عورتیں یا کسی بادشاہ کی چھوڑی ہوئی محبوبائیں
از، قاسم یعقوب
بعض اوقات معاشرتی اقدار کی پاسداری کا خبط دل و دماغ پر اتنا مسلط ہوجاتا ہے کہ پاسداری کے نام پر قانون شکنی غلبہ پانے لگتی ہے۔ ہم اپنے اردگرد آئے روز ایسے واقعات دیکھتے ہیں جو ہمارے فکری توازن کو عدم توازن کر دینے کا کارِ مشکل انجام دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ایک طرف مشرقی اقدار کی زینت گاہ سمجھا جاتا ہے جب کہ دوسری طرف مذہبی حوالے سے اسلامی نظامِ حیات کو بھی ہر حوالے سے زندگی کی اقدار کا پیمانہ قرار دیتاہے۔ ہم لاکھ کسی مثبت سرگرمی کا احیا چاہ رہے ہوں مگر فیصلہ اُن اقدار کی میزان سے ہی ہوتا ہے کہ وہ کس طرف جھکتا ہے۔
کچھ ایسا ہی خواتین کی عزت و توقیر کا معاملہ بھی ہے۔ خاتون ہمارے جیسے معاشروں میں کتنی ہی حقیر سطح پر سماج کا حصہ بنتی ہو مگر یہ طے شدہ بات ہے کہ ہمارا معاشرہ اور اقداررسمی طور پر عورت کی توقیر و عزت کا بہت حکم دیتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ یہ عزت کا فلسفہ کم از کم ہماری اقدار میں موجود ہے عملی طور پر اگر نہ بھی ہو۔ عورت کی توقیر کی ایک وجہ اس کے ساتھ معاشرے ہی کے ہاتھوں ہونے والی ناانصافی بھی ہے۔ جب معاشرے میں (کسی صنف کی بنیاد پر) سماجی تفریق کی جاتی ہو تو معاشرے کے اندر ہی سے اُس کے حق میں بھی ایک فلسفہ جنم لے لیتا ہے آپ اس روایت کو ہماری مشرقی آداب میں شامل سمجھیں۔ اگر اس فلسفے کو اُس معاشرے کی زمینی ؍جغرافیائی روایات کے ساتھ ساتھ اُس علاقے کا مذہب بھی تصدیق کر دے تو یہ ظلم و ستم اور بے توقیری جرم قرار دے دی جاتی ہے اور’’ نیک اشرافیہ‘‘ میں اس پر عمل درآمد ’’نیک کام‘‘ اور فرضِ عین بھی سمجھا جانے لگتا ہے۔ہمیں اپنے ارد گرد روزانہ عورتوں کی بے توقیری کے واقعات ملتے ہیں بلکہ ہم خود بھی کسی نہ کسی طرح اس میں ملوث ہوتے ہیں مگر جونہی کسی اور کو اس ’’جرم‘‘ کا ارتقاب کرتے دیکھتے ہیں تو اس کو روکنا اور اس کی سرکوبی کرنا اپنا ’’فطری حق‘‘ اور سماجی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
میرے کولیگ اور جی سی یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے وابستہ شکیل احمد کی شخصیت کا ایک پہلو سادہ گوئی بھی ہے جن سے میں نے زندگی میں بہت کچھ سیکھا۔ کئی سال پہلے ایک واقعہ سناتے ہوئے شکیل صاحب نے مجھے مشرقی اور مغربی سماج کے معیارات اور عورت کے سماجی کردار کوسمجھنے کی طرف ایک نیا زاویہ فراہم کی۔ شکیل صاحب نے مجھے یہ واقعہ اُن دنوں سنایا جب وہ برطانیہ سے نئے نئے واپس آئے تھے۔اُن کی ایک بہن برطانیہ ہی میں مقیم ہیں۔انھوں نے بتایا جب وہ اپنی بہن کے گھر مانچسٹر پہنچے تو اُس دن اتوار کا دن تھا اور وہ سارا دن اپنے بہنوئی اور اُن کے بچوں کے ساتھ مصروف رہے۔ رات کو سیر کے لیے نکل گئے ۔ بہن نے ہر موضوع پر گفتگو کی۔ پاکستانی معاشرے اور برطانوی سماج پر کھل کر بحث مباحثہ رہا۔وہ اپنے دکھ بھری داستان کو مزے لے کر بیان کرتے رہے۔
