وائسرائے ہاؤس : ایک فلم، ایک تاریخ
حسین جاوید افروز
تقسیم ہند کے موضوع پر ہندوستان اور پاکستان میں بے شمار فلمیں اور ڈرامے بن چکے ہیں۔ بلاشبہ اگست1947 ہماری تاریخ میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے جب برصغیر سے انگریز راج کا خاتمہ ہوا اور پاکستان اور بھارت دو آزاد ممالک کی حیثیت سے عالمی نقشے پر ابھرے۔ تاہم اس حساس موضوع اور اس سے جڑی جذباتی تاریخ کو کسی فلم میں مکمل ایمانداری اور تخلیقی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے دکھانا ہرگز کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن فلم وائسرائے ہاؤس کی ڈائریکٹر گوریندر چڈھا نے اس ہمالیائی کام کا بِیڑہ اٹھایا اور اس موضوع پر ایک جرات مند فلم بنا ڈلی۔
گوریندر چڈھا کہتی ہیں کہ کہ 1947 میں ہمیں غلامی کے ایک طویل دور کے بعد آزادی تو نصیب ہوئی مگر یہ سارا عمل اپنے پیچھے تلخیوں اور کرب کا ایک وسیع و عریض خلاء چھوڑ گیا جس کا شکار میرا خاندان بھی ہوا ۔ میری دادی جس طرح شرنارتھی بن کر پاکستان سے ہجرت کر کے ہندوستان پہنچی۔ یہ ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والا سفر تھا ۔ جب تقسیم کے ہنگام میں میری دادی نے اپنی بیٹی کی لاش اٹھائی۔ آج بھی میرے دونوں چچا جو اس وقت بچے تھے ان کے دل اس دور کی ہولناکیوں کو یاد کر کے دہل جاتے ہیں۔
یہ فلم ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے متعلق ہے جب اسے برطانوی حکومت کی جانب سے ہندوستان میں ٹرانسفر آف پاور کے عمل کو تکمیل تک پہنچانے کا ٹاسک سونپا گیا۔ لیکن جلد ہی ماؤنٹ بیٹن کو احساس ہوا کہ معاملہ محض ہندوستان میں ٹرانسفر آف پاور تک محدود نہیں رہا بلکہ اب اس سارے عمل میں اب تقسیم ناگزیر ہوتی جارہی ہے ۔
ذاتی طور پر ماؤنٹ بیٹن اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے لیے تقسیم ایک کڑا مرحلہ تھا ۔ وہ اس مقصد کے لیے برصغیر کے سبھی چوٹی کے لیڈروں جن میں موہن داس کرم چند گاندھی ، جواہر لال نہرو اور قائد اعظم محمد علی جناح سے ملا۔ لیکن ان تمام لیڈران کے مختلف موقف سننے کے بعد ماؤنٹ بیٹن اس نتیجے پر پہنچا کہ اب شائد متحدہ ہندوستان معرض وجود میں نہ رہ سکے۔ نہرو متحدہ ہندوستان کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان بن جانے دیا جائے کیونکہ کچھ عرصے بعد شائد یہ دوبارہ ہندوستان کا حصہ بن جائے۔ جبکہ گاندھی تقسیم کے لفظ سے ہی خاصا شاکی رہے۔ ان کے خیال میں ہندوستان کی حیثیت تمام ہندوستانیوں کے لیے ایک ماں کی سی ہے لہٰذا اس کی منقسم شکل ہمارے لیے ہرگز قابل قبول نہں۔
جبکہ قائد اعظم نے اپنا موقف نہایت صاف گوئی سے بیان کیا کہ تقسیم برصغیر کے مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے۔ ایک زمانہ تھاآپ بھی متحدہ ہندوستان کا قائل تھے لیکن اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ پاکستان سے کم کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ لیکن انہیں کٹا پھٹا پاکستان نہیں چاہیے۔ یہ طے کیا جانا بہت ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کے عمل کے خدوخال کیا ہوں گے، حدود کا تعین کیسے ہوگا؟ ان کے خیال میں سارا بنگال اور پنجاب پاکستان میں شامل کیاجانا چاہیے۔
اس ساری صورتحال سے ماؤنٹ بیٹن اور ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن بھی خاصے مایوس تھے۔ فلم میں دکھایا گیا کہ دونوں ہندوستان کی تقسیم کے دل سے قائل نہیں تھے۔ فلم کا وہ منظر بھی قابل دید ہے جب ایڈینا ماؤنٹ بیٹن، وائسرائے سے گلہ کرتی ہیں کہ مجھے افسوس ہے کہ برٹش ایمپائر ہندوستانیوں کی تعلیمی اور معاشی مسائل حل کرنے میں سست روی کا شکار رہی۔
دن بدن تقسیم کے حوالے سے ہندوستان میں تناؤ بڑھتا جارہا تھا۔ اس بات کے اثرات وائسرائے ہاؤس کے سٹاف میں بھی دیکھے جاسکتے تھے جہاں سبھی ہندو مسلم اور سکھ برصغیر کے مستقبل کے حوالے سے پرجوش تھے۔ سکھ اور ہندو متحدہ ہندوستان جبکہ مسلمان پاکستان کے حق میں تھے۔
