نوجوانوں میں نشے کا بڑھتا ہوا رجحان
جبار قریشی
کسی بھی گھرانے کو اچانک یہ خبر ملے کہ ان کا بچہ نشہ کرتا ہے تو یہ خبر والدین پر بجلی بن کر گرتی ہے کیونکہ نشے کی لت ایسا روگ ہے جو اس کے شکار فرد کو ہی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ پورے گھرانے کی خوشیاں اور سکون کو برباد کردیتی ہے۔ نشہ کرنے والے اپنے نشے کی عادت کو کافی عرصے تک اپنے گھر والوں سے چھپانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جب اہل خانہ کو مریض کے نشے کا علم ہوتا تو اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، بالخصوص اس میں بڑی تعداد 21 سال سے 30 سال کے نوجوانوں کی ہے۔ منشیات میں چرس کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ لاعلمی کی بنیاد پر چرس کو ایک بے ضرر نشہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ تحقیق بتاتی ہے کہ 90 فیصد لوگوں نے نشے کا آغاز چرس سے کیا ہوتا ہے۔چرس کے استعمال سے انسان کی منطقی سوچ متاثر ہوتی ہے، جس سے انسان سیکھنے اور مسائل کے حل کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ 21 سال سے 30 سال کی عمر میں نوجوان جب چرس کا نشہ کرتے ہیں تو ان میں سیکھنے اور مسائل کے حل کی صلاحیت نہ صرف ختم ہوجاتی ہے بلکہ اسے دوسرے جسمانی امراض میں مبتلا کردیتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عمر کا یہی حصہ سیکھنے کے عمل میں زیادہ اہم ہے۔
نشے کا آغاز عام طور پر تفریحاً کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے دوست و احباب نشے کی دعوت دیتے ہیں یا کسی کی دیکھا دیکھی یا چوری چھپے انسان اس غلط عادت کو اختیار کرلیتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ عادت بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے، مستقل نشہ کرنے کی صورت میں نشہ کرنے والوں کا جسم تیزی سے نشے کی مقدار کو ضایع کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے اس طرح نشہ کرنے والے مجبوراً اس کی مقدار میں اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ اس طرح مختلف نشے کرنے والوں کی زندگی کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں اور نشے باز کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیتے ہیں۔
جنگ اور محبت کی طرح نشے کا مریض بھی اپنی ہر حرکت کو جائز سمجھتا ہے۔ نشے کی خاطر غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں تک میں ملوث ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں والدین رونے دھونے، چیخنے چلانے، دھاڑنے ، لعنت ملامت، زور زبردستی، تنقید، منت و سماجت، دھمکیوں، دھونس، آنسو، وعظ و نصیحت جیسے تمام حربے استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نشے کا مریض نشے کے زیر اثر ہوتا ہے، اسے اپنے ارد گرد کے حالات کا شعور نہیں ہوتا۔
اس بات کو مثال سے سمجھیے آپ کے پیٹ میں شدید درد ہے، آپ اس درد میں تڑپ رہے ہوں، اس وقت آپ کا کوئی دوست آپ کو خوبصورت شعر سنائے تو آپ اس شعر پر داد دینے کے بجائے صرف ایک بات کہیںگے ہائے میرا پیٹ کا درد، کیونکہ آپ پیٹ کے درد کے زیر اثر ہوںگے ۔ اس طرح نشے کا مریض نشے کے زیر اثر ہوتا ہے وہ نشے کو مسائل کی جڑ نہیں بلکہ اسے مسائل کا حل سمجھتا ہے۔ اسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے والدین اور معاشرے کے لیے ناسور بن چکا ہے۔
