اسلام آباد میں جو ٹی ہاؤس نہیں تھا تو قائم مقام کون تھا؟
کشور ناہید
عید کے تیسرے دن، ہم دوست اکٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ایک میسج نے ہم سب کو چونکا دیا۔ مسٹر بکس کا مالک بہت اچھا ادب دوست اور کتابوں کو اسلام آباد جیسے شہر میں پھیلانے والا ایک وہ تھا اور ایک سعید بک بنک والے سعید صاحب۔ دونوں ہی چلے گئے۔ ہم لوگ جب شام کو مسٹر بکس پر جاتے تو وہاں کئی ڈپلومیٹس، کئی افسر، کئی صحافی اور کئی سیاست دان مل جاتے گھنٹوں ہم کھڑے کھڑے باتیں کرتے سارے ہی موضوعات زیر بحث آتے، یوسف بھی ہمارے ساتھ شریک ہوتا اور ہم واپسی پہ خوش ہوتے کہ چلو یہاں ٹی ہاؤس نہیں ہے۔ البتہ مسٹر بکس پر بہت لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔
یوسف کو حد سے زیادہ بڑھی ہوئی شوگر تھی۔ اس کے باعث آنکھوں کی بینائی بھی بہت حد تک ختم ہوگئی تھی۔ شوگر ہی کے باعث اس کے دونوں پاؤں آدھے کاٹے جاچکے تھے۔ ان تمام بیماریوں کے باوجود وہ دوسری کتابوں کی دکان میں، مجھ سے بار بار کہتا کہ ادیبوں کے لیے ایک ٹی ہاؤس بناؤں گا، اسے آپ خود کنٹرول کریں گی۔ یہی حال سعید صاحب کا تھا۔ دنیا بھر کی کتابیں منگوانے اور ڈسپلے کرنے کا شوق تھا۔
کتابوں کی دکانیں، مقتدرہ اور اکیڈمی نے بنائی ہوئی ہیں۔ ان میں زیادہ تر ان کی ہی شائع شدہ کتب مل جاتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا ٹی ہاؤس اکیڈمی نے بھی بنایا ہوا ہے۔ وہاں مختلف ادارے جیسے حلقہ ارباب ذوق ہفتہ وار میٹنگ کرتے ہیں۔ اس طرح اکیڈمی کی طرف پندرہ دن بعد ایک ادیب سے ملاقات کا اہتمام ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بُگھیو کی دلچسپی اکیڈمی کی کتابیں شائع کرنے میں بھی بہت ہے۔ صرف میرے جیسے بڈھوں کا مسئلہ ہے کہ اتنی دور تک گاڑی چلائی نہیں جاتی۔
بار بار رضا ربانی کہہ رہےہیں کہ طالب علموں اور دانشوروں کے بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ ہونی چاہیے۔ وہ شاید لاہور کے ٹی ہاؤس کو بھول گئے ہیں کہ جہاں ضیا الحق کے زمانے میں ادیب کم اور ایجنسیوں کے لوگ بڑھتے گئے۔ اسلام آباد میں بھی جس موضوع پر بھی ادیبوں کی نشست ہوتی ہے، تین چار ایجنسیوں کے لوگ ضرور آتے ہیں۔ پتہ نہیں کس نے ان کو سکھایا ہے کہ ادیب حکومت کے خلاف بات کرتے ہیں۔
ادیب اکھٹے ہوتے ہیں تو ادیب کے علاوہ ملکی معاملات پر بھی بات کرتے ہیں۔ یہ سن کر غصہ چڑھتا ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گرد نہیں ہیں۔ جبکہ جماعت الدعو ۃ نے تو الیکشن لڑنے کے لیے سیاسی پارٹی بھی بنائی ہے۔ لشکر طیبہ اور پھر سب سے بڑھ کر تدریسی اداروں میں داعش کا زور بڑھ رہا ہے۔ اگر ان باتوں کا تجزیہ کرو تو ایجنسیوں کے لوگ حکومت کو خبر دیتے ہیں کہ یہ لوگ محب وطن نہیں ہیں۔ وہ باتیں جو ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر چھابڑی والا تک جانتا ہے، ہمارا میڈیا اور اخبارات تک اس کو جھٹلاتے رہتے ہیں۔ ایک زمانے تک چوہدری نثار کہتے رہے، پاکستان میں داعش کا کوئی رکن نہیں۔ جب لڑکوں کے علاوہ پڑھی لکھی لڑکیاں بھی شام جاکر تربیت حاصل کرکے واپس ملک میں غارت گری کرنے لگیں تو پھر ذرا زبان کھلی۔
