برصغیر میں مسلمان اقلیت کیوں؟

Jameel Khan aik Rozan writer
جمیل خان، صاحبِ مضمون

برصغیر میں مسلمان اقلیت کیوں؟

جمیل خان

برصغیر کی بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ برہمن نے تو اپنی پوتھی بغل میں چُھپا ہی رکھی تھی اور اس پر نچلے طبقات کے انسانوں کا کوئی حق نہ تھا، مگر یہاں کے مسلمان بھی مذہبی اجارہ داروں کی بحث و مناظرے، کلامی جھگڑوں اور باہمی تکفیر بازی کی پستی سے باہر نہ نکل سکے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرے کے مسلم و غیر مسلم عام افراد کئی صدیوں پر مشتمل مسلمانوں کے دورِ حکمرانی میں علم کی روشنی سے بے بہرہ ہی رہے، بلکہ خود مسلمانوں کے تعلیم یافتہ افراد کے اپنے علم کا معیار بھی پست سے پست ہوتا چلا گیا۔

سچ پوچھیے تو مسلمانوں نے ہندوؤں کے ذات پات کے نظام کو ایک نئے رنگ ڈھنگ سے اپنالیا تھا، جو انتہائی غیرمہذب اور تحقیر آمیز تھا۔

برطانوی نوآبادیاتی نظام کے دوران ہندوستان میں ریلوے نظام کا آغاز ہوا تو ذات پات کے جبر کی شدت میں کچھ کمی آئی، ورنہ ماضی میں اس سماجی لعنت کے خلاف کسی منظم مہم کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

مثال کے طور پر مذہبی اور تاریخی کتابوں میں مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کو بطور مصلح متعارف کرایا جاتا ہے، لیکن اس سماجی لعنت کے خلاف ان دونوں اور ان کی مانند معروف مذہبی شخصیات میں سے کسی نے بھی کوئی تحریک شروع نہیں کی، بلکہ شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ عبدالعزیز کے تذکروں میں ملتا ہے کہ اُن کے مدرسے میں ایک نوجوان حصولِ علم کے لیے حاضر ہوا تو شاہ عبدالعزیز نے اس سے دریافت کیا کہ اس کے والد نے کس مدرسے سے تعلیم حاصل کی، اور دادا نے کس مدرسے سے؟ جب نوجوان نے تشفی کردی تو اس کو داخلِ مکتب کیا گیا۔

یعنی ان کے مکتب میں اسے ہی داخلہ ملتا تھا، جو تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایسے معاشی ذرائع جنہیں اس وقت معاشرے میں نیچ سمجھا جاتا تھا، ان سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد اپنی اولاد کو عالم بنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ واضح رہے کہ یہ سوچ سرسید کے دور تک برقرار تھی۔

گو کہ سرسید نے علی گڑھ یونیورسٹی قائم کرکے مسلمانوں پر نہایت عظیم احسان کیا تھا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی یہ علمی تحریک صرف مسلمان اشرافیہ کے لیے تھی، اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ علی گڑھ کے بعد اس درجے کا کوئی ایک ادارہ کسی اور شہر میں مسلمانوں کی جانب سے قائم نہیں ہوسکا۔

سرسید نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ شہر میں قائم کی، جو اُس وقت ہندوستان کے ایسے صوبے میں واقع تھا، جہاں مسلمانوں کی تعداد آبادی کا محض 14 فیصد تھی۔ جبکہ مسلم اکثریتی شہروں لاہور، پشاور، کوئٹہ، حیدرآباد، ملتان، بہاولپور، سانگھڑ میں ایسا کوئی تعلیمی ادارہ قائم نہ ہوسکا۔

دوسری جانب ہندوؤں کے بہت سے اکابرین، جن میں مدن موہن، گوپال کرشن گوکھلے اور ایشور چندر ودیا ساگر اور بہت سے نام شامل ہیں، جنہوں نے تعلیم کو عام کرنے کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو اکثریتی شہروں میں تعلیم کا تناسب بڑھتا چلا گیا۔ جس کی ایک حیرت انگیز مثال کیرالہ کی ہے، جہاں تقسیم ہندوستان سے قبل ہی خواندگی کی شرح نوّے فیصد تھی۔

بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ ذات پات اور نیچ کمین اور اجلاف کو حقیر سمجھنا اور تعلیم کا حصول محض اشراف کے لیے مختص سمجھنا تھا۔


(برصغیر…. مسلمان اقلیت کیوں؟ کے زیرِعنوان برصغیر میں مسلمانوں کے زوال کے اسباب کے تحقیقی و توضیحی جائزے پر مبنی زیرِقلم کتاب سے ایک اقتباس)