اردو ادب اور الیکٹرانک میڈیا
از، حیدر قریشی
اردو ادب اور الیکٹرانک میڈیا کے آج کے تعلق پربات کرنے سے پہلے مجھے اردو ،ہندی ،فارسی اور عربی داستانوں کی دنیا کی چند ہلکی سی جھلکیاں دکھانی ہیں۔ آج ان ناقابلِ یقین قصوں کوہم کہیں زیادہ بڑے روپ میں آج کی جدید ترین دنیا میں رُونماہوتا ہوادیکھ رہے ہیں۔
ہماری داستانوں میں اُڑتے ہوئے دیو، جن، پریاں، اُڑن قالین اوراُڑن طشتریاں آج تیزرفتار طیاروں اورخلائی تسخیر میں مصروف راکٹس اور سیاروں کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
ایران کے بادشاہ جمشید کا جام جہاں نما ہمارے لیے ایک افسانہ ہی تھا لیکن آج کا اسمارٹ فون جامِ جمشیدسے کہیں آگے پہنچ چکا ہے۔ علی بابا کی کہانی میں’’کھل جا سُم سُم‘‘کا اسم بولنے سے دروازہ کھلتا تھا، لیکن آج کی سپر مارکیٹوں کے خود کاردروازے ہمارے پہنچتے ہی کسی اسم کے بغیر کھل جاتے ہیں۔
پرانی داستانوں میں سلیمانی ٹوپی کے ساتھ اس سے ملتی جلتی حاضر وموجود ہوتے ہوئے نظروں سے اوجھل رہنے کی کہانیاں ملتی ہیں۔ بالی ووڈ کی ایک فلم’’ مسٹر انڈیا‘‘ اسی داستانوی کردار کو کسی حد تک قابلِ فہم بناتے ہوئے پیش کی چکی ہے۔ اور اب ایک کیمیائی مادہ تیار کر لیا گیا ہے جسےmeta-materials کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کیمیائی مادہ جس شے پر لگا دیا جائے وہ کسی کو دکھائی نہیں دے گی۔ انسان سے لے کر ڈرون طیاروں تک کواس مادہ سے پینٹ کر دیا جائے توہمارے پاس ہوتے ہوئے بھی ہمیں دکھائی نہیں دیں گے جبکہ ہم پوری طرح ان کی نگاہ یا زد میں ہوں گے۔
دلچسپی رکھنے والے احباب meta-materials لکھ کر کسی بھی سرچ انجن میں اس مادہ کی حقیقت اور کارکردگی کے بارے میں جانکاری حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ مادہ روشنی کو خود میں جذب کیے بغیر اور عکس بنائے بغیر خود سے دور ہی جھکا دیتا ہے، یوں وہ حصہ جو اس مادہ میں لپٹا ہوا ہے کسی کو دکھائی نہیں دیتا اور اس کے پیچھے جو کچھ ہو وہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔
ہماری بعض کہانیوں میں عمر کو گزرنے سے بچائے رکھنے کے واقعات ملتے ہیں۔ لطائف کی صورت میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔’’عذرا کی واپسی‘‘کی صورت میں ایک معروف فن پارہ ایک سحر انگیز داستان سناتا ہے اور اب حیاتیاتی سائنس میں حیرت انگیز تجربہ ہوا ہے۔ صرف عمرِ رفتہ کو بچائے رکھنا ہی نہیں بلکہ عمر کو کئی سال پیچھے لے جانے کا تجربہ بعض جانوروں پر آزمایا گیا ہے اور کامیاب ثابت ہوا ہے۔
دس بیس برس تک عمر کم کرنے کا سلسلہ تو مردوں سے زیادہ خواتین میں مقبول ہو جائے گا, لیکن یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ کہیں یہ تجربہ انسانی زندگی کو غیرمعمولی حد تک طویل کرنے کی طرف نہ جانکلے۔ اور پھرہم سب ان لوگوں جیسے حال کو نہ پہنچ جائیں جو آبِ حیات نہر کا پانی پی کر اس کے کنارے پر پڑے ہوئے تڑپ رہے تھے، موت کی آرزو کر رہے تھے اور انہیں موت نہیں آرہی تھی۔ ہماری اردو کی داستان میں تو ایسا ہی لکھا ہوا ہے،دیکھتے ہیں ہماری اگلی نسلوں کی حقیقی زندگی کی داستان میں کیا لکھا جاتا ہے۔
