گورڈن کالج : آئینۂ آواز میں چمکا کوئی منظر
ڈاکٹر شاہد صدیقی
کبھی کبھی یوں ہی جی چاہتا ہے پرانے راستوں کا سفر پھر سے کیا جائے۔ یہ خواہش دراصل گزرے دنوں کو پھر سے بِتانے کی آرزو ہوتی ہے۔ کسی پرانے دوست سے ملنا، کسی پرانی کتاب کا مطالعہ، کوئی پرانی فلم دیکھنا، کسی پرانے دیار میں جانا، دراصل ان لمحوں کو زندہ کرنے کی تمنا ہوتی ہے، جو ریت کی صورت ہماری مٹھی سے پھسل چکے ہوتے ہیں۔ یہی خواہش مجھے بھی چار دھائیوں بعد اپنی کھوئی ہوئی جنت گورڈن کالج لے گئی۔
کالج کی دہلیز پار کرتے ہی سرخ اینٹوں کی جانی پہچانی عمارت نظر آئی جہاں کالج کی لائبریری، ہمارا کمرہ جماعت اور جوبلی ہال تھا۔ میں نے جوبلی ہال کی دیوار پر ہاتھ رکھا تو بیتے ہوئے لمحے جیسے پھر سے دھڑکنے لگے۔ اس ہال میں مجھے کتنے ہی مباحثوں، تقریری مقابلوں اور مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا۔ اسی ہال میں ایک بار ہم نے اردوکی معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی کو مدعو کیا تھا۔
میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ مانوس آوازوں کی باز گشت سنائی دینے لگی اور ان آوازوں کے ہمراہ وہی دلدار، دھوپ جیسے روشن چہرے ماضی کی چلمن سے جھانکنے لگے۔ صداوں اور منظروں کا بھی عجیب رشتہ ہے۔ اردو کے بے بدل شاعر ظفراقبال کاایک خوبصورت شعر ہے:
آئینۂ آواز میں چمکا کوئی منظر
تصویر سا اک شور مرے کان میں آیا
ان چہروں میں سب سے روشن چہرہ خواجہ مسعود صاحب کا ہے۔ وہ ہمارے زمانے میں کالج کے پرنسپل تھے۔ بڑی بڑی چمکتی آنکھیں، ہر دم متحرک، ایک سیمابی شخصیت۔ تاریخ، فلسفہ، ادب، سیاست ہر موضوع پر ان کو دسترس حاصل تھی اور ریاضی تو تھا ہی ان کا اپنا مضمون۔ وہ آخر دم تک اخبارات میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے رہے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک dynamic leader تھے۔
جوبلی ہال سے جُڑا ہوا ایک اور روشن چہرہ پروفیسر نصراللہ ملک کا ہے۔ ملک صاحب کتابوں کے عاشق اور دلچسپ گفتگو کے رسیا تھے۔ ان کا مضمون تو تاریخ تھا لیکن ان کی دلچسپی کا ایک میدان ڈرامہ بھی تھا۔ ڈرامہ اور فلم کے چند اہم ناموں راحت کاظمی، شجاعت ہاشمی اور نیر کمال کا شمار ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ وفات سے کچھ پیشتر میں ان سے ملنے ہسپتال گیا تو انہیں دیکھ کر جی دھک سے رہ گیا۔ شدید کمزوری ان کے چہرے سے عیاں تھی۔
مجھے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ دھیرے سے مسکرائے، میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انگریزی میں بولے ینگ مین زندگی میں کچھ مختلف، کچھ نیا کرنا۔ زندگی صرف بسر نہیں کرنا اس کو live کرنا۔ کاش میں ان کی آخری خواہش پوری کر سکوں۔
