زندگی کی نقالی نہیں ، ہمیں جینا سیکھنا ہوگا
بلال الرشید
ذائقے کے اعلیٰ انسانی ذوق کو بنیاد بنا کربڑی بڑی کمپنیوں نے کھانے پینے کی ایسی مصنوعات بنائیں ، جو بہت لذیذ تھیں لیکن بتدریج وہ جسم کو ناکارہ کرتی چلی جاتی ہیں ۔ کاربونیٹڈ سافٹ ڈرنکس ان میں سرِ فہرست ہیں ۔ ان میں چینی کا انبار ہے ۔اصولی طور پر یہ صرف ان جانوروں کو دی جانی چاہیے تھی ، جن کو جلدی موٹا کرنے کی ضرورت ہو۔ چینی، میٹھا زہر، کیمیکلز سے بھرپور اور اپنے بنیادی ماخذ گنّے سے بہت دور۔
ایک نامور ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی ۔ کہا، جس قدر شوگر اور جتنا نمک انسانی جسم کو درکار تھا، وہ خدا نے پہلے ہی مختلف غذاؤں میں رکھ دیا تھا۔ انگور میں مٹھاس موجود ہے، انار میں ہے اور کیلے میں بھی۔ لیچی اور چیری میں ایک اور طرح کی مٹھاس ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ چینی اور نمک کی صورت میں ہم نے دو زہر اپنی زندگیوں میں بھر دیے۔ بڑے بڑے سپر سٹورز پر ہر قسم کے چپس ، بسکٹ ، نوڈلز ، میدے کی دیگر مصنوعات اور سافٹ ڈرنکس کے پہاڑ موجود ہیں۔ موٹے موٹے پیٹوں اور موٹی گردنوں والے لوگ اپنی اپنی ٹوکریاں بھر تے جاتے ہیں اور کاؤنٹر کی طرف بڑھتے جاتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ سب ہپنا ٹائز ہو چکے۔
اپنی زندگیوں کو سہولتوں اور ذائقوں سے بھر دینے کی کوشش میں، ہم بھول چکے ہیں کہ زندگی کے اصل ذائقے اور لطف کیا تھے۔ مایونیز سے بھرے ہوئے برگر اور salad سونا ، تلے ہوئے آلو اور گوشت کے ٹکڑے اس سونے پر سہاگہ۔ بنی نوع آدم چلتی پھرتی لاش بن چکا۔ امریکہ اور برطانیہ میں موٹاپا ا س قدر بڑھ چکا ہے کہ ہر جگہ آپ کو چربی کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ پاکستان ، جہاں فاسٹ فوڈکا کاروبار تیزی سے آگے بڑھا ہے ، اب اسی سمت میں بڑھتا نظر آرہا ہے ۔
اب کیا کریں ؟ اچھے سے آرام دہ جاگرز پہنیں ، ہاتھ میں ایک چھڑی لیں اور گلیوں میں نکل جائیں ۔ بتدریج اس چہل قدمی کو پندرہ منٹ ، بیس منٹ ، آدھا گھنٹا اور تین چار ماہ تک ایک گھنٹے پر لے جائیں ۔ شروع میں آہستہ آہستہ چلیں، کچھ ہفتوں بعد رفتار بڑھانا شروع کریں ۔ ایک دن آئے گا کہ جب تیز رفتار چہل قدمی سے آپ کاجسم گرم ہو جائے گا تو وہ اور تیزی سے چلنے بلکہ دوڑنے کی خواہش کرے گا۔ سمجھ جائیں کہ زندگی واپس آرہی ہے ۔ مجھے اپنا عم زاد عزیر امین یاد آتا ہے ۔ بچپن ہی سے موٹاپے کا شکار تھا۔ اب جب امریکہ سے لوٹا تو پہچانا نہ جاتا تھا۔ بتایا کہ چھ ماہ 1200کیلوریز والی خوراک پر گزارے اور ورزش کرتا رہا ۔ عالمی ماہرین کہتے ہیں کہ موٹاپے کی کمی میں خوراک کی اہمیت 80 فیصد اور ورزش کا حصہ صرف 20فیصد ہے ۔ آپ کو اپنی خوراک کو لازماً بدلنا پڑے گا۔ صبح اٹھ کر ایک ٹوکری میں وہ خوراک رکھیں ، جو ڈاکٹر کے مشورے سے 12، 15 سو کیلوریز پر مشتمل ہو۔ (مردوں کے جسم کو روزانہ کم از کم 2500 کیلوریز اور خواتین کو 2000 کیلوریز درکار ہوتی ہیں) ۔ جب آپ کھانے میں اسے اس سے کم توانائی دیتے ہیں تو وہ جسم میں موجود اضافی چربی کے انبار سے یہ توانائی کشید کرنا شروع کرتا ہے اور بتدریج ، بہت آہستگی سے یہ وزن کم ہونے لگتا ہے ۔ یاد رہے کہ اس مسئلے کا کوئی short termحل موجود نہیں ہے ۔ آپ کو کم از کم چھ ماہ کا وقت اپنے ذہن میں رکھنا ہوگا ۔