بعض مذہبی روایات اور آیات میں زمانے کی دستبرد سے عرصہ تک محفوظ رہنے والوں کا ذکر ملتا ہے۔ اصحابِ کہف کے واقعہ سے ملتے جلتے کئی واقعات ہمارے قصوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یعنی ایک طرف صدیاں گزر جاتی ہیں دوسری طرف محض پلک جھپکنے تک بات ہوئی ہوتی ہے۔ اور اب یہ سب کچھ ایک حقیقت کا روپ دھارنے کے قریب پہنچ رہا ہے۔ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر تعمیر کی گئی ’’یورپی لیبارٹری برائے ذراتی فزکس‘‘ میں ایٹم کے چند ذرات پر بگ بینگ کا تجربہ دہرایا گیاجس سے کائنات کی ابتدا کے بارے میں بگ بینگ کے سائنسی تصور کی تصدیق ہو گئی۔
اس تجربہ کے آغاز ہی میں ایک انوکھا سب پارٹیکل سامنے آیااور پھر وہ غائب ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی بڑے دھماکے کا عمل شروع ہو گیا۔ اس سب پارٹیکل کو ویسے تو ہگز بوسون پارٹیکل کا نام دیا گیا ہے لیکن اس کی کار کردگی کے باعث اسے گاڈ پارٹیکل بھی کہا جاتا ہے۔ سائنس دان اب اس کی کھوج میں مصروف ہیں۔ اگر یہ ان کی دسترس میں آگیا توروشنی کی رفتار سے سفر کرنا معمول کی بات ہو جائے گی۔ گویا بیگم سبزی کاٹ رہی ہوں گی اور ہم اپنے نظام شمسی سے باہر کا ایک چکر لگا کر واپس آجائیں گے اور بیگم یا تو تب بھی سبزی ہی کاٹ رہی ہوں گی یا ہنڈیا بھون رہی ہوں گی۔
یہ نہ تو محض مذاق ہے اور نہ ہی صرف خیال آرائی۔ جیسے ہماری ہزاروں برسوں سے سینہ بہ سینہ چلتی داستانوں اور لوک قصوں میں موجود ناقابلِ یقین باتیں آج ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ویسے ہی روشنی کی رفتارسے سفرکی ناقابلِ یقین بات ہماری اگلی نسلوں کی زندگی کے معمولات میں شمار ہو گی۔ گویا ہم وسیع تر خلائی دور(سپیس ایج) میں داخل ہونے والے ہیں۔ ہاں ایک ڈر ضرور ہے،اگر ہم کسی عالمی یا علاقائی حماقت کے نتیجہ میں ایٹمی جنگ کا شکار ہو گئے توپھر سپیس ایج کی بجائے پتھر کے زمانے میں چلے جانے کا خطرہ بھی سروں پر موجود ہے۔
میں نے قدیم قصوں کے چھ واقعات میں سے چار ایسے بیان کیے ہیں جو سائنسی طور پر حقیقت بن چکے ہیں ۔جبکہ آخرالذکردو واقعات ایسے بتائے ہیں جو ابھی سائنسی طور پر تحقیق کے مراحل سے گزر رہے ہیں تاہم کسی وقت بھی ان کامکمل حقیقت بن جانا خارج از امکان نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مشرق کی بیشتر قدیم داستانوں کی کئی طلسماتی اور ہوش رُبا کہانیاں حقیقت کا روپ دھار کے ہمارے سامنے آن کھڑی ہیں۔ اور ہماری نئی نسل اس جہانِ طلسم میں کسی حیرت میں مبتلا ہوئے بغیر ان سب تحیرات کو اب معمولاتِ زندگی میں شمارکرتی ہے۔