وائسرائے ہاؤس کے سٹاف میں عالیہ نامی مسلم لڑکی بھی لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے ماتحت خدمات انجام دے رہی تھی۔ جو کہ اپنے نابینا والد اوم پوری کے ساتھ وائسرائے ہاؤس میں ہی قیام پذیر ہوتی ہے۔ اس کی منگنی ایک مسلمان فوجی آصف سے طے پاتی ہے۔ لیکن دراصل وہ وائسرائے ہاؤس کے ایک ہندو ملازم جیت کے ساتھ محبت کرتی ہے۔ لیکن دونوں کے درمیان مذہب کی دیوار ان کو خاموشی پر مجبور کر دیتی ہے۔
فلم کی کہانی میں ڈرامائی موڑ تب آتا ہے جب عالیہ کا منگیتر جنگ سے واپس آتا ہے اور عالیہ سے شادی کی بات کرتا ہے۔ یہاں سے جیت اور عالیہ کے راستے الگ ہوجاتے ہیں جب آصف، عالیہ کے باپ کو پاکستان جانے پر آمادہ کرلیتا ہے اور عالیہ کا باپ تقسیم کے حق میں نہ ہونے کے باوجود مسلمانوں پر حملوں سے نالاں ہوکر پاکستان کے لیے رخت سفر باندھ لیتا ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اپنے سارے سٹاف کو اس بات کی اجازت دے دیتے ہیں کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں اپنی مرضی سے جا سکتے ہیں۔ یوں وائسرائے ہاؤس سے کراکری، کتابیں اور دیگر فرنیچر بھی ہندوستان اور پاکستان میں بانٹنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
ہندو اور سکھ ملازمین تقسیم کا اعلان سننے کے بعد خاصے برافروختہ ہوتے ہیں اور اس شکست خوردگی میں اپنے انگریز افسران کو بھی پیٹ ڈالتے ہیں۔ وائسرائے ہاؤس میں اشتعال انگیز ماحول جنم لیتا ہے۔ یہاں تک کہ جیت بھی جو وائسرائے کے یونیفارم کو سجانے کا ذمہ دار ہوتا ہے وہ بھی ماؤنٹ بیٹن کو تقسیم کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کھری کھری سنا دیتا ہے۔ اب جیت اپنی ساری توجہ پاکستان سے آئے شرنارتھیوں کے لیے بنائے کیمپ میں کام کرنے پر لگا دیتا ہے۔
ایک روز اسے یہ دلدوز اطلاع ملتی ہے کہ جس ٹرین پر عالیہ پاکستان کے لیے روانہ ہوئی تھی اسے بُلوائیوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا ہے۔ یہ خبر سن کر جیت پر گویا ایک قیامت سی گزر جاتی ہے۔ دوسری طرف گاندھی تقسیم سے بچنے کے لیے اپنا آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن کو یہ تجویز دیتے ہیں کہ جناح کو ہم متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم بنانے کو تیار ہیں۔ اس طرح ہندوستان تقسیم سے بچ سکتا ہے۔ لیکن نہرو اور سردار پٹیل گاندھی کی اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں اور یوں گاندھی شدید مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
فلم میں ایک دلچسپ کردار برطانوی قانون دان سِیرل ریڈ کلف کا بھی ہے جن کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بٹوارے کی ذ مہ داری سونپی جاتی ہے۔ مزے کی بات یہ رہی کہ ریڈ کلف پہلی بار ہندوستان آئے اور انہیں اس وسیع وعریض خطے کی جغرافیائی، سماجی اور سیاسی اہمیت کے متعلق کچھ بھی علم نہیں تھا۔ ریڈ کلف کی معاونت کے لیے انہیں 1945 میں تیار کردہ ہندوستان کی تقسیم کا ایک نقشہ فراہم کیا جاتا ہے جو کہ سابق وائسرائے لارڈ ویول کے دور میں ترتیب دیا گیا۔ چنانچہ اس نقشے کی مدد سے وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بٹوارے کے عمل کو تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔
پنجاب سے بنگال تک خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے جس کی وجہ سے ماؤنٹ بیٹن اور ایڈوینا دونوں ہی شدید کرب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن برطانوی حکام پر برس پڑتے ہیں کہ اس سارے بُلوے کی ذمہ دار برٹش حکومت ہے۔ لیکن ان پر واضح کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا قیام سیکورٹی کے لیے بہت ہی ناگزیر ہوچکا تھا۔ کیونکہ روس کراچی کے گرم پانیوں تک رسائی چاہتاہے اسے ہمیں ہر حال میں روکنا ہوگا۔ آپ صرف برطانوی مفاد کے متعلق سوچیں۔ اور یاد رکھیں آج خون کی ہولی جو ہر جگہ کھیلی جا رہی ہے اس کے ذمہ داری آپ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ آپ برصغیر کے آخری وائسرائے تھے جس کو اس بٹوارے کا کام سونپا گیا۔
