مافیا اور پاکستان
معصوم رضوی
ماریو پوزو کا ناول گاڈ فادر کسی نے نہ بھی پڑھا ہو تو فلم ضرور دیکھی ہو گی، ناول 1969 میں آیا جس پر فرانسس کپولا نے 1972 میں فلم بنائی بعد میں گاڈ فادر ٹو اور تھری بھی بنائی گئیں۔ ناول بھی لاجواب ہے اور تینوں فلمیں کلاسک شمار ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود لاتعداد لوگ اس بارے میں نہیں جانتے تھے مگر سپریم کورٹ کی جانب سے سسیلین مافیا کی اصطلاح کیا استعمال ہوئی سب جان گئے کیونکہ پاکستانی مافیاز کو بھگتتے رہتے ہیں۔ خیر یہ کم لوگ جانتے ہیں کہ گاڈ فادر کا کردار ماریو پوزو کی تخلیق نہیں بلکہ جیتا جاگتا شخص تھا، سسلی مافیا کا پراسرار سربراہ برنارڈو پرووینزانو، اسکول کی عمر سے مجرم اور سفاک قاتل بن گیا تھا پھر بدنام زمانہ مافیا کا پراسرار خالق بنا، 2006 میں 73 سال کی عمر میں پہلی بار پکڑا گیا اور دس سال بعد قید میں مرا۔
سسلی کی مافیا صرف اٹلی تک محدود نہ تھی بلکہ منظم جرائم کا نیٹ ورک یورپ اور امریکہ تک پھیلا ہوا تھا۔ برنارڈو اتنا پراسرار تھا کہ کوئی شکل سے نہ جانتا تھا اور نہ ہی وہ فون استعمال کرتا تھا۔ تمام احکامات پرچیوں خفیہ زبان میں لکھے جاتے تھے جنہیں Pizzini Code کے نام سے جانا جاتا تھا۔ برنارڈو نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ چونکہ ہر پروفیشن کی ایک یونین ہوتی تھی لہذا اس نے پیشہ ور مجرموں کی تنظیم تشکیل دی تاکہ انکے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ برنارڈو نے دنیا بھر کے بہترین جرائم پیشہ مجرمان کو نہ صرف منظم کیا بلکہ انکی پیشہ ورانہ تربیت کا بھی اہتمام کیا۔ مافیا نےعرصہ دراز تک دنیا بھر میں تہلکہ مچائے رکھا، یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ مافیا تحت اسپتال اور خیراتی ادارے بھی قائم کیے گئے تھے۔
آپ بھی سوچتے ہونگے کہاں ماضی کی فلموں کے قصے لیکر بیٹھ گیا، ایسا نہیں ہے جناب ذرا اپنے اطراف نظر ڈالیں، آپ کو لاتعداد پروفیشنل اور نان پروفیشنل مافیاز نظر آئینگیں، ذرا اور قریب جائینگے تو گاڈ فادرز بھی نظر آنے شروع ہو جائینگے۔ ابھی چند روز پہلے جج سے بدتیمزی کیس کا فیصلہ آیا، ملتان بار کے صدر کو سزا دی گئی، بس جناب قانون کے علمبرداروں نے لاہور ہائیکورٹ اور مال روڈ پر ایسا ادھم مچایا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ کالے کوٹ پہنے تعلیم یافتہ پیشہ ور وکلا ججز گیٹ کو توڑتے رہے، پتھراؤ کرتے رہے، ٹائر جلا کر ٹریفک بند کرتے رہے، وہ تو اچھا ہے انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی ہے ورنہ بیچاری کیا کر گزرتی۔ آئے دن ینگ ڈاکٹرز بھی یہی کچھ کرتے رہتے ہیں، اب ذرا اور پیچھے چلیں، احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر الٹا، آگ لگی اور جیتے جاگتے دو سو سے زائد افراد موت کی وادی میں پہنچ گئے۔ اوگرا بلیک میلرز سے مذاکرات کرتی ہے، نہ صرف مطالبات مانے جاتے ہیں بلکہ سیکورٹی اقدامات کرنے کے لیے مزید ایک سال کی مہلت بھی دیدی جاتی ہے، گویا اندھادھند ٹینکرز پورے ایک سال عوام کی زندگیوں سے کھیلتے رہینگے، آگے پھر ہڑتال اور پھر مہلت مل جائیگی۔ سوال یہ ہے کہ اوگرا ایک ریگولیٹر ہے اسے کیا ضرورت کہ ٹینکرز مافیا سے مذاکرات کرے، یہ ذمہ داری تو آئل کمپنیز کی ہونی چاہیے مگر اوگرا کا کہنا ہے کہ ٹینکرز مالکان کی بلیک میلنگ کے پیچھے آئل کمپنیز ہیں، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سرکاری اداروں کی رٹ کا کیا حال ہے۔
