پاکستان اور عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کا چیلنج
حسین جاوید افروز
پاکستان ان ممالک کی صف میں کھڑا ہے جہاں متواتر گلیشیر پگھل رہے ہیں ،مون سون کے سیزن میں تبدیلیاں ظہور پذیر ہورہی ہیں، ماضی کی نسبت سیلابوں میں خوفناک شدت دیکھی گئی ہے۔ جبکہ زمینی کٹاؤ اورخشک سالی میں بھی گوناگوں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس نے پاکستان کو ان سات ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں خطرناک موسمیاتی تبدیلیاں تیزی سے جنم لی رہی ہیں۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کلائمیٹ چینج ایکٹ مارچ میں سینٹ میں منظور کیا گیا۔ اس نئے قانون کے مطابق کلائمنٹ چینج فنڈ، کلائمیٹ چینج کونسل اورکلائمیٹ چینج اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ بنیادی طور پر ان اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ بد لتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کے آگے بند باندھا جا سکے۔ کلائمیٹ چینج کونسل وزیر اعظم کی زیر نگرانی قائم کی گئی ہے جو کہ اس حوالے سے اہم فیصلہ سازی کرے گی۔ جبکہ کلائمیٹ چینج فنڈ، ریسرچ اور دیگر موسمیاتی منصوبوں میں مدد فراہم کرے گا ۔یہ الگ بات ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کلائمیٹ چینج کے بجٹ میں ساٹھ فیصد کٹوتی کی گئی جو کہ ایک تشویش ناک امر ہے۔
پاکستان میں یہ سوال کئی ماہرین موسمیات کی جانب سے اٹھایا جارہا ہے کہ اس نئے ایکٹ کے پاس ہونے سے کیا موسمیاتی پالیسیوں کا نفاذ بھی ممکن بنایا جاسکے گا ؟ کیونکہ اس سے قبل 1997 میں پاکستان تحفظ ماحولیات کونسل بھی قائم کی گئی تھی لیکن عملاٰ وہ کوئی جاندار کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔ جبکہ ایک رائے یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ حکومت کو نئی وفاقی باڈیز بنانے کے بجائے صوبوں کو اس ضمن میں ہر ممکن حد تک سپورٹ فراہم کرنی چاہیے۔
موجودہ صنعتی دور میں فضائی ،آبی اور زمینی آلودگی کی بدولت فضا میں بعض گیسوں مثلا کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، کلورو فلورو کاربن کا تناسب بہت بڑھ چکا ہے۔ ہوا میں ان گیسوں کی موجودگی گرین ہاؤس اثرات پیدا کرتی ہے اسی گرین ہاؤس کے اثرات کی وجہ سے کرو ارض کا درجہ حرارت میں گوناگوں اضافہ ہورہا ہے اسے ’’عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ ‘‘کہتے ہیں۔ عالمی حدت ہمارے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے اس کی بدولت عالمی سطح پر آب و ہوا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جو کہ ہرگز مثبت نہیں ۔ ہواؤں اور موسموں کے رخ بدل رہے ہیں کچھ خطوں میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور بعض خطے خشک سالی سے دوچار ہیں۔ یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ زمین پر حالات انسان اور دوسرے جانداروں کے لیے ناموافق ہوتے جارہے ہیں۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر اس عالمی حدت کی شدت کے آگے بند نہ باندھا گیا تو آنے والے دور میں تباہ کن سیلاب آئیں گے، برف کے پگھلنے سے سطع سمندر بلند ہوگی اور کئی مخلوقات ناپید ہوجائیں گی ۔دنیا میں ہونے والی بلکہ تیزی سے پھیلنے والی صنعتی ترقی پر ماہرین کے مطابق عالمی حدت کی ایک بڑی وجہ fossil fuel پر انحصار ہے جو کہ قدرتی گیس ،تیل اور کوئلے پر مشتمل ہوتے ہیں چونکہ یہ سب سے سستا اور آسان وسیلہ ہے اسی لیے اس پر بڑھتا انحصار ہمیں تیزی سے تباہی کی جانب لارہا ہے اس تیز رفتار دور میں ذرائع آمدورفت کی ترقی ،بجلی کی پیداوار، زراعت اور صنعت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درکار انرجی اسی fossil fuel سے حاصل ہوتی ہے یوں اس نے ماحول پر مہیب اثرات مرتب کیے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ تیزی سے پھیل رہی ہے ۔یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہماری زمین کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کرابھری ہے۔ فوسل فیول کے جلنے سے بہت سی گیسیں اور دھواں پیدا ہوتا ہے یوں ماحول میں آلودگی پھیلتی ہے ۔علاوہ ازیں کوئلے اور تیل کی کھدائی کے دوران بہت سی زمین ، جنگلات اور جانداروں کی قدرتی آماجگاہیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ یہان ہم دنیا کے مختلف خطوں کا جائزہ لیتے ہیں جہاں تیزی سے رونماء ہوتی موسمیاتی تغیر کا نشانہ بن رہے ہیں۔
سب سے پہلی منزل کینیڈا کے بافن آئی لینڈ ہیں جہاں حد نگاہ تک برف زار تھے۔ اور یہاں کے مکینوں کے مطابق برف اب اتنی نہیں پڑ رہی جتنی پہلے وقتوں میں پڑتی تھی۔اور وہ وقت دور نہیں جب یہاں کا منجمند سمندر بحری ٹریفک کے لیے سود مند ہوجائیگا۔ جبکہ گرین لینڈ میں جو کینیڈا اور یورپ کے درمیان ایک منجمند سرزمین کے طور پر جانا جاتا ہے یہاں بھی گلیشیرز تیزی سے پگھلتے دیکھے گئے اور ان سے تیزی سے پانی سمندر میں گررہا ہے جس سے مستقبل میں سطع سمندر بلند ہونے کا خدشہ پایاجاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر گرین لینڈ کا موجودہ درجہ حرارت ہی برقرار رہے جو کہ دس سال سے ایک جگہ پر کھڑا ہے تو گرین لینڈ میں برف ایک بھولی بسری یاد بن کررہ جائیگی۔ امریکی ریاست فلوریڈاکی داستان غم بھی سن لیں جہاں جنوبی حصے میں اچانک سمندر کی سطع بلند ہوتی ہے اور ریاست کی سڑکیں زیر آب آ جاتی ہیں۔ یاد رہے فلوریڈا کا شمار ان امریکی ریاستوں میں ہوتا ہے جو مستقبل میں سمندر میں غرق ہوسکتی ہیں۔ اب عوامی جمہوریہ چین کی بات ہوجائے جس کو ایک معاشی دیو کی حیثیت حاصل ہے ۔ یہاں پچھلی کچھ دہائیوں میں بے مثال صنعتی ترقی ہوئی ہے پچھلے 35 سال سے چین میں اربن نائزیشن اور صنعت کاری بڑھی ہے ۔ چین دنیا بھر میں کوئلہ جلانے میں نمبرون ہے اسے دنیا کی فیکٹری بھی کہا جاتا ہے لیکن اس ترقی کی قیمت اب چین کو خطرناک فضائی آلودگی کی صورت میں چکانا پڑ رہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ صرف شین ڈانگ اور بیجنگ کی کوئلہ کھپت سارے امریکہ کی کوئلہ کھپت کے مساوی ہے ۔فضا سموگ سے بھری ہوئی ہے ہر وقت چینی عوام ماسک پہنے خود کو بچانے میں جٹی ہوئی ہے ۔یہی آلودہ ماحول کینسر کا سبب بن رہا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق چین کی 9000 سے زائد فیکٹریاں صحت کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ لیکن چینی حکومت نے اب انرجی کے متبادل ذرائع پر بھی کام شروع کیا ہے اور وہاں اب ونڈ اور سولر انرجی پر جنگی بنیادوں پر کام جاری ہے۔
اب کچھ بھارت کی بات ہوجائے جو کہ چین کے بعد دنیا کی ایک بڑی معاشی قوت کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت بھی عالمی حدت سے متاثر ہوا ہے پنجاب سے دلی اور اتر پردیش تک فضا نہایت آلودہ اور زہریلی ہوچکی ہے ۔آج بھی بھارت میں غریب گھرانے اپلوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہیں 30 فیصد بھارتی عوام بجلی تک رسائی نہیں رکھتے ۔بھارتی ماہرین کے مطابق ابھی تو اپلو ں کے ذریعے گزارا کیا جاتا ہے سوچیں یہی آبادی اگر فوسل فیول کو استعمال کرنے لگے تو تصور کریں یہ بحران کہاں تک جائیگا؟
