فراریت پر مبنی رویے
شبنم گل
زندگی کے کئی روپ ہیں۔ یہ روپ انسان کو وقت اور حالات کے تحت بدلنے پڑجاتے ہیں۔ معاشرے کی طرف دیکھیے تو ہر سمت نقاب در نقاب چہرے اداکاری کرتے نظر آئیں گے۔ وقت کے ساتھ انسان ضرورت کے مطابق موقع پرستی کا نقاب چہرے پر سجا لیتا ہے۔ یہ ڈرامے باز اور جذباتی گروہ جابجا معاشرے میں بکھرے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ ضرورتاً تو کہیں لاشعوری طور پر یہ اداکار غیر سماجی یا مبالغہ آمیزی پر مبنی رویے اپنا لیتے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ ڈرامائی رویے ذہنی بیماریوں کو ظاہر کرتے ہیں جن میں Border Line Personality (حاشیائی شخصیت) ہسٹریا، نرگسیت، سماج دشمن رویے، جذباتی بے حسی اور خبطی و اجباری شخصیت وغیرہ شامل ہیں۔
روپ بدلنے کے حوالے سے ہسٹریا، دلچسپ بیماری ہے۔ ایک لحاظ سے اس بیماری کے اسباب میں ذہنی و جسمانی پیچیدگی اور توہم پرستی شامل ہیں۔ ہسٹریا یونانی زبان کا لفظ ہے۔ جس کا مطلب Uterus (رحم) ہے۔ جسے یونانی Uterine Melancholy یعنی رحم کی اداسی۔ یہ قدیم مفکر کہتے تھے کہ ہر عورت نوجوانی میں جنسی تجربے اور بچے کی پیدائش کے مرحلے سے گزرتی ہے۔ ان مراحل سے گزر کر اسے ذہنی و جسمانی سکون ملتا ہے۔ لہٰذا Birth Cycle (پیدائش کا نظام) عورت کے لیے اہم قرار دیا گیا۔ لیکن کسی رکاوٹ کے باعث جب وہ محروم رہ جاتی ہے تو اس کی ذہنی حالت بگڑ جاتی ہے۔ اور دورے پڑنے لگتے ہیں۔ افلاطون کے مطابق فطری تعلق اور اولاد کی نعمت سے محروم رہ کے عورت اداس و بدقسمت کہلانے لگتی ہے۔
ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق ’’یہ بیماری عورتوں کو جنسی خواہش کو دبانے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے، جب کہ ڈاکٹر الفرڈ ایڈلر فرائڈ کے خیال کو رد کرتے ہوئے، احساس کمتری کو بیماری کا اصل سبب قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ قدیم معاشرے عورت کے جائز حقوق کو پامال کرتے رہے۔ اسے زندگی کے معاملات میں انتخاب کے حق سے محروم رکھا جاتا۔ اس کے فطری جذبوں کا مذاق اڑایا جاتا۔ فطری خواب یا خواہشیں عورت کے لیے پھانسی کا پھندا بنا دی جاتیں۔ ان رویوں نے ہم جنس پرستی کی بنیاد ڈالی۔ آج بھی معاشرہ دہرے معیار کا شکار ہے۔ لہٰذا جو رویے و رجحان مردوں کے لیے اچھے سمجھے جاتے ہیں، وہ عورتوں کے لیے گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ جیسے پسند کی شادی عورت کے لیے گناہ سمجھی جاتی ہے یا عورت کے لیے Extra Marital Relationship (شادی سے ماورا محبت ممنوع) قرار دیے جاتے ہیں۔
جس کی وجہ سے Honour Killing (کاروکاری) کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ شادی کے بعد عورت کے بھٹکنے کی وجوہات کی جڑیں، معاشرتی مسائل میں پیوستہ ہیں۔ بھائی اور باپ کی محبت کی کمی اور اس کے بعد شوہر کی بے توجہی، عورت کو کوئی پناہ لینے کے لیے اکساتے ہیں۔ ایسے واقعات میں کہیں نہ کہیں عورت کی احساس محرومی یا توقیر ذات کی کمی کے اسباب پائے جاتے ہیں۔ بچپن میں لڑکی پر پابندیاں اور بے جا روک ٹوک اسے لاشعوری طور پر جنس کی طرف راغب کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ بہت ایڈوانس ہوچکا ہے مگر والدین بچیوں سے جنس کے موضوع پر بات کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔ ابہام، برائی کا محرک بنتا ہے۔ پابندیوں سے بدی کو تحرک ملتا ہے۔ آپ جو چیز شدت سے دباتے ہیں وہ اسی تیزی سے ذہن پر حاوی ہوجاتی ہے۔
