندر ذوق سلیم، وسیع المشربی اور درد دل ہو وہ سماع سے لطف اندوز ہوتا ہے اور جو اسے حرام کہتا ہے وہ گدھا ہے”
نوٹ یہ گدھے کے الفاظ میرے نہیں شیخ کے ہی ہیں “ومن حرم ذلک فھو حمار”
14۔ امام عبدالغنی نابلسی فرماتے ہیں،
ترجمہ: “اگر سازوموسیقی لہو کے لیے نہ ہوں تو یہ حرام نہیں، تمام مومن ومسلم کے لیے جائز ہے خواہ وہ ناقص عوام ہوں یا کامل خواص اور اس حکم کو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رکھنا چاہیے”
(ایضاح الدلالات فی سماع الآلات ص 10)
15۔ صاحب القدیم والحدیث علامہ محمد کرد علی لکھتے ہیں،
ترجمہ:”امام قاضی ابو یوسف اکثر ہارون الرشید کی مجلس میں جس میں گانا ہوتا تھا شرکت کیا کرتے تھے اور ان پر گویا اخروی انعامات کی طرف ذہن منتقل ہوجانے کی وجہ سے نشاط کی بجائے گریہ طاری ہو جاتا تھا”
16۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی امام شافعی کی طرف منسوب حرمت کے قول کی نفی میں لکھتے ہیں،
“امام غزالی فرماتے ہیں کہ گانے کہ حرمت امام شافعی کا مذہب نہیں، ابومنصور بغدادی یونس بن عبدالاعلی سے روایت کرتے ہیں کہ امام شافعی میرے ساتھ ایک ایسی مجلس میں تشریف لے گئے جہاں کنیز گا رہی تھی جب وہ گانے سے فارغ ہوئی تو امام نے مجھ سے پوچھا: کہو تمہیں یہ گانا پسند آیا؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے کہا: اگر تم سچ کہتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے اندر صحیح حس موجود نہیں۔ گویا گانے کو پسند کرنا سلیم الطبع ہونے کی نشانی ہے اور اسے ناپسند کرنا طبیعت کے ٹیڑھ کی علامت” (مدارج النبوہ)
17۔علامہ ابوالوفا کا بیان ہے،
ترجمہ: امام احمد بن حنبل اپنے صاحبزادے صالح سے گانا سنا کرتے تھے”(فصول)
اصل الفاظ یہ ہیں “کان یسمع الغناء من ابنہ”
18۔ عراق کے چند ممتاز فقہاء کا احوال بیان کرتے ہوئے امام عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں،
ترجمہ: “میں اپنے شیخ ابوالحسن تمیمی کے دولت کدے پر 370 ھ میں حاظر ہوا جہاں دعوت طعام تھی اس دعوت میں شیخ المالکیہ ابو بکر ابرہی، شیخ الشافعیہ ابوالقاسم دارکی، شیخ الحدیث طاہر بن الحسین، شیخ الحنابلہ ابوالحسن شیخ المتکلمین ابن مجاہد اور امام باقلانی وغیرہ فقہاء موجود تھے، ان لوگوں نے ایک خوش آواز آدمی سے کہا کہ کچھ سناو اس نے غزل سنائی….
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہا گانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، یہ اپنی جلالت شان کے باوجود اپنی باندیوں کو نئی نئی دھنیں بتاتے تھے اور ان سے اپنی بربط پر گانا سنتے تھے
اس کے بعد علامہ شریف ہاشمی نے کہا کہ ان بڑے بڑے شیوخ کو گانا سنتے ہوئے دیکھنے کے بعد میرے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ میں گانا سننے کے خلاف فتوی دوں، کیونکہ یہ عراق کے وہ مشائخ ہیں کہ اگر ابھی یہ چھت گرنے سے سارے مر جائیں تو عراق میں کوئی مفتی باقی نہیں رہے گا” (لطائف المنن ج 2 ص 107)
19۔مناسب ہو گا کہ شعرانی کے نقل کردہ اسی واقعہ میں ان مشائخ و فقہاء نے جو غزل سنی اس کا ترجمہ بھی نقل کر دیا جائے، ترجمہ:
“اس محبوبہ نے اپنی انگلیوں سے مختصر سے کاغذ پر ایک پیغام لکھ بھیجا جس میں مخلوط خوشبو سے لکھا تھا کہ میں تم پر قربان تم مجھ سے بے کھٹکے ملو، کیوں کہ مجھ سے تمہاری محبت سارے جہان میں مشہور ہوچکی ہے۔ میں نے اس قاصد سے کہا، ذرا ٹھہرو میں محبوبہ کے پاس آنکھوں اور سر کے بل چلوں” (ایضاً 107)
20۔ معروف صحابی رسول عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں علامہ سید مرتضی زبیدی لکھتے ہیں، ترجمہ
“عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہا کا گانا سننا پوری شہرت سے ثابت ہے”(شرح احیاء ج 6 ص 458)
ابن عبدالبر کا کہنا ہے، ترجمہ:
“عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہا گانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، یہ اپنی جلالت شان کے باوجود اپنی باندیوں کو نئی نئی دھنیں بتاتے تھے اور ان سے اپنی بربط پر گانا سنتے تھے۔”(استیعاب)
بشکریہ: لالٹین ڈاٹ کام