جوبلی ہال کے اوپر ہماری ایم اے انگلش کی کلاسز ہوتی تھیں۔ انگریزی کے شعبہ کے سربراہ پروفیسر سجاد شیخ صاحب تھے۔ شیخ صاحب بہت مخلص اور بہت محنتی استاد تھے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے کبھی چھٹی کی ہو۔
ایک روز طوفانی بارش ہو رہی تھی۔ شیخ صاحب نے سیٹلائٹ ٹاون سے آنا ہوتا تھا۔ ہم سب دعا کر رہے تھے کہ آج شیخ صاحب نہ آئیں۔ کلاس کا وقت ہو رہا تھا۔ آسمان سے چھاجوں مینھ برس رہا تھا۔ لیکن اس روز بھی ہماری دعائیں کام نہ آئیں۔ ہم نے دیکھا شیخ صاحب چھتری تانے آڑی ترچھی بارش میں بھیگتے آرہے تھے۔
گورڈن کالج کا خاص امتیاز اس کی ہم نصابی سرگرمیاں تھیں جو طلباء کی شخصیت کو ابھارنے اور نکھارنے میں خاص کردار ادا کرتیں۔ کالج میں بار اور منروا کے ناموں سے دو کلب تھے۔ طلباء اور اساتذہ کو ان دو کلبوں میں تقسیم کر دیا جاتا اور زوروں کے مباحثے، تحریری اور تقریری مقابلے ہوتے۔ اسی تربیت کی بدولت یہاں کے فارغ التحصیل طلبا زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
کالج کے میگزین گورڈونین کا اجراء 1915ء میں ہوا۔ اس کے ایڈیٹرز کی فہرست میں کتنے ہی معروف نام آتے ہیں۔ ان میں سے ایک نام اردو کے نامور ادیب جگن ناتھ آزاد کا ہے، جو گورڈن کالج کے طالب علم رہے۔ ان کے والد تلوک چند محروم، جو اردو کے معروف شاعرہیں، گورڈن کالج میں اردو اورفارسی کے استاد رہے۔ مجھے بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں بھی گورڈونین کا ایڈیٹر رہا۔
جوبلی ہال سے اگلی عمارت کالج کی سب سے پرانی اور خوبصورت عمارت ہے جس کی پیشانی پر گورڈن کالج کا نام کندہ ہے۔ کالج کا یہ نام مشنری انتظامیہ کے ایک سینئر رکن اینڈریو گورڈن کے نام پر رکھا گیا۔ ساتھ ہی 1893ء کی تاریخ درج ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جب مشن سکول راولپنڈی میں کالج کی کلاسز کا اجراء کیا گیا۔ کالج کی موجودہ عمارت کا افتتاح 20 مارچ 1903ء کو ہواتھا۔
ذرا آگے آئیں تو سائنس بلاک آتا ہے۔ سائنس بلاک سے کالج کی پرانی عمارت کو ایک خوبصورت پُل سے جوڑا گیا ہے۔ اس سے آگے بائیں طرف ایڈمن بلاک ہے اسی بلاک میں پرنسپل آفس بھی ہے۔ کیا کیا ستارے تھے جواس کہکشاں کاحصہ رہے۔ ان میں ڈاکٹر مورٹن، رالف سٹیورٹ، اے کیو ڈسکوی، پروفیسر زیویر اور پروفیسر خواجہ مسعود شامل ہیں۔
ایڈمن بلاک کے بالکل سامنے لیڈیزگارڈن ہواکرتا تھا جو صرف طالبات کے لئے مختص تھا۔ ایک زمانے میں گورڈن کالج میں اردو، انگریزی اورتاریخ میں ایم اے کی مخلوط کلاسیں ہوا کرتی تھیں۔ اب لیڈیز گارڈن کی خوبصورت باڑ کٹ چکی ہے، اور وہاں کسی نئے بلاک کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں۔ یہاں سے ذرا آگے دائیں طرف کالج کے گراؤنڈز ہیں۔ کالج میں کھیلوں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ کالج کی ہاکی، فٹ بال ،کرکٹ، اتھلیٹکس، باسکٹ بال اور والی بال کی ٹیمیں تھیں۔