آخرکار دونوں ممالک آزاد ہوجاتے ہیں۔ قائد اعظم کراچی میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے محو گفتگو ہوتے ہیں کہ ہم مسلمان اپنے وجود کے لیے ہمیشہ سے ہی موجود رہے ہیں۔ البتہ ہم دونوں کو استعمال کیا گیا۔ لیکن آج تقسیم کے اس عمل سے برٹش فاتح بن کر ابھرے ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسٹر جناح سیاست کے مستقبل پر پیش گوئی ہرگز کوئی آسان کام نہیں لیکن یہ چرچل ہی تھے جنہوں نے تقسیم کے اس عمل میں دائی کا کردار نبھایا۔ اس سارے عمل میں کوئی بھی فاتح نہیں ہے۔
فلم میں ایک مبالغہ آمیز منظر بھی شامل ہے جب کیمپ میں جواہر لال نہرو بطور وزیر اعظم دورہ کرتے ہیں تو انہیں ایک مشتعل سکھ زناٹے دار تھپڑ رسید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تقسیم کے اصل ذ مہ دار آپ ہی تھے۔ نہرو تھپڑ کھانے کے باوجود اس سکھ کے گلے لگ جاتے ہیں۔
وائسرائے ہاؤس اپنے مضبوط سکرپٹ اور موثرسکرین پلے کی وجہ سے فلم بینوں کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔ پروڈکشن خاصی معیاری رہی اور خاصے شاہانہ سیٹ لگائے گئے۔ فلم میں متحدہ ہندوستان کی تقسیم، ماؤنٹ بیٹن خاندان کی اندرونی کشمکش اور جیت اور عالیہ کا رومانس اپنی اپنی جگہ بہتر طور پر فلمائے گئے۔ فلم کی رفتار قابل دید ہے۔ کہیں سے بھی فلم سست روی کا شکار ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
فلم میں ماؤنٹ بیٹن، قائداعظم اور گاندھی کے درمیان مکالمے فلم کی جان ثابت ہوئے۔ لیکن اگر تقسیم کے واقعات خصوصا بُلوے کی اصل فوٹیج دکھانے کی بجائے ڈراماٹائزیشن کا استعمال کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اداکاری کے شعبے کی بات کی جائے تو اوم پوری کی ایک نابینا مسلمان کے مختصر کردار میں اداکاری دل کو چھو گئی۔ یاد رہے یہ اوم پوری کی آخری فلم تھی۔
عالیہ کے کردار میں ہُما قریشی نے بھی فلم میں اپنی موجودگی کا توانا احساس دلایا۔ البتہ جیت کے کردار میں دیال بطور اداکار خاصا کمزور رہا۔ یہ کردار کسی بھی منجھے ہوئے اداکار کو دیا جاتا تو فلم زیادہ اثر انگیز رہتی۔ البتہ جناح کے کردار میں ڈینزل اسمتھ، گاندھی کے کردار میں نیرج کابی نے شاندار اداکاری کے جوہر دکھائے۔ تنویر غنی، نہرو کے کردار کے لیے غیر موزوں دکھائی دیے۔ یہ کردار معروف اداکار روشن سیٹھ کو دیا جاسکتا تھا جو کہ بھارتی تاریخی ٹی وی سیریز’’بھارت کھوج‘‘ میں نہرو کے کردار میں لازوال اداکاری کر چکے ہیں۔ جبکہ لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے کردار میں گلین اینڈرسن نے گویا اپنی دم دار اور حقیقی اداکاری سے میدان مار لیا۔ وہ اس مشکل کردار میں انگوٹھی کے نگینے کی طرح فٹ نظر آئیں۔
آخر میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے مرکزی کردار کی بات بھی ہوجائے جس کو ہیو بون ولے نے نبھایا۔ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اصل ماؤنٹ بیٹن کی طرح مردانہ وجاہت کے شاہکار اور دراز قد شخصیت کے ہر گز حامل نہیں تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات بھی خاصے کمزور رہے ۔ میری دانست میں آنجہانی کرسٹوفر لی اگر حیات ہوتے تو یہ کردار کر کے امر ہوجاتے۔ تقسیم کے پس منظر میں بنی فلم وائسرائے ہاؤس بحیثیتِ مجموعی ایک سِحر انگیز کاوش رہی جس میں گویندر چڈھا تقسیم ہند کے ہنگاموں، المیوں کو اجاگر کرنے میں خاصی کامیاب رہی ہیں۔ اس فلم کو میں 3/5 ریٹ کروں گا۔