ان ساری داستانوں میں سے محض ایک داستان جامِ جمشید کا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے جڑتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں سارے ٹی وی چینلز، برق رفتار اطلاعی نظام، انٹرنیٹ کی ساری دنیا، جس میں ساری ویب سائٹس ،سارے سوشل فورمز،آن لائن رابطوں کے سارے ذرائع ہمہ وقت دستیاب ہیں ،ہر طرح کے علوم اورہر طرح کی معلومات کے سات سمندر نہیں، بلکہ ہزاروں سمندر موجزن ہیں۔ اپنے اپنے جہان میں آزادانہ طورپر متحرک ہر طرح کا میڈیا انٹرنیٹ کی ، یا یوں کہہ لیجیے کہ اسمارٹ فون کی ڈبیہ میں بند ہو کر ہم سب کے ہاتھ میں آگیا ہے۔
اردو ادب اخبارات و رسائل سے ہوتا ہواریڈیو، ٹی وی چینلز تک اور پھر مشاعروں، کانفرنسوں اور سیمینارز کے ذریعے اپنے ہونے کا تھوڑا بہت ثبوت دیتا آرہا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا آباد ہونے کے بعداردو ادب اس جہان میں بھی دھیرے دھیرے دکھائی دینے لگا تھا۔ شعرو ادب کے مختلف انتخاب سے آراستہ ویب سائٹس سامنے آئیں تو پہلے پہل وہاں رومن رسم الخط کے ذریعے اردو ادب کو متعارف کرایاگیا۔ مختصر مدت میں ہی اردو ادب کے شیدائیوں نے پکچر کی صورت میں اردورسم الخط کے ذریعے اردو ادب کی ویب سائٹس قائم کرنا شروع کر دیں۔
ایسی ابتدائی اور نہایت اہم ویب سائٹس میں اردوستان ڈاٹ کام اور اردو دوست ڈاٹ کام کانام لوں گا۔ افسوس کہ اس وقت یہ دونوں ابتدائی ویب سائٹس بند ہیں۔ اسی دوران پی ڈی ایف فائل کی صورت میں پوری کتاب کو انٹرنیٹ پر پیش کرنا آسان ہوا تو ای لائبریریزکا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مختلف اداروں کے تحت، بعض اردو دوست احباب کی کاوشوں کے ذریعے اور متعدد ادیبوں کی ذاتی توجہ کے نتیجہ میں ایسی لائبریریوں نے اردو ادب کی نئی پرانی ہر طرح کی کتابوں تک رسائی کو بے حد آسان بنا دیا۔
اردو زبان یونی کوڈ میں منظرِ عام پر آئی تو اس جدید ترین سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یونی کوڈ میں ویب سائٹس قائم ہونے لگیں اور متعدد لائبریریز نے یونی کوڈ میں اردو کتابیں فراہم کرنا شروع کر دیں۔ یونیورسٹی کے طالب علموں کے لیے ایسی لائبریریوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں سے متحرک الفاظ کو کاپی اینڈ پیسٹ کرکے اپنے مقالہ جات میں آسانی کے ساتھ حوالہ دے کرشامل کرسکتے ہیں۔اس سے تحقیقی مقالات کی تکمیل میں بڑی سہولت ہونے لگی ہے۔
ذاتی اور اجتماعی بلاگز کے سلسلہ نے اہلِ ادب کے لیے مزید آسانیاں مہیا کر دی ہیں۔ سو اردو ادب کا بے شمار قدیم وجدید سرمایہ اس وقت الیکٹرانک میڈیا پرموجود ہے۔ اس تک رسائی آسان ہے۔ تاہم جیسے ادبی کتاب کے قارئین بہت کم رہ گئے ہیں ویسے ہی الیکٹرانک میڈیا پربھی سنجیدہ ادبی کتابوں کے قارئین بہت کم ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر شو بزکی چکا چوندکے باعث یا تو ہمارے اہلِ ادب بھی اسی رو میں بہنے لگے ہیں یا پھر کسی حد تک مایوسی کاشکار ہونے لگے ہیں۔ بہت کم ہیں جوہر طرح کی میڈیائی بے اعتنائی کے باوجود اپنے لکھے ہوئے لفظوں پر پورا اعتماد کرتے ہوں۔
