بُغضِ آئین میں حسن نثار ضیاءالحق کی بے ہودہ گوئی میں دانش مندی تلاشتے ہیں
نصیر احمد
ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں حسن نثار نے کچھ یوں کہا کہ ضیا الحق نے ایک ہی تو ڈھنگ کی بات کی ہے جب انھوں نے کہا آئین چند کاغذات پر مبنی ایک چِیتھڑا ہے۔
امتیاز عالم صاحب بھی وہیں مجود تھے اور آئین کی بالادستی کی وکالت بھی بے خوفی سے کرتے ہیں، وہ کیسے خاموش رہتے۔ بول اٹھے کہ برا کہا۔
اس پر حسن نثار نے کہا ہے: برا کہا، لیکن سچا ہے۔
اب آئین کی حقارت کے بارے میں حسن نثار صاحب کا موقف کچھ یوں بنتا ہے۔
کہ آئین کی تحقیر ڈھنگ کی بات ہے، بری ہے اور سچی ہے۔
اب حسن نثار صاحب نے اپنی بات کو خود ہی بے معنی کر دیا ہے لیکن ہم راکٹ ہو گئے ہیں اس لیے کچھ نہ کچھ تو کہیں گے۔
ہماری نگاہ میں پاکستان کےآئین میں بہت خرابیاں ہیں کہ آئین میں صنف اور اقلیتوں کے حوالے سے جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کی گئی جس سے اقلیتوں اور خواتین کے انسانی اور جمہوری حقوق تلف ہوتے ہیں۔ آئین میں اسلامی اور نظریاتی قوانین کی موجودی سے ہر کسی کے حقوق تلف کیے جا سکتے ہیں۔ آئین میں چند علاقوں کے باسیوں کے بنیادی حقوق آئینی طور پر موجود نہیں ہیں۔ مرکز اور صوبوں کے تعلقات کے حوالے سے بھی بہت پیچیدگیاں ہیں۔ اور ہمارے خیال میں اداروں اور ان کے دائرہ کار کے حوالے سے بھی آئین میں مسائل موجود ہیں۔
لیکن دوسری طرف بنیادی حقوق موجود ہیں اور آئین کے تحت اقوام عالم سے بہت سارے قانونی معاہدے موجود ہیں جن کے ذریعے زندگی کے معاملات چلائے جاتے ہیں اور چلائے جا سکتے ہیں۔ آئین کے تحت ہی بہت سارے قوانین موجود ہیں جو شہریوں کو انصاف مہیا کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں۔ جیسے صارفین کے حوالے سے قوانین، معاہدوں کے حوالے سے قوانین، صحافت کے حوالے سے قوانین اور حکومت کے حوالے سے قوانین۔
آئین اور اس کے زیر تحت قوانین کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، بگاڑا بھی جا سکتا ہے، اور اچھے قوانین ہر عمل درآمد بہتر بنایا جا سکتا ہے اور معطل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ شہری کس حد تک اپنے آپ کو اچھے قوانین کا مستحق ثابت کرتے ہیں۔ ہم اچھے قوانین اس لیے کہہ رہے ہیں جن عالمی معاہدوں پر ہم نے دستخط کیے ہوئے ہیں وہ انسانی اور جمہوری حقوق سے متعلق ہیں۔ جس میں انسانی حقوق کا عالمی بل،مذہب،نسل، اعتقاد کے حوالے سے امتیازی سلوک کی روک تھام اور اقلیتوں کے تحفظ کا عالمی معاہدہ، خواتین کے حقوق کا بل، غلامی اور غلامی نما رواجوں کے خاتمے کا معاہدہ، غیاب، بد سلوکی اور تشدد سے تحفظ کا معاہدہ، بچوں کے حقوق کا عالمی معاہدہ۔
