تانیثی تنقید
حیدر قریشی
ڈاکٹر شہناز نبی کی پہلی ادبی شناخت ایک شاعرہ کی ہے۔ زندگی کی خوبصورتیوں اور زندگی کی تلخیوں سے لبریزخوبصورت نظمیں اور غزلیں کہنے والی ایک شاعرہ کی حیثیت سے ان کی شناخت مستحکم ہو چکی ہے۔ تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں تو لگ بھگ اتنے ہی مزید چھپنے والے موجود ہیں۔یونیورسٹی میں پروفیسر ہونے کے باعث انہیں تحقیق میں بھی خاصی دلچسپی رہی ہے اور ان کی متعدد تحقیقی کاوشیں کتابی صورت میں سامنے آچکی ہیں۔ مثلاََ لسانیات اور دکنی ادبیات،اردو ڈرامہ،آغا حشر اور صیدِ ہوس، فورٹ ولیم کالج اور حسنِ اختلاط،منشوراتِ بنگالہ،کلامِ نساخ وغیرہ۔تنقید نگار کی حیثیت سے ان کا بنیادی حوالہ تو ترقی پسندہونے کا ہے، لیکن ان کے ہاں ترقی پسند رویوں کے ساتھ تنقید کے نئے عالمی موضوع فیمنزم، تانیثیت کا گہرا اثر ملتا ہے۔
اسی اثر کا نتیجہ ہے کہ ان کے مضامین کے مجموعہ کا نام بھی ’’تانیثی تنقید ‘‘ہے۔۹ مضامین پر مشتمل یہ مجموعہ کلکتہ یونیورسٹی کی جانب سے شائع کیا گیا ہے۔پہلے ایک نظر ان ۹ مضامین کے عنوان دیکھ لیں۔’’عورت اور لغات‘‘،’’اردو میں نسائی نظموں کے موضوعات‘‘،’’مرد ادیبوں کے فکشن میں عورت کا تصور اور کردار‘‘،’’اردو نظم کے فروغ میں خواتین کا حصہ‘‘،’’خواتین افسانہ نگاروں کی تخلیقی حسیت‘‘،’’اردو شاعرات کی نظموں میں لسان کا عمل‘‘،’’اکبر الہٰ آبادی اور تعلیمِ نسواں‘‘،’’سجاد ظہیر کا اشتراکی نظریہ اور خواتین قلم کار‘‘ اور’’ فراق کا تصورِ عشق‘‘۔
شعرو ادب کی دنیا میں لکھنے والی خواتین کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔لیکن ڈاکٹر شہناز نبی توخواتین قلمکاروں کی اہمیت کے ساتھ، انسانی معاشرہ میں خواتین کی اہمیت اور قدروقیمت کو بھی پوری طرح اجاگر کر رہی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی معاشروں میں مرد کی بالا دستی صدیوں سے رائج ہے اور اس کے نسل در نسل اثرات ہم سب میں اتنے پختہ ہو چکے ہیں کہ ایک دم میں انہیں اپنے اندرسے نکال پھینکنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔تاہم اب لگ بھگ ایک صدی سے اور خصوصاََ ربع صدی پہلے سے تدریجاََ مرد اور عورت کے امتیاز کو کم کرنے کے لیے اور انہیں ایک جیسا انسان سمجھنے کے لیے مشرق و مغرب دونوں طرف کئی سطحوں پر کاوشیں ہو رہی ہیں۔ڈاکٹر شہناز نبی کی کتاب’’تانیثی تنقید‘‘کو بھی اسی سلسلہ کی کڑی سمجھا جانا چاہیے۔اپنے مضمون’’مرد ادیبوں کے فکشن میں عورت کا تصور اور کردار‘‘میں انہوں نے مرد کے سپر سیکس ہونے کی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔تاہم انہیں یہ بھی احساس ہے کہ:
’’ایسی دنیا جہاں مرد تو مرد خود عورت ہی اپنے آپ کو مردوں سے کمزور مانتی آرہی ہے۔وہاں عورتوں کے کردار کچھ اس طرح کے ہوا کرتے تھے۔سگھڑ اور وفادار بیوی،خدمت گزار نرس اور اطاعت شعار بیٹی۔‘‘(’’تانیثی تنقید‘‘ ص۳۵)
شہناز نبی کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ:’’مردوں کو سات خون بھی معاف تھے جبکہ عورتوں کی ایک لغزش بھی قابلِ گردن زدنی تھی‘‘(تانیثی تنقید ص۳۶)
