خود ساختہ ترجمان
افتخار احمد
جمعرات کی دوپہر آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس سے بہت سے ایسے سوالات کے جوابات مل گئے جن کے بارے میں کافی عرصے سے میڈیا میں قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں۔ گو اس پریس کانفرنس کو ہمارے صحافی بھائیوں نے رات آٹھ سے گیارہ کے نیوز شوز کی طرح مصالحہ دار بنانے کی بھرپور کوشش کی لیکن میجر جنرل آصف غفور نے بڑی عمدگی سے ان کے سوالات کو deflect کر دیا۔
اس سب سے کم از کم یہ تو ظاہر ہو گیا کہ جنرل صاحب کافی حد تک میڈیا کے رموز و اوقاف سے شناسا ہوگئے ہیں۔ اب بات کر لیتے ہیں اس پریس کانفرنس کے ذریعے دیے جانے والے پیغام کی، جنرل صاحب نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کامیابیاں پاکستانی افواج نے حاصل کی ہیں ان کو نمایاں کیا بلکہ انہیں پاکستانی ریاست کی دہشت گردی ختم کرنے کی کوششوں کے ثبوت کے طور پر بھی پیش کیا۔
دہشت گردی کی جنگ میں اپنی کامیابیوں کا ذکر کرنا اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ضروری تھا جو پاکستان کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر پایا جاتا ہے اور جس کے مطابق پاکستان کی ریاست دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کے کوئی ٹھکانے موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ جو ہمارے ہمسایہ ممالک سے کارروائی کرتی ہیں اور یہی ایجنسیاں ان گروہوں کو مالی معاونت بھی فراہم کرتی ہیں۔
اس سلسلے میں دونوں ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران سے بھی نہ صرف باضابطہ طور پر احتجاج ریکارڈ کروایا گیا ہے بلکہ اس سلسلے میں دونوں ممالک سے درخواست بھی کی گئی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ محاذ بنا یا جائے تاکہ خطے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو سکے۔ اس سلسلے میں آرمی چیف کی افغان صدر سے ملاقات بھی اہم تھی اور آنے والے دنوں میں آرمی چیف اس حوالے سے ایران کا بھی دورہ کریں گے۔
یہ خبر اہم اس لیے بھی ہے کہ افغانستان سے تو کافی دیر سے پاکستان کے حالات کشیدہ تھے لیکن ایران سے بھی معاملات پچھلے کچھ عرصے میں خاص اچھے نہیں رہے ہیں۔ اب آرمی چیف کی جانب سے جس طرح ان دونوں ممالک کی قیادت سے رابطوں کی کوشش کی جارہی ہے اس سے کم از کم ہمارے دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ پاکستان خطے میں موجود مسائل کو حل کرنے کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
میجر جنرل آصف غفور نے جماعت الدعوۃ سے متعلق سوال کا بھی جواب دیا، جس سے بہت سی باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ میرے نزدیک ان کا یہ کہنا کہ ریاست کی پالیسی کے برعکس کسی کو بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہوگی بہت اہم ہے۔ اس سے کم از کم یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نئی ریاستی پالیسی کے مطابق کشمیری مجاہدین کے لیے مین اسٹریم میں جگہ صرف تب ہی ممکن ہے جب وہ ہتھیار کے استعمال کو ترک کر دیں گے۔
آئی ایس پی آر کے ترجمان کی پریس کانفرنس کا زیادہ تر وقت صحافیوں کے سیاسی نوعیت کے سوالات کا جواب دیتے گزر گیا۔ ویسے مجھے اس بات پر کوئی زیادہ حیرت نہیں ہوئی، جب سے ہمارے ہاں نیوز چینل آئے ہیں تب سے سول ملٹری تعلقات کے بارے میں ہی تو سب سے زیادہ بات کی گئی ہے۔ ہمارے کئی دوستوں کے صحافتی کیریئر سے اگر ان پروگرامز کو نکال دیا جائے جو انہوں نے اس موضوع پر کیے ہیں تو شاید ان کے پاس اکا دکا پروگرام ہی دکھانے کو بچیں لیکن ایک کے بعد ایک سیاسی نوعیت کا سوال کر کے نا جانے ہمارے رپورٹر بھائی کیا حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔
جب مختلف حیلے بہانوں سے پوچھے گئے سوالات سے ان کی مرضی کا جواب نہ ملا تو ہمارے ایک بھائی نے تو ڈائریکٹ ہی پوچھ لیا کہ مارشل لا لگانے کے بارے میں فوج کا کیا پلان ہے؟ اب بھلا کوئی ان صاحب سے پوچھتا کہ بھائی اگر فوج نے مارشل لا لگانا ہے، تو کیا وہ پہلے آپ کو اپنا پلان بتائے گی؟
پریس کانفرنس میں جب ایک صحافی نے جنرل آصف غفور سے پاکستان میں موجود ان افراد کے بارے میں استفسار کیا جو افواج پاکستان پر الزامات لگانے کے مرتکب ہوئے ہیں تو جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کی ان باتوں سے دشمن کے نظریے کو تقویت ملتی ہے اور ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ ضروری ہے کہ یہ افراد اس قسم کی قیاس آرائیوں اور الزامات سے باز رہیں۔
میں جنرل صاحب کی بات سے اس حد تک متفق ضرور ہوں کہ افواج پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنانا کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہونا چاہیے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اگر کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی کسی مہم کو چلا رہی ہے تو اس کی ہر صورت میں مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن ایسی ہی مذمت ہمارے ان دوستوں کی بھی کی جانی چاہیے جو کہ افواج پاکستان کے خود ساختہ ترجمان بن کر سویلین قیادت کے خلاف گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان افراد کی باتوں پر یقین کر لیا جائے تو پھر تویقیناََ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افواج پاکستان ملکی سیاسی قیادت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں۔ اگرہمارے چند دوست یہ گفتگو صرف اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کرتے ہیں اور اس کے پیچھے کوئی سچائی نہیں ہوتی تب تو افواج پاکستان کو ان کے خلاف کارروائی کی درخواست کرنی چاہیے۔
ایک طرف تو آئی ایس پی آر کے ترجمان یہ یقین دہانی کرواتے نظر آتے ہیں کہ افواج پاکستان آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کو سر انجام دے رہی ہیں، تو دوسری طرف افواج پاکستان کے خود ساختہ ترجمان ملک میں آنے والے مارشل لا کی نوید سنا رہے ہوتے ہیں۔ اگر دشمن کے خدشات کو افواج پر تنقید کرنے والے تقویت دیتے ہیں تو یہ خود ساختہ ترجمان، آئین سے ماورا جن اقدامات کو افواج پاکستان سے منسوب کرتے ہیں وہ کس کے خدشات کو تقویت دیتے ہیں؟
افتخار صاحب اچھا لکھاہے ….
فوج کی پوزیشن کو سیاسی معاملات میں کمپرومائز کرنے والوں کو اپنی سیاست کرنی چاہیے ناکہ ترجمان بن کر فوج کو ایک پارٹی بنا دیا جائے …اور
فوج کو خود تردید کر دینی چاہیے ….