میں اپنے ایک پرانے مضمون’’ادب،میڈیا اور انٹرنیٹ‘‘میں اس حوالے سے جو کچھ مُثبت و منفی موجود ہے اس کا ذکر تفصیل سے کر چکا ہوں۔ الیکٹرانک میڈیا پر ہر طرح کا مواد موجود ہے۔ ایسا بے شمار مواد جسے عموماََ ایک دوسرے سے چھپ کر دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ ایسے مواد کے سلسلہ میں ہم اہلِ مشرق اور اہلِ مغرب میں ایک بنیادی فرق موجود ہے۔ اس فرق کو واضح کرنے کے لیے دو سادھوؤں کا قصہ یاد آگیا۔ دونوں سفر پر نکلے،رستے میں ایک بڑی ندی دکھائی دی۔ ندی کے کنارے پر ایک دوشیزہ پریشان کھڑی تھی۔ اسے دوسرے کنارے پر جانا تھا، لیکن وہ لہروں کے زور سے ڈر رہی تھی۔
ایک سادھو نے اسے پیش کش کی کہ میرے کندھوں پر بیٹھ جاؤ ، تمہیں دوسرے کنارے تک پہنچا دوں گا۔ لڑکی سادھو کے کندھوں پر سوار ہو گئی۔ دوسرے کنارے پر سادھو نے اسے اتار دیا اور وہ اس کا شکریہ ادا کرکے چلی گئی۔ پھروہ دونوں سادھو دیر تک اور دور تک خاموشی سے چلتے رہے ۔آخر دوسرے سادھو نے خاموشی کو توڑا اور پہلے سادھو سے کہا ہم تو سادھو ہیں، ہمیں ناری کو چھونا منع ہے اورتم نے اسے کندھوں پر سوار کر لیا۔ اپنے ساتھی کی یہ بات سن کر پہلا سادھو مسکرایا اور بولا میں نے تو اس ناری کو دوسرے کنارے پر پہنچتے ہی اپنے کندھوں سے اتار دیا تھا لیکن لگتا ہے تم نے ابھی تک اسے اپنے کندھوں پر سوارکر رکھا ہے۔
نہ تواہلِ مغرب سادھو ہیں اور نہ ہم اہلِ مشرق۔ تاہم اہلِ مغرب پہلے سادھو کی طرح ندی کے دوسرے کنارے پر اپنا بوجھ اتار کر اپنے اصل کام میں لگ جاتے ہیں جبکہ ہم لوگ عام طور پر دوسرے سادھو کی طرح ایسی چیزوں کو اپنے سروں پر سوار کیے رکھتے ہیں۔
بہرحال ایسے سطحی مواد، سوشل میڈیا کی گالی گلوچ سے بھی بڑھی ہوئی آزادی، متعدد اخلاقی اورسماجی مسائل کو جنم دیتی ہوئی خرابیاں، ایسا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اسی الیکٹرانک میڈیا پر ہی ہم نے اردو ادب کے سلسلہ میں اپنا مُثبت کردار ادا کرتے رہنا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ النحل کی آیت ۶۶ میں نہایت لطیف بات کی گئی ہے۔ تمہارے لیے جانوروں میں سوچنے کا مقام ہے کہ ہم نے ان کے پیٹ میں گوبر اور خون کے درمیان میں سے دودھ کی دھاریں نکال دی ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہیں۔ سو جب ہم غور کریں گے تو اسی الیکٹرانک میڈیا کے پیٹ میں موجود گوبر اور خون کے درمیان میں سے ادب کے دودھ کی دھاریں نکالتے رہیں گے۔ اپنے عصر سے ہم آہنگ ہوتے چلے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۹؍اپریل ۲۰۱۶ء کوگلبرگہ یونیورسٹی کرناٹک کے شعبۂ اردو و فارسی کی جانب سے ’’اردو ادب اور الیکٹرانک میڈیا‘‘ کے موضوع پر ہونے والے ایک روزہ سیمینارمیں پڑھا جانے والا کلیدی خطبہ
بشکریہ: مسلم ٹائمز