بائیں جانب مورٹن ہال میں ہاسٹل کے کمرے ہیں۔ یہ ایک تین منزلہ عمارت ہے۔ ہاسٹل کا ایک اہم کردار یہاں کا ملازم غنی کاکا تھا جس نے طویل عرصہ یہاں پر ملازمت کی۔ وہ علی الصبح ہرکمرے کے دروازے پر اپنے ڈنڈے سے دستک دیتا۔ سارے کمروں پردستک دے کے جگانا، اچھا خاصا مشکل کام تھا لیکن غنی کاکا بڑے شوق سے اپنی ذمہ داری پوری کرتا۔ اب بھی کمروں کے دروازوں پر ان کی دستک کے نشان باقی ہیں۔ سنا ہے کچھ ماہ پہلے غنی کاکا وفات پاگیا۔ رہے نام اللہ کا۔
اس سے آگے کا منظر میرے لیے اجنبی تھا۔ سب کچھ بدل گیا تھا۔ سٹوڈنٹس کینٹین بند ہو چکی تھی۔ اسی طرح پروفیسر ٹی ہاؤس بھی ختم ہوچکا تھا۔ اس ٹی ہاؤس میں کیسی کیسی محفلیں سجا کرتی تھیں۔ چائے کے دور چلتے اور ایک کونے میں شطرنج کی محفل جمتی تھی۔ ٹی ہاؤس کے سامنے لان میں پروفیسرز مِل کر بیٹھتے۔ ایم اے کے طالب علم ہونے کے ناتے ہمیں بھی ان محفلوں میں جگہ مل جاتی اور سچی بات تویہ ہے کہ ہم نے ان محفلوں سے بہت کچھ سیکھا۔
یہاں گورڈن کالج کی عمارت ختم ہو جاتی ہے۔ باہر جانے کے لیے کالج کا چھوٹا گیٹ ہے۔ اس گیٹ سے نکل کر میں کالج روڈ پرآگیا ہوں۔ کالج روڈ کا نام گورڈن کالج کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ گیٹ سے نکل کربائیں طرف مڑیں تو زم زم کیفے آتاتھا۔ گورڈن کالج کا ذکر زم زم کیفے کے بغیر نا مکمل ہے۔
زم زم کیفے کے اندر اور باہر کھلی جگہ بیٹھنے کا انتظام تھا۔ یہاں چائے چھوٹے گلاسوں میں دی جاتی تھی۔ چائے کے ہمراہ فرمائش پر پسند کے گانوں کے ریکارڈ بجائے جاتے تھے۔ زم زم کی جگہ اب فاسٹ فوڈ کی دکانیں کھل چکی ہیں۔ آج اتوار کا دن ہے اور صبح کا وقت، آسمان پر بادل گھر کر آئے ہیں۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے یوں لگتا ہے جیسے کہیں گردونواح میں بارش ہو رہی ہے۔
آج سڑک پر بھیڑ بہت کم ہے۔
چلتے چلتے میرے قدم رک گئے مجھے یوں لگا زم زم کیفے اسی جگہ پر واپس آگیا ہے۔ کیفے کے اندر چہل پہل ہے۔ کیفے کامالک مطلوب بٹ چائے کے آرڈر لینے کے ساتھ گانوں کی فرمائشیں بھی وصول کر رہا ہے۔ کیفے سے باہر شہتوت کے درخت کے نیچے بچھی کرسیوں پر ہم کالج کے دوست بیٹھے ہیں۔ میز پر چھوٹے گلاسوں میں چائے رکھی ہے۔ شہتوت کی ٹہنیاں تیز ہوا میں جھول رہی ہیں۔ مطلوب بٹ نے گرامو فون پر نیا ریکارڈ چلا دیا ہے گانے کے بول ہوا کے دوش پر تیر رہے ہیں۔ ”زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام… وہ پھر نہیں آتے‘‘
ٹھنڈی ہوا، خوبصورت شاعری اور مدھر آواز۔ میں آنکھیں بند کرلیتا ہوں اورگیت کے بول مجھے ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں چیزیں اتنی بے ثبات نہیں ہوتیں۔