اس مضمون میں ڈاکٹر شہناز نبی نے ڈپٹی نذیر احمد اور پریم چند سے لے کر ترقی پسند افسانہ نگاروں سے ہوتے ہوئے بلراج مین را تک جدید افسانہ نگاروں میں عورتوں کے کردار کی مختلف صورتوں کو بیان کیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ ان مرد افسانہ نگاروں کے ہاں ’’عورت کا کردار یا تو سرے سے ہوتا ہی نہیں یا ہوتا ہے تو بہت ضمنی۔ایسا شاید اس لیے ہے کہ پدری سماج عورت کے بدلتے ہوئے روپ کو آسانی سے ماننے کو تیار نہیں۔نئے زمانے کی عورت رشتوں کے بغیر بھی جی سکتی ہے۔اب عورت کی کامیاب زندگی کا مطلب ایک عدد شوہر نہیں۔‘‘(تانیثی تنقید۔ص ۴۴)
مرد افسانہ نگاروں کے ہاں عورت کے جو مختلف کردارسامنے آئے ہیں،ڈاکٹر شہناز نبی انہیں مردانہ سوچ ہی کا انداز سمجھتی ہیں۔تاہم وقت بدلنے کے ساتھ اور خواتین میں بیداری کی نئی لہر کے ساتھ سوچ میں تبدیلی آرہی ہے ۔اور ڈاکٹر شہناز نبی امید کرتی ہیں کہ:’’ ان تبدیلیوں کے درمیان عورت کا کردار بھی ایک نئی ڈیفی نیشن چاہتا ہے‘‘(تانیثی تنقید۔ص۴۵)
نئی ڈیفی نیشن کے سلسلہ میں بعض اشارے تو ان کے ہاں مل جاتے ہیں لیکن پوری طرح نئی ڈیفی نیشن سامنے آجاتی تو اس سے مکالمہ کی راہ نکل سکتی۔یہاں مجھے ایک کشمیری کہانی یاد آرہی ہے۔(افسوس کہ کشمیری افسانہ نگار کا نام یاد نہیں آرہا)۔اسے میں اپنے ہی الفاظ میں بیان کر رہا ہوں۔ایک خوبصورت رقاصہ ایک تیاگی سادھو کو چیلنج کرکے اس کے سامنے اسٹرپ ٹیز طرز کا رقص کرتی ہے۔سادھو اس رقص کو آخری مرحلہ تک بڑی دلچسپی کے ساتھ دیکھتا ہے۔جب رقاصہ اسے بتاتی ہے کہ رقص مکمل ہو گیا ہے تو سادھو کہتا ہے میں تو سمجھا تھا کہ اب تم اپنے جسم کا جامۂ عریانی بھی اتار کر دکھاؤ گی،سو رقص جاری رکھو۔
ڈاکٹر شہناز نبی نے جنسی تلذز کے آپشنز بڑھ جانے کا ذکر کیا ہے ۔اس سلسلہ میں گے ،لزبئن، کلچر کا ذکر بھی کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ کلچر ہمارے سارے معاشروں میں ہمیشہ سے رہا ہے، لیکن چپکے چپکے۔ اب تبدیلی یہ آئی ہے کہ لوگ کھل کر اس پر اظہار خیال بھی کرنے لگے ہیں اور اپنی ترجیح کو بیان بھی کرنے لگے ہیں۔جنسی تلذز کے مزید کئی آپشنز بھی ہیں۔ نامرد حضرات الیکٹرک ڈل ڈو کے ذریعے کام چلا سکتے ہیں اور عورتوں سے بیزار مرد حضرات پلاسٹک کی گڑیاؤں سے بھی کام چلا سکتے ہیں۔ یہ گڑیائیں کمزوری کی کسی صورت پر کوئی طعنہ بھی نہیں دیتیں۔ اسی طرح لزبن خواتین بھی الیکٹرک ڈل ڈو سے کام چلاتی رہتی ہیں۔ پھر’’ می ٹو می‘‘ کی صورت بھی ایک زمانہ سے چلی آرہی ہے۔ہمارے ہاں میرا جی نے کھل کر اس کا اظہار کیا تو آج تک معتوب ٹھہرا ہوا ہے۔
یہاں تک لکھتے ہوئے مجھے خیال آیا ہے کہ آدم کے وجود میں سے حوا کا بنایا جانا اور دونوں میں ایک کشش رکھ دینا۔اگر اسے ایک زاویے سے دیکھا جائے تو کہیں یہ بھی می ٹو می کی ہی کوئی وسیع تر صورت تو نہیں ہے۔ہم اپنے جسم کے کسی گم شدہ حصے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔جنسی تلذز کی مختلف صورتوں کی یہ حکایت دراز ہوئی جا رہی ہے لیکن خوفِ فسادِ خلق کے باعث اسے یہیں روکتا ہوں۔
اس مضمون کے علاوہ ڈاکٹر شہناز نبی نے سجاد ظہیر، اکبر الہٰ آبادی اور فراق گورکھپوری کو عورت کے بارے میں ان کے رویوں کے حوالے سے پرکھا ہے۔یہ تینوں مضامین ادبی دلچسپی کے حامل ہیں۔سجاد ظہیر پرلکھتے ہوئے ڈاکٹر شہناز نبی کا خود ترقی پسند ہونا آڑے آیا ہے۔ سجاد ظہیر کی ترقی پسندی کا لحاظ کرتے ہوئے ہلکی گرفت کی گئی ہے۔ فراق گورکھپوری کے عشقیہ پس منظر کو انہوں نے اوپر مذکور سادھو والی نظر سے دیکھا ہے۔