استاد دامن بولے نہرو سے ، “… میں پاکستان میں ہی رہوں گا چاہے جیل میں ہی”
ملک تنویر احمد
ہندوستان کے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو پنجابی زبان کے معروف شاعر استاد دامن سے بہت متاثر تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل پنڈت نہرو جب بھی پنجاب میں جلسے کیا کرتے تھے تو میاں افتخار الدین کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ استاد دامن کو ڈھونڈ کر جلسے میں لائیں۔ جواہر لال نہرو اپنی تقریر سے پہلے استاد دامن کا کلام سننے کی فرمائش کرتے تھے۔
تقسیم ہند کے کچھ عرصہ بعد دلی میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت جواہر لال نہرو نے کی۔ استاد دامن بھی اس مشاعرے میں مدعو تھے۔ انہوں نے اس مشاعرے میں اپنی ایک نظم سنا کر مشاعرہ لوٹ لیا جس میں تقسیم ہند کے بعد برپا ہونے والے فسادات اور تباہی و بربادی کا ذکر کیا گیا ۔اس نظم کے دو اشعار کچھ یوں تھے ع
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او، سوئے اسی وی آن
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وے او، روئے اسی وی آں
پنڈت جواہر لال نہرو استاد دامن کی یہ نظم سن کر رونے لگے اور استاد دامن سے مخاطب ہو تے ہوئے کہا کہ میری اور میری عوام کی خواہش ہے کہ آپ بھارت میں رہائش اختیار کر لو۔ استاد دا من نے جواب دیا ،’’میں پاکستان میں ہی رہوں گا چاہے جیل میں ہی کیوں نہ رہنا پڑے‘‘۔ استاد دامن کو بعد میں ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جیل میں رہنا بھی پڑا لیکن انہوں نے اسی مٹی میں دفن ہونا پسند کیا۔
استاد دامن جیسے فقیر منش شخص نے اس ملک کے وسائل سے کوئی مالی منفعت حاصل کی اور نہ ہی اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں سالوں عشروں تک مقیم رہے۔ انہوں نے لاہور میں ایک حجرے میں ساری زندگی گزار دی او ر اسی سرزمین پر مدفون ہونا پسند کیا حالانکہ پنڈت جواہر لال نہرو کے علاوہ ان کے کچھ اور ہندوستانی دوستوں نے بھی بارہا اصرار کیا کہ وہ ہندوستان منتقل ہو جائیں لیکن استاد دامن نے انہیں وہی جواب دیا کہ رہوں گا پاکستان میں چاہے جیل میں رہنا پڑے۔
استاد دامن آج اس لیے یاد آئے کہ اس ملک میں ایک عشرے تک بلا شرکت غیر ے حکمرانی کرنے والا سابق فوجی آمر پرویز مشرف بیرون ملک بیٹھ کر نئی نئی گل افشانیاں کر رہا ہے لیکن پاکستان واپس آنے کی ہمت اور حوصلہ اپنے اندر مجتمع نہیں کر پا رہا۔ اس ملک میں جنرل پرویز مشرف کا طوطی بولتا تھا۔
ملک میں اقتدار و اختیار کے سارے سوتے جناب کی ذات سے پھوٹتے تھے۔ اقتدار کے نشے میں چور مشرف صاحب رعونت اور تکبر کا چلتا پھرتا پیکر تھے۔ مکے لہرا لہرا کر مخالفین کو اپنی طاقت سے مرعوب کر تے تھے۔ طاقت و اختیار کے اس کوہِ ہمالہ پر جنرل صاحب براجمان تھے کہ عدالت سے لے کر سیاسی جماعتیں تک ان کے اشارہ ابرُو پر ناچتی تھیں اور جنہوں نے علم بغاوت بلند کیا انہیں پس زنداں ڈال دیا یا پھر ملک بدری پر مجبور کر ڈالا۔
یہ جنرل صاحب جب ملکی مفادات کا امریکہ سے سودا کر رہے تھے تو انہوں نے ایک دلکش اور رنگین نعرے سے قوم کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘۔ ان صاحب کے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہی ان کے جرائم کی سیاہی ابھر کر سامنے آئی تو ان پر مقدمات قائم کیے گئے لیکن جنرل صاحب جیل کی سلاخوں سے اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے بیرون ملک فرار میں ہی عافیت جانی۔
ایک عشرے تک ملک کے اقتد ار پر قابض پرویز مشرف صاحب اب ملک سے باہر بیٹھ کر نئی نئی کہانیاں سنا کر اپنے آپ کو سیاسی طورپر زندہ رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری ان کے شوہر آصف علی زرداری پر ڈالی۔مشرف کی اس نا گفتنی پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں تاہم پی پی پی نے اس پر سخت رد عمل دکھاتے ہوئے پرویز مشرف کو چیلنج کیا کہ وہ ملک واپس آکر عدالتوں میں ان کے خلاف چلنے والے مقدمات کا سامنا کریں جن میں سے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں انہیں اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔
پی پی پی کے رہنماؤں کی جانب سے پرویز مشرف کو دلیر اور بہادر بن کر واپس ملک میں آنے کے مطالبے بے سُود رہیں گے کیونکہ جنرل صاحب میں اتنی ہمت اور حوصلہ نہیں ہے کہ وہ واپس وطن آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں۔ پرویز مشرف جیسے افراد اس ملک میں اس وقت قیام کرتے ہیں جب تک اقتدار ان کی مٹھی میں ہو اور ان کے احکامات پر سارے ادارے سر تسلیم خم کر لیں۔ جب اقتدار ہی باقی نہ رہا اور مقدمات میں جیل کی ہوا کھانے کا خوف پورے اعصاب پر طاری ہو تو پھر کون کم بخت دلیر اور بہادر بنے۔
اب یہ استاد دامن جیسا فقیر منش اور اپنی مٹی سے جڑا ہوا شخص تو ہے نہیں کہ جس نے جیل کی ہوا بھی کھائی مقدمات کا سامنا بھی کیا لیکن جب کبھی اسے بیرون ملک رہائش کی آفر آئی اس نے ٹھکرا دی کہ رہنا تو پاکستان میں ہے چاہے جیل میں ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ جنرل پرویز مشرف کا ملک واپسی کا پلان دور دورتک نظر نہیں آتا تاہم ملک کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے وطن واپس آکر احتساب عدالتوں میں اپنے خلاف مقدمات کا سامناکرے کے ایک احسن اقدام اٹھایا ہے۔ میاں نواز شریف اگر ان مقدمات کے خوف سے بیرون ملک ہی مقیم رہتے تو ان میں اور جنرل پرویز مشرف میں کوئی فرق نہ رہتا۔
ایک فوجی آمر اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد اپنے جرائم کے باوجود قانون کی گرفت سے باہر ہے اور بیرون ملک بیٹھ کر آئین و قانون کا منہ چڑا رہا ہے جب کہ ایک سویلین وزیر اعظم احتساب عدالت میں پیش ہو کر مقدمات کا سامنا کر رہا ہے۔