کتاب دوستی تو ہمارے ملک کے پروفیسروں اور بڑی تنخواہوں پر کام کرنے والے نوجوانوں میں بھی نہیں۔ سیدھا جواب ملتا ہے۔ کیا کریں وقت ہی نہیں ملتا۔ کتاب سے محبت پیدا کرنے کے لیے بک فاؤنڈیشن بھی بہت کام کررہی ہے۔مگر جب لاہور جاتے ہوئے، بس اسٹیشن پر اتر کر چائے پیتے ہوئے، کتابوں کی جانب جاتی ہوں تو سنجیدہ فکشن یا ناول کم ہی نظر آتے ہیں۔ وظیفوں اور اسلامی تاریخ کی کتابیں زیادہ نظر آتی ہیں۔ اس طرح مسٹر بکس اور سعید بک بنک میں بھی ہدایت نامہ شوہر قسم کی کتابیں اولین صف میں دکھائی دیتی ہیں۔ یوگا اور کھانا پکانے کی ترکیبوں والی کتابیں بہت فروخت ہوتی ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنجیدہ کتابیں کیسے پڑھی جائیں اور کون پڑھائے۔ ہم جب کالج میں تھے تو ہمارے استاد، نئی کتاب پڑھنے کے بارے میں پوچھتے تھے۔ جن لوگوں نے نہیں پڑھی ہوتی تھی تو ان کو کتاب دی جاتی اور اس پر باقاعدہ بحث ہوتی۔ اس کا باقاعدہ ایک گھنٹہ مقرر ہوتا تھا۔ اب تو بچوں اور استادوں کو صرف کورس پڑھانے کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ یوں استاد بھی خوش اور شاگرد بھی ۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں اقبال سوسائٹی، انگلش سوسائٹی کی طرح ینگ سیکرز یونین الگ ہوتی تھیں۔ کنیرڈ کالج میں بھی سالانہ ڈرامہ ہوتا تھا۔ باقاعدہ یو۔این۔او کے سیشن منعقد کیے جاتے ہیں جس میں سب ملکوں کے نمائندے بن کر ہم لوگ بحث کرتے ۔ استاد ہمارے ایسے سیشن کے لیے بھی نمبر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں سالانہ مشاعرہ، ایکٹینشن لیکچر کے لیے باقاعدہ باہر سے ماہرین بلائے جاتے تھے۔ اب تو نہ چاک گریبان والے نظر آتے ہیں اور نہ وہ مجنوں جو کوئلوں سے دیواروں پر شعر لکھتے تھے۔ اب تو فیس بک پر بے ہودہ زبان اور کم عقلی کا مظاہرہ، سیاست اور مذہب کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ ہمیں کسی موضوع کی وضاحت چاہیے تو گُوگل اور یو ٹیوب پر تلاش کرتے ہیں۔ آج کل کے نوجوان یو ٹیوب پر فلمیں دیکھتے ہیں۔ بزرگ اور جوان عورتوں کو پہلے تو پوچھ لیتے تھے۔ آپ کے پاس وقت ہے، میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ اب تو شتر بے مہار کی طرح لڑکیاں اور لڑکے دوستی کے اس غار میں گر جاتے ہیں ، جہاں سے واپسی صرف کتاب دے سکتی ہے!
یہ مضمون روزنامہ جنگ پر بعنوان، مسٹر بکس والا یوسف، کتاب دوست چلا گیا شائع ہوا۔