الحمداللہ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ پرائیوٹ اسکولز، ٹرانسپورٹرز، فلور مل مالکان، شوگر، گھی، تیل ملز، قصائی، دودھ فروش، پھلوں اور سبزیوں کے سوداگر، سب مافیا کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا، ہوٹل، ریسٹورنٹس خراب اور مضر صحت اشیا کھلا کر پیسے بنا رہے ہیں۔ منرل واٹر، جوسز اور دودھ بنانیوالی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ صاف کر رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 66 منرل واٹرز میں سے 19 کا پانی مضر صحت ہے، پنجاب فوڈ اٹھارتی کے مطابق گھی اور تیل کے معروف برانڈز کے 151 نمونوں میں 45 مضر صحت ہیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے، شاندار ہوٹلز، ممتاز ریسٹورنٹس، مٹھائی، بیکریز حتیٰ کہ بچوں کے لیے ٹافیاں، چپس اور دیگر اشیا خطرناک حد تک غیر معیاری اور مضر صحت ہیں مگر سب کی اپنی اپنی مافیا اور گاڈ فادر ہے، حتیٰ کہ سرکاری ادارے بھی مبرا نہیں۔ حکومت کے پاس فرصت کہاں جو عوام کو بے رحم قصائیوں سے بچائے۔
فرانسس کپولا نے فلم گاڈ فادر میں ڈان ویٹو کارلیانو کی بیٹی کی شادی کی شاندار تقریب دکھائی ہے، جس میں سیاستدان، بیوروکریٹس، عدلیہ، میڈیا، تاجر، فنکار سمیت معاشرے کے ممتاز ترین افراد شریک ہیں۔ اس منظر کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ مافیا کی جڑیں ریاست کے تمام اداروں، محکموں اور طبقات تک پھیلی ہوئی ہیں۔ گاڈ فادر تھری کا ایک خاص ڈائیلاگ کا ذکر کرنا چاہونگا، گاڈ فادر ویٹو کارلیون سینیٹر لوحیسی سے کہتا ہے تم لوگوں کے پاس سیاست ہے، دولت ہے جسکے بارے میں مجھے کچہ پتہ نہیں، لوحیسی جواب میں کہتا ہے تمہارے پاس بندوق ہے جو اصل دولت ہے، سیاست تو اس ہنر کا نام ہے کہ بندوق کا ٹریگر کب دبایا جائے۔ تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاست اور جرم کا ساتھ دیرینہ ہے، پاکستان میں بھی اگر غور سے دیکھیں تو بڑے بڑے پراسرار کردار نظر آئینگے، مشکوک اور مشتبہ، مگر کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی ہاتھ انہیں صاف بچا لیتا ہے۔
فلم اپنی جگہ مگر جناب یہ حقیقت ہے کہ مافیاز اور گاڈ فادرز کا سیاست سے دیرینہ رشتہ ہے، پاکستان میں تو بعض اوقات دونوں کردار ایک ہی شخص بھی ادا کرتا ہے۔ خیر اب ذرا ماضی اور حال کا جائزہ لیجیے نجانے کتنے نام اور واقعات ذھن میں اترتے چلے آئینگے۔ لیاری گینگ وار کے عزیر بلوچ کے قصے اور سیاستدانوں سے روابط، جنوبی پنجاب میں چھوٹو گینگ کے خاتمے کیساتھ بھی بڑے دعوے، مگر سب کچھ پراسرار دھند کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ ذرا اندرون سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں پر نظر ڈالیں، اغوا برائے تاوان، اسمگلنگ، بھتہ اور دہشتگردی کے بڑے بڑے گاڈ فادر اور انکے سہولت کار بھرے پڑے ہیں۔ بیچاری حکومت منافقانہ دعووں کے سوا کوئی اختیار نہیں رکھتی کیونکہ ہر مافیا کی پشت پر گاڈ فادر اور سیاست کو مضبوط گٹھ جوڑ موجود ہوتا ہے۔ مافیا جتنی پروفیشنل ہو اتنا ہی جرم کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے، لیاقت علی خان، مرتضیٰ اور بینظیر بھٹو کے قتل، اوجڑی کیمپ، پشاور کا آرمی پبلک اسکول، حقیقت کیا تھی، ذمہ دار کون تھا، کسی کو پتہ نہیں، یہ صرف چند مثالیں ہیں، مافیا کی گہری دھند اور گاڈ فادرز کا اثرورسوخ تمام ثبوتوں کا کھا جاتا ہے۔
طبقاتی کشمکش سے دوچار پاکستانی معاشرے میں وہائٹ کالر کرائم کو پکڑنا مشکل کام ہے۔ جب سرکاری اداروں کا ریکارڈ بھی مشکوک ہو تو یہ معاملہ سنگین تر ہو جاتا ہے۔ خیر شہری چاہیں تو حکومت اور اداروں کا گریبان پکڑ سکتے ہیں، چلیں چھوڑیں اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ اپنے بچوں کو مضر صحت برانڈز سے بچائیں، ہوشربا اسکول فیسوں کے خلاف آواز اٹھائیں، ہفتے بھر گوشت اور پھل نہ کھائیں، عوام چاہیں تو مافیاز کو شکست دی جا سکتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر ذمہ داری دوسروں پر ڈالکر بے حسی کی دلدل میں غرق ہو جاتے ہیں۔ بھیا ظالم کو پکڑ نہیں سکتے تو ظلم کے خلاف آواز تو اٹھا سکتے ہیں نا، پھر دیکھیں مافیا ہو یا ملٹی نیشنل، ادارے ہو یا حکومت، سب کو سر جھکانا پڑے گا مگرجانے یہ کب ہو گا، اے بسا آرزو کہ خاک شدہ