صنعتی انقلاب، درحقیقت صارف انقلاب تھا اور میڈیا کا صارفیت ماڈل : میڈیا کی اصل حقیقت کیا ہے؟
ڈاکٹر نوید اقبال انصاری
میڈیا سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے ایک سیمینار میں بی بی سی سے منسلک ایک معروف پاکستانی صحافی نے کہا کہ ’’ہم صحافی کسی بیکری کی دکان پر بیٹھے ہوئے ایسے ملازم ہیں کہ جونہی ہمارا مالک ہمیں کہتا ہے کہ اب آپ کپڑا لے کر شیشے صاف کریں تو ہم فوراً حکم بجا لاتے ہیں‘‘۔ یہ چھوٹا سا جملہ پاکستانی صحافت یا میڈیا کی ساری کہانی اپنے اند سموئے ہوئے ہے۔ جرنلزم کی تعلیم حاصل کرنے والے اکثر طلبا نے راقم سے بھی یہ سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک سینئر صحافی بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستانی میڈیا میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکتا؟ بات یہ ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں یہی مسئلہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ایک استاد محترم یہ کہتے ہیں کہ میڈیا معاشرے کی خدمت کر ہی نہیں سکتا، اس کا بنیادی مقصد کچھ اور ہی ہے۔ میڈیا کی اصل حقیقت کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں تھوڑا سا تاریخ کا جائزہ لینا ہوگا۔
ایک امریکی مصنف گرانٹ ڈیوڈ لکھتا ہے کہ صنعتی انقلاب درحقیقت صنعتی انقلاب نہ تھا، بلکہ یہ صارف انقلاب (کنزیومر ریوولیشن) تھا کہ جس سے صارفین کی بہت بڑی تعداد تیار کی گئی۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل فرض کریں لوگوں کو جس قدر کپڑے کی ضرورت پیش آتی تھی، وہ روایتی کھڈیوں پر تیار ہوجاتا تھا، لیکن جب مشینیں ایجاد ہوگئیں اور کپڑا مشینوں پر تیار ہونے لگا تو لوگوں کی ضرورت کا جتنا کپڑا مہینوں میں تیار ہوتا تھا وہ مشینوں کے ذریعے چند دنوں میں ہوگیا، اب سرمایہ دار نے یہ سوچا کہ جس قدر کپڑا لوگوں کی ضرورت کا تھا وہ تو جلد ہی تیار ہوگیا اور منافع بھی حاصل ہوگیا، لہٰذا کیوں نہ مزید کپڑا تیار کیا جائے تاکہ اور منافع کمایا جاسکے۔
یوں مشینوں کو مسلسل چلاکر ایک بڑی تعداد میں کپڑا تیار کرلیا گیا، مگر اب مسئلہ یہ پیش ہوا کہ اس کپڑے کو لوگوں کو کس طرح فروخت کیا جائے؟ یہ بڑا مشکل کام تھا کہ کوئی شخص اپنی ضرورت کا کپڑا لینے کے بعد بلاضرورت مزید کپڑا کیوں خریدے؟ آخر کوئی بلا ضرورت اپنا پیسہ کیوں خرچ کرے؟ سرمایہ داروں کے اس مسئلے کو مارکیٹنگ، اشتہارات اور میڈیا والوں نے اپنی خدمات سے حل کردیا۔ ان تمام نے ماہرین نفسیات، عمرانیات اور دیگر سماجی علوم کے ماہرین کی ان تمام ریسرچ سے فائدہ اٹھایا کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ایک انسانی ذہن متاثر کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ سرمایہ داروں کی وہ تمام اشیاء کو (جن کو لوگ اس لیے خریدنے کو تیار نہ تھے کہ وہ ان کی ضرورت نہیں ہے) اس طرح کے پیغامات کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا کہ سننے، دیکھنے اور پڑھنے والا یہ سمجھ بیٹھا یا دھوکا کھا بیٹھا کہ یہی اشیاء اس کی بنیادی ضرورت ہے، اور اس نے وہ اشیاء خرید لیں۔
