چچا گوئبلز کا بیانیہ
معصوم رضوی
آج کل بیانیہ عروج پر ہے، پچھلے دنوں وزیر دفاع خواجہ آصف کی تقریر سنی وہ بھی بتا رہے تھے کہ دنیا اور خطے کے حالات تبدیل ہو گئے، پاکستان دنیا کو اپنے بیانیے سے آگاہ کریگا۔ تقریر میں بار بار بیانیے کی گردان سنکر بیوی نے پوچھا یہ کس بیانیے کا ذکر کر رہے ہیں تو میں نے کہا بس یہی طے ہونا باقی ہے، اب آپ سے کیا چھپانا اس کے بعد بیوی نے فطری عقیدے کے تحت فوری طور پر مجھے جاہل اور بیوقوف قرار دیدیا۔ آپ بھی ان القابات سے نواز سکتے ہیں مگر ایک بار یہ ضرور سوچیں کہ پینسٹھ سالوں بعد اصولی موقف کو بالجبربیانیے کا پائجامہ تو پہنا دیا گیا مگر بدلا کچھ نہیں، اصولی موقف اگر لفظوں کی تصویرکشی تھی تو بیانیہ اسکی تجریدی شکل ہے، گویا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا۔ چچا گوئبلز بھی فخر کرتے ہونگے بیانیے کی تخلیق پر کہ انکے نظریاتی فلسفے کو دنیا نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے سارے بیانیے حقیقت سے نظر چراتے ہیں مگر ہمارا بیانیہ تو سختی سے آنکھیں بھینچ لیتا ہے کہ کہیں کسی مہین جھری سے بھی حقیقت منتظر لباس مجاز میں سامنے نہ آ جائے۔
چچا گوئبلز سے تعارف تو بعد میں بہلے کچھ بیانیے کا بیاں ہو جائے۔ بیانیہ دراصل عوام کے لاشعور کو دھوکہ دینے کی شعوری کوشش کا نام ہے۔ ایک ہی بات کو بار بار دھرا کر عوام کے لاشعور میں فیڈ کر دیا جاتا ہے۔ اسی ہتھیار سے تاریخ کو لباس فاخرہ سے نوازا جاتا ہے، حال کو بے ستر اور مستقبل کے بازار میں عوام کی ننگی بھوکی قسمتوں کے سودے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو اتفاق نہ ہو تو ٹرین کا سفر کریں، سفر ختم ہونے کے بعد بھی چند گھنٹوں آپ ریل گاڑی کی گونجتی آواز کیساتھ خود کو جھولتا محسوس کرتے ہیں، صوت و حرکت کا یہ تال میل شعور کے تحت نہیں بلکہ لاشعور کا حصہ ہوتا ہے۔ تو جناب آج کل پاکستان میں بیانیے کا راج ہے، کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا، بیانیے کے ایسے ایسے معجزات سامنے آ رہے ہیں کہ عالم برزخ میں چچا گوئبلز پھولوں نہیں سماتے ہونگے۔ گوئبلز کون؟ سرکار جوزف گوئبلز، جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر کا وزیر اطلاعات، جدید فلسفہ پروپیگنڈا کا بانی، فلسفے سے میری مراد یہ ہے کہ پروپیگنڈا تو شاید دور اولین سے انسان کا ساتھی رہا ہو مگر گوئبلز نے اسے نظریہ اور سائنس بنا دیا۔ گوئبلز نے جھوٹ کو سچ بنانے کو فن کا درجہ دیا یعنی مطلوبہ نکات کو آسان الفاظ میں اتنا دھرایا جائے کہ وہ انمٹ سچ اور اٹل حقیقت بن جائے۔ پروپیگنڈے میں دیر ہضم کڑوے سچ کے بجائے زود ہضم میٹھے جھوٹ کے ذریعے عوامی مقبولیت حاصل کی جاتی ہے۔ گوئبلز کے فلسفے کے تحت شعور کو بائی پاس کر کے لاشعور کو ہدف بنایا جاتا ہے تاکہ شعور کے بے تکے سوالات سے بچا جا سکے۔ ازل سے نجانے کتنے چانکیہ اور میکاولی گزرے ہونگے مگر فلسفہ پروپیگنڈا میں چچا گوئبلز کے ہم پلہ شاید ہی کوئی ہو۔
خیر آتے ہیں پاکستان کی جانب، مدرسوں کی بات پرانی ہو چکی، اب ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں کے بچے بھی اب انتہاپسندی کے کینسر سے محفوظ نہیں رہے۔ مگر ہمارا بیانیہ یہی ہے کہ کہ انتہاپسندی اور فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا، دہشتگردوں کی کمر توڑ دی گئی۔ بسا اوقات ایک معاملے پر متعدد بیانیے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ انتہاپسندی، دہشتگردی، لاپتہ افراد، حکومت کا بیانیہ الگ تو مذھبی قیادت کا الگ، عسکری حکام کا بیانیہ الگ تو سول سوسائٹی کا الگ، سب متضاد مگر حیرت انگیز طور پر ایک پیج پر ہوتے ہیں، ایک بیانیہ ٹی وی اینکرز کا بھی ہوتا ہے مگر میں الہامی بقراطیات کو لفظوں کا جامہ پہنانے سے عاجز ہوں۔ اب رہ گئے عوام تو انکا بیانیہ نہیں بلکہ بین ہوتے ہیں جو کوئی کبھی سنتا نہیں ہے۔ ذرا مختلف بیانیوں کا جائزہ تو لیجیے، پینسٹھ کی جنگ کا تو خوب ڈھول تو پیٹتا ہے مگر اکتہر کی جنگ اور سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں بیانیہ کا چپ شاہ بن جاتا ہے۔ برطانیہ، فرانس اور امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے حقوق پر تو دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں مگر تھرپارکر کے ہندوئوں، خیبر پختوخوا کے سکھوں اور کراچی کے ان عیسائیوں کے بارے میں بیانیہ گونگا بن جاتا ہے جو مذھبی منافرت کا شکار بن کر بیرون ملک بھاگنے پر مجبور ہیں۔ ایک بیانیہ طالبان بنانے کا تھا اور ایک ان کو مٹانے کا، اس بیچ 70 ہزار جانیں قربان کرنیوالے خاندانوں کے بارے میں بیانیہ اشاراتی زبان میں خود کلامی کرتا ہے۔ اوجھڑی کیمپ سے اے پی ایس پشاور تک ذمہ داروں کا تذکرہ آئے تو بیانیے کی سانس پھول جاتی ہے۔ پاناما اور سرے محل کے بیانیے اور جوابی بیانیے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے، ایوب خان کے ایبڈو سے موجودہ نیب تک نجانے کتنے سیاستداں احتساب کی زد میں آئے مگر ظالم اور مظلوم ہی نہیں گواہان تک نے ماشااللہ دن دونی اور رات چوگنی ترقی کی۔ وہ تو اچھا ہے کالعدم تنظیموں کے بیانیے پر پابندی ہے ورنہ ایسے ایسے بیانیے سامنے آتے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ خیر جناب ہوتا یہ ہے کہ بیانیوں کی اس بھیڑ میں اصل بیانیہ کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔
ماشااللہ گوئبلز کے نظریات سے پوری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے اور اٹھاتی رہیگی ہم جلنے والے کون، انہی نظریات کی پیروی کرتے ہوئے ماضی تبدیل اور نصاب کی تجدید کی جاتی ہے۔ یہ تو بتایا جاتا ہے کہ موسیٰ بن نصیر، بہادر جرنیل، فاتح اسپین اور افریقہ کے گورنر تھے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ ملوکیت نے اس عظیم جرنیل کو بڑھاپے میں شام کی سڑکوں پر بھکاری کا روپ دیا۔ بیانیہ اس بارے میں بھی خاموش رہتا ہے کہ سلیمان بن عندالملک موسیٰ کے بیٹے کا سر جب بوڑھے جرنیل کے سامنے لاتا ہے تو یہ بوڑھا جرنیل سر جھکا کر کیا کہتا ہے۔ محمد بن قاسم کو فاتح سندھ تو بتایا جاتا ہے مگر اس 17 سالہ نوجوان سالار کو کس بیدردی سے مارا گیا، بیانیہ کنی کتر کر گزر جاتا ہے۔
درحقیقت بیانیے کے نام پر شاید ہمیشہ دنیا میں اس وقت کے معروضی حالات کے تحت بہت کچھ ہوتا رہا ہوگا، کبھی سقراط زہر کا پیالہ پیتا ہے تو کہیں منصور سولی چڑھتا ہے، کہیں جیراڈ برونو کو زندہ جلایا جاتا ہے، کبھی معتوب بوڑھا سائنسداں گلیلو قید میں زندگی گزارتا ہے تو کہیں والٹیئر قید و بند کی صعوبت اٹھاتا ہے تو کبھی ابن رشد کی طرح جلاوطنی کا حقدار ٹہرتا ہے۔ سرکاری بیانیہ ہمیشہ سورما ٹہرتا ہے مگر عالمی بیانیہ رستم زماں ہوتا ہے، جس کے تحت عراق پر تباہ کن ہتھیاروں کی تلاش میں حملہ کیا جاتا ہے۔ روس کے ٹکڑے کرنے کی جنگ افغانستان میں لڑی جاتی ہے۔ 34 ملکی فوجی اتحاد بنتا ہے، روہنگیا اور کشمیر میں مظالم پر آنکھ بند رکھی جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ گوئبلز نے اس فن کی ایسی معراج دی کہ دنیا کی تمام قومیں اسی نقش قدم پر منزلوں کی تلاش میں ہیں۔ سب کی اپنی اپنی تاریخ ہے، اصل تاریخ کہیں گمنام مقابرمیں میٹھی نیند سو رہی ہے۔