ہسٹریا کی مختلف قسمیں ہیں۔ تحویلی ہسٹریا میں مریض جسمانی یا حسی نقص کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مگر طبعی طور پر عضویاتی یا کیمیائی نقص ظاہر نہیں ہوتا۔ سردی یا گرمی کا احساس نہیں ہوتا۔ نظر میں نقص یا آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جانا، بد دلی، جھٹکے لگنا، زبان میں لکنت، گلا بند ہونا یا زیادہ پسینہ آنا وغیرہ عام علامات ہیں۔ افتراقی ہسٹریا میں شعور اور یادداشت کی خرابیاں شامل ہیں ۔ بھولنے یا خود فراموشی کی کیفیت کا طاری ہونا، حقیقت پسندی سے فراریت حاصل کرنے کی کوشش کرنا عام علامات ہیں۔ اس علامت میں ہسٹریا کا شکار مختلف روپ اختیار کرتے ہیں۔ کبی ایک روپ اوڑھ لیتے ہیں تو کبھی دوسرا کردار نبھانے لگتے ہیں۔ مریض کے یہ رویے لاشعوری ہوتے ہیں۔ یعنی وہ خود اپنی کیفیت یا عمل سے آگاہ نہیں ہوتا۔ مریض کے مختلف روپ اختیار کرنے کی کیفیت کو Mutiple Personality Disorder (کثیر رخی شخصیت کا بحران) کہا جاتا ہے۔
ہالی ووڈ کی کئی فلمیں اس موضوع پر بن چکی ہیں۔ جن میں Hight Tension، Identity، Shulter Island ، Fight Club اور A tale of two sisters وغیرہ شامل ہیں۔ بہرکیف ان فلموں میں بیماری کا صحیح رخ دکھانے کے بجائے، اسے غیر حقیقی طوالت کا شکار بنادیا جاتا ہے۔
ہسٹریا ایک ایسی بیماری ہے، جس میں مریضوں کو دورے پڑتے ہیں۔ اس دوران وہ دانت پیستے یا گہری سانسیں لیتے ہیں۔ کبھی ہنستے یا کبھی روتے دکھائی دیں گے۔ آنکھیں کھلی ہوں گی اور آنکھ کے پتلی حرکت کرتی رہے گی۔ علاوہ ازیں بے ربط گفتگو، سانس کی گھٹن اور پیٹ میں گولہ اٹھتے محسوس کرتے ہیں۔ اس بیماری کا شکار خواتین جنس، محبت و عشق جیسے موضوعات میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔ محبت میں ناکامی کے بعد یہ بیماری شدت سے حملہ ور ہوتی ہے۔
سندھ اور بلوچستان میں ہسٹریا کی مریض عورتوں کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ انھیں آسیب زدہ قرار دے کر، انھیں مزاروں پر لایا جاتا ہے۔ یا پیروں فقیروں سے علاج کو موثر سمجھا جاتا ہے۔ سندھ میں کئی مزار ہیں، جہاں ایسے مریض لائے جاتے ہیں جن میں شاہ عقیق، گاجی شاہ اور قلندر کے مزار وغیرہ شامل ہیں۔ خاص طور پر گاجی شاہ جوہی میں واقع اس مزار پر ہسٹریا کی متاثرین عورتوں کو لایا جاتا ہے اور کمرے میں بند کر کے پیر ان کا علاج کرتے ہیں۔ اس حوالے سے متنازعہ خبریں گردش کرتی ہیں۔
یہ خبریں کس قدر صداقت پر مبنی ہیں، یہ ایک تحقیق طلب معاملہ ہے۔ ڈاکٹر اکثر اس مرض میں مبتلا عورتوں کے لیے شادی کا علاج تجویز کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان جنسی خواہشات کو واضح حل فقط ذہنی و جسمانی رابطے اور تحفظ سے مل سکتا ہے۔ محبت سے بڑھ کر کوئی اور موثر دوا نہیں ہوسکتی۔
عورتوں کا وقت پر شادی نہ ہونا، معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ ہسٹریا میں مبتلا کئی عورتیں غلط راستوں پر سفر کرتے ہوئے ذہنی و جسمانی بیماریوں کا حل ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ لیکن معاشرہ ان کی ذہنی و جسمانی ضرورتوں کو برائی سمجھ کر دھتکار دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ شادی فقط جسمانی تعلق کا نام نہیں ہے بلکہ ذہنی و روحانی معاہدہ بھی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں شادی کا ذہنی و روحانی پہلو مستقل نظرانداز ہو رہا ہے۔ مرد اپنے نام پر ایک عورت کو گھر میں محصور کرکے باہر من مانیاں کرتے ہیں اور گھر میں بیٹھی ہوئی دھتکاری ہوئی عورت ہسٹریا یا مختلف ذہنی امراض کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس کشمکش میں بچے اخلاقی پسماندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بشکریہ: ایکسپریس اردو