یہی وجہ ہے مغرب میں جب یہ حقائق لوگوں کو معلوم ہوئے تو انھوں نے اشتہارات کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی، اشتہارات چونکہ میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچتے تھے لہٰذا میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پرنٹ میڈیا کے حوالے سے آڈٹ بیورو سرکولیشن (اے بی سی) کا ادارہ امریکا میں قائم کیا گیا۔ رفتہ رفتہ ان اشتہارات میں لوگوں کے ذہن کو متاثر کرنے یا انھیں اشیاء خریدنے پر مجبور کرنے کے لیے صرف ابلاغی اور نفسیاتی حربوں سے کام نہیں لیا گیا بلکہ جھوٹ اور دھوکا دہی کو بھی کثرت سے استعمال کیا جانے لگا تاکہ کسی بھی طرح سے اشیاء کو فروخت کیا جاسکے۔ اس عمل سے تینوں قوتوں کو فائدہ حاصل ہو رہا تھا اور ان کے سرمایہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہورہا تھا، یعنی ایک سرمایہ دار جس کی اشیاء فروخت ہورہی تھیں، دوسرے اشتہارات والے جو نہ صرف کروڑوں روپے کے اشتہارات بنا کر اس سے بھی زائد رقم کما رہے تھے اور تیسرے میڈیا والے جو ان اشتہارات کو پیش کرکے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے تھے۔
بات سیدھی سی ہے کہ میڈیا کو اپنا وجود برقرار رکھنے یعنی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے اشتہارات کی ضرورت تھی اور اگر اشتہارات نہ ہوں تو میڈیا ایک دن بھی اپنے پیر پر چل نہیں سکتا۔ اشتہاری کمپنیوں کو بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ایسے حربے والے اشتہار بنانا ضروری تھے کہ عوام ہر قیمت پر وہ شے خریدیں جس کا اشتہار دیا جارہا ہے، تب ہی سرمایہ دار سے وہ اپنی اس خدمت کا صلہ یعنی منافع حاصل کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف ایک سرمایہ دار خوشی خوشی ان دونوں (اشتہاری کمپنیوں اور میڈیا) کو کھل کر پیسہ فراہم کرتا ہے کیونکہ وہ اس سرمایہ دار کی اس شے کو سونے سے قیمتی بنا کر فروخت کروا رہے ہیں جو اشتہاری کمپنیوں اور میڈیا کی خدمت کے بغیر محض مٹی سے زیادہ قیمتی نہ تھیں۔
اب اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا کھیل کیوں چل رہا ہے، کوئی اس کو روکتا کیوں نہیں؟ اور مغرب میں لوگوں کی جانب سے احتجاج اور تحریک چلانے کے باوجود کوئی فرق کیوں نہیں پڑا؟ بات یہ ہے کہ مغرب میں جان لاک، ہوم، والٹیئر، ڈارون، ایڈم اسمتھ، ڈیکارٹ، ڈلیوز، کانٹ، کارل مارکس، آئزہ برلن اور مارٹن لوتھر جیسے مفکرین نے مغرب میں وہ تصورات دیے کہ جس سے سماجی اقدار، خاندان اور مذہب کی اہمیت کو پس پشت ڈال کر صرف عقل کو اہمیت دی اور ان تمام پر ’میں‘ کو فوقیت دے دی، جیسا کہ جان لاک کہتا ہے کہ مائی باڈی از مائی پراپرٹی (میرا جسم میری ملکیت ہے) یا جیسا کہ برلن کے تصور آزادی کے تحت ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ جو چاہے نیکی اور بدی کا تصور قائم کرے۔ یعنی اب گناہ یا ثواب کے طے کرنے کا حق خدا کے بجائے فرد واحد کے پاس آگیا اور اس میں خاندان یا سماجی اقدار بھی پس پشت چلی گئیں۔ یوں اس معاشرے میں صرف مذہبی نہیں سماجی، اخلاقی اور خاندانی قدریں بھی ریاستی اور معاشرتی سطح سے نکل کر انفرادی سطح پر آگئیں کہ جس کا دل چاہے عمل کرے، جس کا دل چاہے نہ کرے۔
مذکورہ بالا نظریات کا تمام تر فائدہ سرمایہ دار کو پہنچا، کیونکہ کسی سرمایہ دار کے سرمائے کے حصول میں اگر کوئی اصول اور ضابطے طے کرنے والی قوتیں تھیں تو وہ مذہب، سماجی، خاندانی اور اخلاقی قدریں تھیں۔ چنانچہ ان نظریات کو نہ صرف سرمایہ داروں نے مضبوطی سے پکڑ لیا بلکہ میڈیا نے بھی قبول کرلیا، مثلاً کسی اشتہار میں (جو صرف مردوں کے استعمال کی شے کا ہو) کسی نیم برہنہ ماڈل گرل کو دکھایا جائے اور کوئی اس پر اعتراض اٹھائے کہ یہ کیوں دکھایا جارہا ہے؟ تو مذکورہ بالا نظریات کے تحت سیدھا سا جواب ہے کہ یہ آپ کے نزدیک غلط ہوسکتا ہے، اگر آپ کو پسند نہیں تو مت دیکھیے، دوسرے لوگوں کے نزدیک تو یہ کوئی برائی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میڈیا صرف اشتہارات میں نہیں اپنے پروگراموں میں بھی ریٹنگ بڑھانے کے لیے تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ اشتہارات ملیں، کچھ ایسا مواد پیش کرتا ہے کہ جس پر کوئی اعتراض کرے کہ یہ فحاشی و عریانیت ہے، یہ غیر اخلاقی ہے، یہ مناظر نفسیات پر منفی اثرات ڈالتے ہیں یا یہ کہ پروگرام یا خبر جانبدارانہ طریقے سے یا مرچ مسالا لگا کر دی جارہی ہے تو عموماً یہی جواب دیا جاتا ہے کہ اگر آپ کو نہیں پسند تو چینل بدل لیں۔ یعنی میڈیا والے کی نظر میں یہ سب درست ہے، ایسا سمجھنا اس کا حق ہے، اگر کسی کی نظر میں درست نہیں تو یہ اس کا حق ہے کہ وہ کوئی اور چینل دیکھیں، کس نے منع کیا ہے؟ یعنی یہاں کھل کر جان لاک اور برلن کے نظریے کی بات کی جاتی ہے، کیونکہ یہی نظریہ میڈیا کو آزادی دیتا ہے کہ وہ ایسے پروگرام پیش کرسکے کہ جس سے اس کو زیادہ سے زیادہ اشتہارات حاصل ہوں اور وہ زیادہ سے زیادہ مال کمائے۔
یوں دیکھا جائے تو میڈیا، اشتہارات اور سرمایہ دار کا یہ ایک سرکل ہے جو لوگوں سے زیادہ سے زیادہ مال کمانے کا فن رکھتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر میڈیا یہ سب کچھ نہ کرے تو اسے اشتہارات نہیں ملیں گے اور جب اشتہارات نہیں ملیں گے تو میڈیا کیسے چلے گا؟ میڈیا پر مذہب، سماجی، اخلاقی اور خاندانی اقدار کا درس چلے گا تو لوگ سرمایہ دار کی اشیاء کیوں خریدیں گے؟ جھوٹ، دھوکا، جانبداری، مرچ مسالا، عریانی، فحاشی، چٹخارے دار بے مقصد کی گفتگو وغیرہ کسی کو میڈیا کا منجن لگتا ہے تو لگے، حقیقت تو یہ ہے کہ میڈیا پر یہ منجن نہیں ہوگا تو چلے گا کیسے؟
بشکریہ ایکسپریس اردو
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.