پاپولیشن بم اور سماجی پسماندگی
ڈاکٹر مجاہد منصوری
دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی آبادی میں اضافے کی رفتار جس تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ پوری دنیا میں اقتصادی استحکام،فلاح عامہ اور انسانی زندگی کو آسان تر بنانے کی نئی نئی ایجادات و اختراعات دریافت ہونے کے باوجود مسلسل تشویش کا باعث ہے۔ واضح رہے کہ قدرتی ماحول کی تباہی تیزی سے بڑھتی ارضی، فضائی اور آبی آلودگی، خوراک کے گرتے معیار، کم خوراکی، بیروزگاری اور غربت، عالمی آبادی میں مسلسل اور تیز اضافے کا شاخسانہ ہے۔ ایک بڑا تشویشناک پہلو عدم توازن ہے کہ پہلے سے گنجان آبادیوں ترقی پذیر براعظموں، ایشیا (ماسوائے جاپان، اسرائیل اور سنگاپور) افریقہ اور لاطینی امریکہ کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا، اس کے مقابل شمالی امریکہ (ریاست ہائےمتحدہ امریکہ اور کینیڈا) یورپ اور آسٹریلیا، نیوزی لینڈ نے مطلوب حد تک ہی آبادی میں (سست) اضافے میں عظیم کامیابی حاصل کی۔ عوامی جمہوریہ چین دنیا کا سب سے گنجان آباد اور ترقی پذیر دنیا کا ملک ہونے کے باوجود اپنے ریاستی نظام تقریباً سو فیصد حکومتی رٹ اور خاندانی منصوبہ بندی کے سرکاری اہتمام کی قبولیت عام نے عالمی رجحان کے برعکس چین میں آبادی پر قابو پانے میں قومی ضرورت کے مطابق کامیابی حاصل کی۔
اس سے قبل کہ پاکستان میں نئی مردم شماری کے اعلان کے تناظر میں شرح آبادی میں اضافے پر قابو پانے کی ناکامی کا جائزہ لیا جائے سماجی علوم کی روشنی میں عالمی سطح پر آبادی میں تشویشناک اضافے پر قابو پانے میں ناکامی اور کامیابی کا تجزیہ کیا جائے۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کم آبادی میں اضافے کو روکنے کی عالمی اور قومی سطح کی پالیسیاں فیصلے اور ان کا ابلاغ عام، مذہب (خصوصاً) اور انسانی اقدار کے حوالے آج کی انسانی زندگی کا حساس ترین موضوع ہے۔ ایک طرف آسمانی صحائف کی اس موضوع پر تعلیمات بہت واضح اور یکساں ہیں دوسری جانب ان پر عملدرآمد کرنے اور خود انسان کے وضع کردہ طریق ہائے ضبط تولید کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کی بحثیں اور رویے بہت پیچیدہ ہیں۔تاہم اطمینان بخش یہ ہے کہ مذہبی تعلیمات کو چیلنج اور ان کی مخالفت اور اپنے مذہب کے مطابق مذہبی تعلیمات کو ترک کئے بغیر ایسی اختراعات عام ہیں جن کی اختیاریت، (adoption) فقط آگاہی نہیں، بڑھا کرملکی آبادی میں تشویشناک اضافے پر قابو پایا جا سکتا ہے جو کئی ترقی پذیر اور مسلم ممالک میں بھی پایا گیا اور پایا جا رہا ہے جیسے کسی حد تک مصر، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا،بطور طالب علم ’’ترقیاتی ابلاغ‘‘ (Development Communication) اور ابلاغ عامہ کی اس جہت کی 20سالہ تدریس کے بعد ناچیز عالمی آبادی کے اضافے میں قابو پانے کے تین سماجی رویوں اور طریق کار کی نشاندہی کرتا ہے۔
1۔ مذہبی تعلیمات کا مکمل احترام کرتے (بمطابق اسلام شرعی اصولوں کی پابندی) یعنی اسقاط حمل کے گناہ سے محفوظ رہتے ہوئے ضبط تولید کے انسان کے وضع کردہ طریق ’’ترقیاتی ابلاغ‘‘ کی زبان میں اختراعات کی زیادہ سے زیادہ اختیاریت، کئی اسلامی ممالک، دنیائے عیسائیت اور دوسرے مذاہب کے مذہبی اذہان کے جوڑوں نے اسی اپروچ کو اختیار کرکے سماجی طور پر قابل قبول اور مذہبی تعلیمات سے متصادم ہوئے بغیر مطلوب خاندانی منصوبہ کو ممکن بنا کر مسئلہ حل کیا۔
2۔ عیسائی اکثریت کے حامل مغرب میں اور کئی دوسرے مذہبی معاشروں میں بھی خصوصاً جہاں سیکولرازم کا غلبہ ہے، جوڑوں نے مذہبی تعلیمات سے لاپروا ہو کر اسقاط حمل کو ہی کنبہ بندی کا ذریعہ بنایا اور آبادی میں اضافے کو روکے رکھا، لیکن یہ خود ان ہی کے معاشرے میں متنازع رہا۔ فقط مذہب کی روشنی میں بھی نہیں ’’اسقاط حمل‘‘ کی مذمت (سیکولر معاشروں میں بھی) خلاف انسانیت قرار دیکر کی جاتی ہے۔ امریکہ کے الیکشن 1980میں ’’اسقاط حمل‘‘ پر قانونی پابندی لینڈ سلائڈ وکٹری حاصل کرنے والے صدر رونالڈ ریگن کی انتخابی مہم کے منشور کا اہم نکتہ تھی۔