اس کے علاوہ پاکستان دہشت گردی جنگی جرائم اور جبری مشقت کے خاتمے کے حوالے سے عالمی معاہدوں کا دست کنندہ ہے۔ یہ پاکستان کے دنیا سے وعدے ہیں اور وعدے تو ذمہ داری ہوتے ہیں اور پاکستانی آئین کو ان ذمہ داریوں کے عین مطابق تشکیل دینا ایک قومی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو وعدوں کی، امانت کی، صداقت کے بارے میں بہت گفتگو کی جاتی ہے لیکن ان معاہدوں کے حوالے سے ایفائے عہد کی بات ہی نہیں کی جاتی۔ ساری اخلاقیات کو عالمی سازشوں میں گم کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک رویہ ہے، دولت کی ضمانت بن جائے تو وعدہ خلافی عمومی اور عوامی ہو جاتی ہے۔ صرف خواص تک محدود نہیں رہتی۔ یہ سارے عالمی معاہدے اور سب جمہوری قوانین پاکستان کے آئین کے تحت ہیں۔
اس سب کو ایک ‘بے دین اور نا مقدس’ آدمی نے حقارت سے چیتھڑا کہا اور حسن نثار نے اس آمر کے بیان کو ڈھنگ کی اور سچی بات کہا۔ اب ہم بھی ڈراما تو کر سکتے ہیں لیکن ہماری کسی سے کیا ذاتی دشمنی لیکن آئین اور قانون کے احترام کے بغیر ایک بہتر زندگی کا تصور ممکن نہیں اور اتنے اثرو رسوخ والے چینل کے ذریعے آئین دشمنی اور آمر پسندی کو داد دے کر آئین کے احترام کے تصورات کو رائج نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات سچی ہے کہ آئین، قوانین اور عالمی معاہدوں پر عمل نہیں کیا جاتا لیکن اچھی بات پر عمل نہ کرنے سے اس اچھی بات کی سچائی نہیں ختم ہوتی اگر اس اچھی بات کو سائنسی اور سماجی حقائق کی حمایت حاصل ہے۔ اور جہاں بھی بہتر زندگی ہے جیسے ناروے، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا اور جرمنی، وہاں ایک جمہوری آئین موجود ہے۔
کہیں چند سالوں سے اور کہیں صدیوں سے مگر موجود ہے اور انسانی، حیوانی اور نباتاتی زندگی ان جگہوں پر ایک آئین کے تحت ہی منظم کی جاتی ہے۔ فی الحال تو یہی حقیقت ہے، اور یہ حقیقت نہ رہی تو زیادہ امکانات یہی ہیں کہ زندگی کا معیار ان جگہوں پر بھی گر جائے گا۔
آئین کو جمہوریت کے مطابق کرنے کی بہت ضرورت ہے اور آئین کے جمہوری اصولوں پر مبنی قوانین پر علم درآمد کی بھی بہت حاجت ہے مگر ضیاءالحق کی بے ہودہ گوئی میں دانش مندی اور صداقت دیکھنا اور دکھانا تو انسان دشمن رویہ ہے۔ لیکن ہمارے اکثر اہم اور کامیاب لوگ ضیا الحق کی تشدد اور بدعنوانی پر مبنی سچائیوں کے، وہ کیا کہتے تھے بیالوجی، شیالوجی میں، ہاں یاد آیا طفیلیے اور رفیقیے ہیں، نہ صرف ہمارے اہم لوگ بلکہ ہم میں سے اکثر یا شاید ہم سب شجرِ ظلمت کے مددگار ہیں۔
اب کیا کریں؟ رضا ربانی کی طرح گریہ کریں، یا مصطفٰی کمال کی طرح ٹسوے بہائیں یا کچھ فلمی ہو جائیں۔
کانچا چینا، سالا کتریا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ضیا الحق)
لیکن اس سے نجات جمہوریت، جمہوری اخلاقیات اور آئین و قوانین پر احترام سے ہی ہے اگر اس فریم ورک پر ہم لوگ یقین کر لیں، پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر تو ہمارا سفر ہی شروع نہیں ہوا۔