اس طرح کے حالات میں پے در پے ناکامیوں کے بعد والدین کو پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ نشے سے نجات ممکن نہیں ہے، ایسے حالات میں عموماً والدین خود ہی یہ تصور کرلیتے ہیں کہ وہ اولاد کو جنم دے کر کوئی جرم کر بیٹھے ہیں۔ بعض والدین بدنامی کے ڈر سے کسی کا تعاون بھی حاصل نہیں کرتے۔ لوگ بھی والدین سے اتفاق کرنے کے بجائے بچوں کی خراب تربیت کا قصور وار قرار دے کر انھیں گہرے احساس گناہ میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اس غلط رویہ اختیار کرنے والے سقراطوں اور بقراطوں سے کوئی یہ سوال کرے کہ بتایئے ایک ہی ماں باپ کے زیر سایہ تربیت پانے والے ایک یا دو بچے نشے میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جب کہ باقی بچے نہ صرف اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ فرمانبرداری میں بھی اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، یقیناً ان افلاطونوں کے پاس اس سوال کا جواب نہ ہوگا۔
عام طور پر یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ بچے وہ ہی بگڑتے ہیں جو احساس محرومی، عدم توجہی اور زیادتیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے، کلی طور پر نہیں۔ آپ کو بگڑے ہوئے بچے متوسط طبقے سے لے کر اعلیٰ طبقات ان پڑھ سے لے کر پڑھے لکھے سخت گیر گھرانوں سے لے کر نرم خو گھرانے تک دینی لا دینی، اکلوتے بہن بھائیوں والے سب ہی طرح کے لوگوں میں ملیں گے۔ ایسے لوگ جن کے بچے نشے کی لت کا شکار ہیں وہ نشے کی وجوہات کو جاننے پر اپنی توانیاں صرف کرنے کے بجائے اس بات پر سوچ بچار کریں کہ نشے کی لت سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔
اس حوالے سے ہماری حکمت عملی انتہائی عین سائنسی رہی ہے، ہم آج تک لاکھوں انسان جو نشے کی لت کا شکار ہیں ان کے لیے کچھ نہیں کرپاتے۔ نشے کے مریض کے علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ نشے کے مریض کی خود فریبی ہے۔ یہ اتنی بڑی رکاوٹ ہے کہ نشے کی بیماری کو خود فریبی کی بیماری کہاجاتا ہے۔ یہ خود فریبی ایسی ہوتی ہے کہ نشہ کرنیوالا تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوکر آپ کو پرسکون دکھائی دے گا۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے مریض اپنے اصل حالات سے بے خبر رہتا ہے۔ اس کا اطمینان قابل دید ہوتا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ مریض کو اس خود فریبی کے جال سے نکالا جائے اگر مریض خود اپنی قوت ارادی اور فیصلہ کرنے کی وقت سے خود فریبی سے نکلنے کا فیصلہ کرلے تو 100 فیصد وہ نشے سے نجات حاصل کرسکتا ہے بعض نشے باز نشے کی مقدار کنٹرول یعنی کم سے کم کرنے کی کوشش کے ذریعے نشے سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس طرح سے علاج محض چور سپاہی کا کھیل ہوتا ہے علاج نہیں۔جس طرح کسی بھی مہلک بیماری میں مبتلا شخص کو مرنے کے لیے بے سہارا چھوڑ دینا غیر انسانی رویہ ہے، اسی طرح نشے کے مریض کو بھی زندگی کی بازی ہارنے کے لیے تنہا چھوڑدینا ظلم و ستم کے مترادف ہے۔
نشے کے عادی افراد سے لا تعلقی کا اظہار ایک آسان راہ فرار ہے اور اجتماعی زندگی سے آنکھیں چرانے کا سہل ترین راستہ۔ جب تک معاشرہ اجتماعی ذمے داری کے طور پر اس مسئلے کو قبول نہیں کرے گا نوجوانوں میں نشے کا رجحان یونہی بڑھتا رہے گا اور آخرکار اس سے پورا معاشرے متاثر ہوگا۔
پالیسی ساز اداروں کو منشیات کے خاتمے کے لیے سخت ترین قوانین بنانے ہوںگے اور ان پر عمل کرنا ہوگا۔ یاد رکھیے ہماری نوجوان نسل ہی ہمارے مستقبل کا اثاثہ ہے۔ ہمیں اپنی بقا کے لیے قیمتی اثاثے کو بچانا ہوگا، اسی میں ہماری خوشحالی اور ترقی کا راز ہے۔
بشکریہ: ایکسپریس اردو