3۔ ریاستی انتظام میں حکومتی رٹ کے ذریعے بذریعہ اتھارٹی آبادی پر قابو پانے کا تجربہ فقط دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین میں کامیاب ہوا جہاں گزشتہ 30 سال سے جوڑوں پر ایک سے زیادہ بچہ (لڑکا خواہ لڑکی) پیدا نہ کرنے کی قانوناً پابندی رہی۔ خلاف ورزی پر جرمانوں اور فراہمی ملازمت اور سرکاری سہولتوں میں کمی کی سزائیں دی جاتیں۔ تاہم اب چین کی بے پناہ خوشحالی میں اب اس قانون میں لچک پیدا کی گئی۔ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اندرا گاندھی نے اپنی حکومت میں جبراً نس بندی کا قانون منظور کرا کر نافذ کرنے کی کوشش کی تو فائر بیک ہوا اور اتنا شدید ردعمل ہوا کہ جمہوریت ہی خطرے میں پڑ گی۔ سو ریاستی طاقت سے ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ کرانے کا تجربہ چین سے آگے نہ بڑھ سکا لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ چین آبادی کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے متعلقہ ترقیاتی اداروں خصوصاً یو این ڈی پی اور یو این ایف پی نیز ترقی یافتہ ممالک کے بڑے بڑے غیر سرکاری چینج ایجنٹ نے اپنا زور دنیا کی بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے لیے قابل قبول اختراعات اور ان کے ابلاغ عام پر رکھا لیکن یہ عالمی تجربہ ترقی پذیر دنیا خصوصاً پاکستان، بھارت، انڈونیشیا، برازیل، ارجنٹائن، مصر، نائیجیریا، تھائی لینڈ اور ان ہی جیسے سماجی رویوں کے حامل گنجان آباد ممالک میں بری طرح ناکام رہا۔ تاہم 90کی دہائی میں انہی ممالک نے اولالذکر انہیں اختیار کرکے (بذریعہ بین الاقوامی و ریاستی معاونت) مسئلے پر کافی حد تک قابو پالیا۔
پاکستان، نائیجیریا (اور کسی حد تک انڈیا) بھی زیادہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ایک بڑی وجہ دنیا میں عام اختیار اور قابل قبول ہو جانے والے طریقوں کو بھی مذہب سے متصادم سمجھا گیا یا جوڑوں کے عمل تولید میں اختیار کئے گئے رویوں کو تبدیل کرنے والا مسلسل اور جارح نوعیت کا ابلاغ بری طرح ناکام ہوا۔ پاکستان کا کیس بھی یہی ہے لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ ملک کے متعلقہ گھرانوں (جوڑوں) میں مطلوب اختراعات سے آگاہی کی شرح 90فیصد سے بھی زیادہ ہے لیکن اختیاریت کی شرح اس کے مقابل کم تر، بڑی وجہ فقط میڈیا سے ہی ہونے والی ابلاغ مہمات تھیں جو خود ’’ترقیاتی ابلاغ‘‘ کے اصولوں کو نظرانداز کرکے تیار کی گئی تھیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ کہ 1960کی دہائی سے 1990تک آبادی میں سالانہ اوسط اضافہ 3.1اور 3.2فیصد کے درمیان ہی رہا یعنی اربوں روپے کی ابلاغی مہمات کا حاصل زیرو، نعرہ لگتا رہا ’’دو بچے خوشحال گھرانہ‘‘ سماجی پسماندگی کے مارے گھرانوں کی خوشحالی کا تصور اچھی تعلیم، صحت اور شاد چہروں سے وابستہ نہیں تھا ان کے خوشحال گھرانے کا زاویہ نگاہ پررونق گھرانے سے وابستہ پھر اس کے استحکام کے لیے نر بچوں کی زیادہ تعداد گویا ان کے نزدیک ’’دو بچے‘‘ سنسان گھرانہ تھا۔ جسے ہم خوشحال بتاتے و سمجھاتے رہے۔ ضرورت تھی کہ پہلے ان کی ’’خوشحالی‘‘ کا تصور درست کیا جاتا جن پر ان مہمات کا کوئی اثر نہیں ہوا کتنے ہی ڈیزاسٹر ہوئے ایک بڑا ذریعہ ابلاغ صرف میڈیا جو مکمل ون وے تھا، ٹارگٹ آرڈینس (جوڑوں) کے اذہان میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب کون دیتا؟ یہی وجہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں گھر گھر جاکر ٹرینڈ لیڈیز کے متعلقہ خاتون تک میچ (لیڈی ہیلتھ وزیٹنگ سسٹم) پہلی مرتبہ کامیاب ہوا یعنی میڈیا کے مقابل ٹو وے انٹر پرسنل کمیونیکیشن سسٹم جس میں 1998 تک اضافے میں عشاریہ 6 یا7 فیصد کی کمی آئی جو بڑی انقلابی تبدیلی تھی لیکن یہ سارا سسٹم سیاست زدہ ہو گیا۔ سو کامیابی 2.4 فیصد پر اٹک گئی جو 60سے 1990 سے شروع ہونے تک 3.1 اور 3.2 فیصد کے درمیان رہ کر صفر نتیجہ دے رہی تھی۔ واضح رہے کہ اس بھرتیوں اور انٹرپرسنل نظام کو حکومتوں کی طرف سے مسلسل نظرانداز کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ گزشتہ سال لیڈی ہیلتھ وزیٹرز سڑکوں پر تھیں، لاٹھی چارج، مارپیٹ، مطالبے، تنخواہ، ترقیوں کے رونے دھونے نے کامیاب چلتے سسٹم کو برباد کر دیا۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