بھارت میں ہریانہ کی ریاست میں کئی ایسے زرعی علاقے ہیں جہاں پانچ گھنٹے میں سارے سال کی بارش ہوجاتی ہے اور باقی سال کسان بارش کے انتظار میں گزارتا ہے۔ یہ سارا قصور امریکہ کا ہے جو عالمی طور پر متبادل انرجی کا حامی ہے مگر عملا کچھ کرنے کوتیار نہیں۔ امریکہ اب لیکچر نہ دے خود مثال بنے۔ ایک امریکی شہری 61 افریقی ،34 بھارتی ،اور 10 چینیوں کے برابر بجلی استعمال کرتا ہے۔چین متبادل ذرائع توانائی استعمال کرنے میں امریکی سے عملی طور پر بہت آگے نکل چکا ہے ۔امریکہ بذات خود دنیا میں سب سے زیادہ فوسل فیول استعمال کرتا ہے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ماحولیاتی آلودگی ایک تلخ حقیقت ہے اور یہی سچائی ہے اسے اب خیال یا تصور سمجھنا ایک فاش غلطی ہوگا۔ کری باٹی، بحر الکاہل کا ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو گزرتے دن کے ساتھ سمندری طوفان کے غضب کا شکار ہوتا رہتا ہے اب حالت یہ ہے کہ اس کے کئی ساحل غیر آباد ہوچکے ہیں۔آبی حیات بھی شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ کئی مچھلیوں کی نسل معدوم ہوتی جارہی ہے اور سمندری نباتات جن میں coral نمایاں ہے تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔
آخر میں انڈونیشیا میں سماٹرا کے رین فارسٹ کی سن لیں جہاں حکومت کمپنیوں کو پام آئل کی کاشت کے لیے دھڑا دھڑ پرمٹ دے رہی ہے اور جنگل کے جنگل کاٹے جارہے ہیں یہ وہ قدرتی ماحول تھا جہاں آج بھی ایک ہی جگہ ہاتھی، گینڈے اور ٹائیگر پائے جاتے ہیں لیکن اس قدرتی ماحول کو پام آئل کے ذریعے پیسے کمانے کے چکر میں جبراٰ قصہ پارینہ بنایاجارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں خطرناک حد تک یہاں کاربن کا اخراج ماحول کو خاکستر کررہا ہے ۔اس سب کے بعد اب ہم کہاں کھڑے ہیں اورعالمی ضمیر کب تک سویا رہے گا۔
ماہرین کے مطابق ہمیں کاربن ٹیکس کی جانب جانا ہوگا بھلے اس بارے امریکی سیاست میں تقسیم موجود ہے ہمیں سگریٹ مہنگے کرنے ہوں گے۔ ساتھ ساتھ ہمیں خصوصاٰ امریکہ کو توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب پیش قدمی کرنا ہوگی۔ اس وقت ڈنمارک 100 فیصد بجلی ونڈ انرجی سے حاصل کرتا ہے۔ جرمنی میں 30 فیصد بجلی سولر سے لی جارہی ہے متبادل ذرائع توانائی سستا ترین ذریعہ ہے جوکہ ماحول دوست بھی ہے ۔سویڈن کوہی دیکھ لیں جو کہ جلد اعلان کرنیوالا ہے کہ ہم دنیا کے پہلے fossil fuel free ملک ہوں گے۔ ماحولیات سے متعلق کوئی معاہدہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک کاربن ٹیکس کا نفاز نہیں ہوتا اور جنگی بنیادوں پر توانائی کے متبادل ذرائع پر منتقلی نہ کی جائے۔
امریکی ریاستوں اوکلوہاما ،کیلیفورنیا ،براعظم افریقہ کے بیشتر ممالک سے مشرق وسطیٰ اور یہاں سے بھارت تک کے کئی علاقے مستقبل میں شدید قحط کاشکارہوسکتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اس دنیا کو جنت کی نظر سے دیکھا جو اب ہماری ہی کرتوتوں کے باعث جہنم بننے جارہی ہے۔ اس زمین نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا اور ایک ہم ہیں جو اس زمین کو تباہ کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔اس پھیلتی ہوئی خوفناک موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہم پاکستانیوں کے لیے بھی کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔ ہمارا ہمالیہ بھی گرم ہوتاجارہا ہے۔
ہماری ساحلی علاقوں پر آباد مینگروز کے جنگلات بھی ہمارے عدم توجہی کے سبب غائب ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے ٹھٹھہ کی زمین تیزی سے سمندر برد ہوتی جارہی ہے۔ کراچی سمندری طوفانوں کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ہمارے شمالی علاقہ جات ، بشمول کشمیر، ہزارہ اور اسلام آباد زلزلے کے حوالے سے انتہائی حساس زون میں واقع ہیں۔ اکتوبر اور نومبر میں لاہور شہر اور پنجاب کے بیشتر علاقے شدید دھند نما ’’سموگ‘‘ کے نشانے پر ہیں جس کی وجہ ٹریفک جام، صنعت کاری اور بھارتی فصلوں کو نذرآتش کرنا بتائی جارہی ہے۔ لیکن ایسے میں ہمارا کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 ہمارے ارض پاک کو عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلیوں کس حد تک تحفظ دے پائے گا یہ بلاشبہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