میں نے 1500 کیلوری ڈائٹ پر عمل درآمد کی بہت کوشش کی ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ باقاعدہ کھانا چھوڑتے ہیں تو معدے میں موجود تیزاب آہستہ آہستہ بڑھنے لگتا ہے ۔ میں چونکہ acid reflux کا شکار ہوں؛ لہٰذا بڑھی ہوئی تیزابیت مزید مسئلے کا باعث بنتی ۔ حل یہ نکلا کہ 24گھنٹے میں توے کی صرف 2روٹیاں ، اس کے علاوہ دو تین پھل، چینی کی جگہ چائے میں شہد کا ایک چمچ ۔ ضرورت پڑنے پر ابلے ہوئے آلو ، چنے یا ان کی چاٹ ۔ تین ماہ میں چھ کلو وزن کم ہوا ۔ پانچ چھ کلو اب بھی باقی ہے ۔ وزن اب مزید کم نہیں ہو رہا کہ water weight ختم ہونے کے بعد اب یہ سخت قسم کی چربی ہے۔ اس کے لیے مزید محنت کی ضرورت ہے لیکن 12میں سے اگر چھ کلو گرام اگر کم ہو جائیں اور وزن میں اضافہ رک جائے، اس کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر جسمانی کام اورصحت مند خوراک ایک معمول بن جائے تو اور کیا چاہیے؟
بہت سے لوگ کامیابی کا معیار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت کماتے رہیں ؛حالانکہ وہ رقم جو اکاؤنٹ یا جائیداد کی صورت میں آپ کے پاس موجود ہوتی ہے اور جسے آپ استعمال نہیں کر سکتے، وہ آپ کا رزق ہے ہی نہیں ۔ حدیث کے مطابق رزق وہ ہے ، جو انسان کھا کر ختم کردے، یا پہن کر بوسیدہ کر دے یا خدا کی راہ میں کسی کو دے دے ۔ میرے خیال میں ایک کامیاب زندگی میں روزانہ کی بنیاد پر کچھ جسمانی کام، کچھ روحانی کام/عبادت اور کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش شامل ہے ۔ ظاہر ہے کہ روزگار کمانے کا فرض تو سب پر عائد ہے ہی اور کوئی بھی اسے نظر انداز نہیں کر سکتا ۔
برطانیہ سے آنے والا ایک دوست یاد آیا۔ کہنے لگا ،تم لوگوں کی طرح ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ کھاناگھر میں بناکر کھا سکیں ۔ ہم تو چلتے پھرتے برگر اورسافٹ ڈرنکس پیتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہمیں کام کرنا ہوتا ہے ، ہم فارغ لوگ نہیں ۔ میں نے ڈھول کی طرح پھولے ہوئے اس کے پیٹ کو دیکھا اور پھر خود سے پوچھا کہ اگر اپنے جسم کے ساتھ وہ یہ سلوک کرر ہا ہے تو پھر اس کام کا benificiary کون ہے؟
اگر آپ اپنے بچّوں کے سامنے کاربونیٹڈ سافٹ ڈرنکس، پیزے، برگر ، تلے ہوئے چپس وغیرہ کھاتے رہتے ہیں تو آپ ان کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ وہ اس طرزِ زندگی کو اختیار کر لیں گے ۔ بیس پچیس سال بعد وہ بھی ایک بیمار جسم کے مالک ہوں گے ۔ اس کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوگی ۔ اگر آپ انہیں کھیلنے کودنے کے لیے نہیں لے جا تے توبھی آپ ان کے ساتھ زیادتی کرر ہے ہیں ۔ انہیں جسمانی بھاگ دوڑ سے پیدا ہونے والی مسرت سے لطف اندوز ہونا سکھائیے ۔ یہ آپ کا فرض ہے۔ اگر آپ نے نوکروں کی ایک فوج ظفر موج پال کر انہیں بستر پر لیٹے رہنے کی ترغیب دی ہے تو بھی آپ قصوروار ہیں ۔ خدا نے یہ زندگی اس طرح سے بنائی ہے کہ ایک خاص حد سے زیادہ ہم اسے آرام دہ نہیں بنا سکتے۔
خالص ترین خوراک کھانے کی کوشش کریں ۔ ابلے ہوئے/ اوون میں پکے ہوے آلو، چَھلی، انگور، آم اور ہر قسم کے پھل، گھر میں بنا ہوا سلاد، (بیکری سے ملنے والے سلاد میں مایونیز ہوتا ہے، جو موٹاپے کاباعث بنتا ہے)، یہ وہ چیزیں ہیں جو خالص ترین ہیں۔ بڑھنے کی عمر والے بچوں کے علاوہ دیگر افراد ایک ہی روٹی کھائیں۔ ہاں البتہ اگر آپ روزانہ بہت سا جسمانی کام کرتے ہیں تو پھر اور بات ہے۔ چینی ، تلی ہوئی چیزیں، مایونیز، برگر، بیکری آئٹمز اور سب سے بڑھ کر سافٹ ڈرنکس، یہ سب چیزیں بیمار زندگی کی علامت ہیں۔ انہیں اپنا طرزِ زندگی
مت بنائیے۔ اپنے جسم کو مشقت سے گزاریے، وہ آپ سے اس کی بھیک مانگ رہا ہے۔
بشکریہ: روزنامہ دنیا