پھر شکیل صاحب نے بتایا:’’ اگلے دن صبح صبح مجھے بہن نے اُٹھا کر آئندہ کا شیڈول سنایا۔بچے ابھی کچھ دیر میں اپنے اپنے سکولوں کو روانہ ہونے والے تھے۔ بھائی اپنے کام پر رخصت ہو گئے تھے اور بہن نے دفتر جانے کے لیے اپنے دوپہر کے کھانے کا اہتمام کر لیا تھا جو ایک ٹفن کی شکل میں نظر آرہا تھا۔ وہ کہنے لگی: بھیا آپ آرام سے سوئیں۔ جب نیند پوری کر لیں تو باہرپارک میں چلے جائیں۔ وہاں کچھ پاکستانی بوڑھے بھی آتے ہیں ۔ بچے تین بجے آئیں گے اور پھر کھانا کھاتے ہی ٹیوشن کے لیے چلے جائیں گے۔ آپ کے بھائی رات گئے آتے ہیں اور میں بھی کوئی آٹھ بجے آؤں گی۔ اگر آپ اُس وقت تک جاگ رہے ہوئے تو ملاقات ہو گی ورنہ پھر کل صبح ناشتے پر ہی ملاقات ہو گی۔میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ کیا روٹین ہوئی! اتنی میکانکی زندگی!!! بہن نے جواب دیا : ہاں یہاں ہم سارا ہفتہ کام کرتے ہیں پھر ویک اینڈ پر خوب گھومتے ہیں۔ میں نے نہایت عادلانہ انداز سے کہا : مگر آپا !عورتوں کو اس طرح کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ تو گھر میں رہیں۔ انھوں نے میرے استفسار پر ناک بھوں چڑھاتے کہا ’’ یہاں عورتیں بھی بہت محنت کرتی ہیں۔ یہ پاکستانی سماج کی طرح نہیں کہ عورت بے کار بیٹھی رہے اور مرد سارا دن مزدوری کر تا پھرے۔ یہاں ایسی تخصیص بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے کہ عورتوں کو گھر کے کاموں تک محدود کر دیا جائے اور مرد صرف باہر کے کاموں تک۔ یہاں تو عورت بھی کام کرتی ہے بلکہ مرد اور عورت دونوں مل کرسماجیات میں حصہ لیتے ہیں۔‘‘
شکیل صاحب کی بات مجھے اب تک یاد ہے انھوں نے کہا تھا ’’پاکستانی سماج میں عورتیں بہت بے کار ہوتی ہیں اور سارا دن چند روٹیوں کی ’’تخلیقی صلاحیت ‘‘کے اظہار کے، کچھ نہیں کرتی۔ اسی لیے عورت کی تذلیل بھی ہوتی ہے اور عورت بھی اپنی عزت و تکریم کی جھوٹے دعویدار بنی رہتی ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں عورت کو سماج نے الگ کر رکھا ہے اور وہ سماج میں عضوِ ناکارہ ہی سمھی جاتی ہیں۔ عورتوں کے مردانہ معاشرے میں حقوق کے مسائل اور نوعیت کے ہیں مگرعورت خود کیا کرنا چاہتی ہے یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے۔ ہمارے معاشرے عورتوں کی ایک کثیر تعداد اپنی مظلومی کو نہ صرف قائم دائم رکھتی ہے بلکہ بھرپور فائدہ بھی اٹھاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو کسی بادشاہ کی چھوڑی ہوئی محبوبہ تصور کرتی ہے۔تعلیمی ادارہ ہو ، بازار ہو، کچہری ہو یا دفاترہوں____ عورت پر ظلم یا زیادتی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورت خود کو پہلے ہی سے ’’عورت‘‘متعین کر لیتی ہے۔ گھر میں بیٹھی عورت کا کردار تو پہلے ہی سے مخصوص ’’حدود‘‘ میں قیدہوتا ہے۔یہ قیدی عورتیں اپنے محدودکردار کو اپنا حق سمجھتی ہیں۔یہ سب عورتوں کی بات نہیں ہو رہی مگر ایسی عورتوں کی تعداد کل خواتین کا غالب حصہ ہے۔
کچھ ماہ پہلے ایک خبر سننے کو ملی تھی کہ برطانیہ کی ایک عدالت میں جج صاحب نے ایک عورت کو دوران سماعت اپنے نقاب کی پردہ کشائی کا حکم دیا تو اُس نے اسے ’’اسلامی مسئلہ‘‘ بنا لیا اور نقاب اتارنے سے انکار کر دیا۔ جب کہ نقاب کی پردہ کشائی کا تقاضا وہاں قانونی طور پر کیا گیا تھا۔ جج نے یہ جاننے کے لیے کہ عورت کون ہے اور اُس کے چہرے کے کیا تاثرات ہیں جو کیس کو کسی بھی رُخ پر لے جانے میں مدد ددے سکتے ہیں، نقاب اتارنے کا کہہ رہا تھا مگر عورت نے اس تقاضے کو اپنی عزت کی بے حرمتی اور ناموس کو چاک کر دینے کے مترادف سمجھ کر ہنگامہ برپا کر دیا جس کی گونج دنیا بھر کے انصاف کدوں میں سنائی دینے لگی۔
پشاور میں ایک میڈیکل کالج میں ایک خاتون طالبہ نے اپنے ٹیچر سے نقاب کے حوالے سے جب ’’غیر شرعی‘‘ الفاظ سنے تو سیخ پا ہو گئی اورسٹیج پہ آکے روسٹرم سنبھال لیا اور عورتوں کے حقوق پہ گفتگو کرنے لگی۔ جب ٹیچر نے غصے سے مائیک چھینا تو عورتوں کی عزت و توقیر کے لیے مشترکہ محاذ بنا لیا گیا اور تمام طلباوطالبات نے کلاسس کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ انکوائری شروع ہو گئی اور خوب ہنگاموں کے بعد ٹیچر کے تبادلے سے معاملہ دفع دفع ہُوا۔ایک عورت کے ساتھ ’’غیر مناسب‘‘ گفتگو کی سزا اُس ٹیچر کو یہ ملی کہ اُس کی تمام مراعات بھی چھین لی گئیں۔
ایک اور خبر بھی اسی تناظر میں سننے کو ملی کہ ایران میں عدالت نے ایک خاتون منتخب رکن اسمبلی کی اس بناپر اُس کی رکنیت کو کالعدم قرار دے دیا کہ اُس نے اپنی خوبصورتی کو اپنے ووٹرز کو کشش دینے کے لیے استعمال کیا۔ ایسی تصویر کی نمائش کی گئی جس میں عورت بطور لیڈر یا رکن اسمبلی نہیں بلکہ ایک جنسی اپیل رکھنے والی عورت کے روپ میں سامنے آئی۔اس مسئلے کو بھی ہم عورت کے’’ عورت پن ‘‘ کی سماجی حیثیت میں دیکھ سکتے ہیں۔ عورت کی توہین کی داستان الگ سہی مگر عورت خود بھی اپنے آپ کو کوئی سماجی کردار دینے کو تیار نہیں۔ جہاں بھی موقع ملے وہ اپنے عورت ہونے کے شخصی کردار کو نمایاں کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ شاید یہ مسئلہ مشرقی ممالک میں زیادہ ہے۔ جہاں عورت کو مرد کے تناظر ہی میں دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے عورت بھی پہلے خود کو مرد کے خانے میں رکھ کے اپنی فکری و جسمانی حدود کو ماپتی ہے اور پھر اپنے سماجی کردارکا انتخاب کرتی ہے۔ عورت اپنے سماجی کردار کے حصول کے لیے لڑ رہی ہے مگر اسے پہلے اپنے ’’عورت پن‘‘ کے نام نہاد کردار سے بھی جان چھڑوانا ہوگی۔