جبکہ اکبر الہٰ آبادی کے معاملہ میں تو سادھو سے ایک قدم آگے بڑھ کر سچ مچ کھال اتارنے والا کام کر دیا ہے۔بات تو سچ ہے مگر بہت بے رحم۔ انہوں نے پورے شواہد کے ساتھ اپنا موقف واضح کیا ہے۔اکبر الہٰ آبادی ساری زندگی خواتین کی تعلیم، انگریزی تہذیب اور انگریز عورتوں کی تضحیک کرتے رہے لیکن خود ان کے بیٹے نے ایک انگریز سے شادی کر لی۔یہ گوشہ ڈاکٹر شہناز نبی کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کے باوجود اکبر الہٰ آبادی کی طنزیہ شاعری میں نئے معاشرے کی نئی عورت کو نشانہ بنانے کاانہوں نے پوری طرح پوسٹ مارٹم کرکے رکھ دیا ہے۔
ان چار مضامین کے علاوہ چار دوسرے مضامین میں ڈاکٹر شہناز نبی نے نسائی نظموں کے موضوعات،نظم کے فروغ میں خواتین کا حصہ،خواتین افسانہ نگاروں کی تخلیقی حسیت اورشاعرات میں لسان کا عمل کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ابتدائی زمانے کی ان خواتین قلم کاروں کا ذکر کیا ہے جواپنا نام تک ظاہر نہیں کر سکتی تھیں۔کوئی حروف ابجد کے اشارے سے ز۔خ۔ش۔(زاہدہ خاتون شیروانیہ)بن کر لکھ رہی تھیں تو کوئی باپ یا بھائی کے نام سے۔لیکن اب تو زمانہ بدل چکا ہے۔ ز۔خ۔ش کی تقلید تو مردوں نے کر لی۔ن۔م۔راشد طرز کے ناموں کو اس انداز کی تقلید ہی کہا جا سکتا ہے۔ پہلے اگر خواتین باپ یا بھائی کے نام سے لکھتی تھیں تو خود میں نے اپنا پہلا افسانہ اپنی اہلیہ کے نام سے شائع کیا تھا۔البتہ جب وہ پہلا افسانہ بے حد پسند کیا گیا تو پھر میری خود غرضی نے میرانام ظاہر کر دیا۔بہر حال ان چاروں مضامین میں ڈاکٹرشہناز نبی نے خواتین قلم کاروں کا ان کی موضوعات سے مطابقت اورتخلیقی صلاحیت کے مطابق ذکر کیا ہے۔ اچھا ذکر کیا ہے۔
مذکورہ بالا آٹھوں مضامین ڈاکٹر شہناز نبی کی تنقیدی بصیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اب میں ان کے سب سے پہلے مضمون کا ذکر سب سے آخر میں کرنے لگا ہوں کہ یہ مضمون ان کی تنقیدی بصیرت کا اظہار نہیں بلکہ ان کی تنقیدی بصیرت کا شاہکار ہے۔’’عورت اور لغات‘‘پڑھ کر سچی بات ہے میں ہل کر رہ گیاتھا۔یہ ٹھیک ہے کہ صدیوں سے انسانی معاشرہ میں عورت کو کم تر درجہ دیا گیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ عورت کو مرد کے برابر لانے کے لیے تدریجاََ کام بھی ہوتا آرہا ہے۔اور اب تو یہ کام بس تھوڑے سے فرق کے ساتھ رہ گیا ہے۔مرد حضرات کھڑے ہو کر سہولت کے ساتھ پیشاب کر سکتے ہیں جبکہ خواتین ایسا نہیں کر سکتیں۔سو مرد کی اتنی سی فضیلت تو ابھی باقی ہے۔جب یہ بھی عملاََ چیلنج ہو گئی تب دونوں کی حیثیت برابر ہو جائے گی۔’’عورت اور لغات‘‘میں عورت کی جو حیثیت سامنے لائی جاتی رہی ہے،اس کے بیشتر حصے بہر حال افسوس ناک ہیں۔یہاں اردو اور انگریزی لغات سے چند مثالیں عبرت کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔
فرہنگِ آصفیہ: عورت۔آدمی کے جسم کا وہ حصہ یا ؑ ضو جس کا کھولنا موجب شرم ہے۔(مجازاََ) زن، استری،ناری،جورو،بیوی،زوجہ۔(ص۔۱۳۸۲)
لفظ زنانہ صفت کے اعتبار سے ان معنوں کا حامل ہے۔ نامرد، ڈھیلا،سست، زن صفت، بزدل۔(ص ۱۰۸۰)
نوراللغات(جلد سوم):عورت۔وہ چیز جس کے دیکھنے دکھانے سے شرم آئے۔ناف سے ٹخنہ تک جسمِ انسان کا حصہ۔
زوجہ۔بیوی،آدمی کے جسم کا وہ حصہ جس کا کھولنا موجبِ شرم ہے جیسے ستر عورت،یعنی شرم کے مقام کا چھپانا
ضرب الامثال:عورت کی ذات بے وفا ہوتی ہے۔عورت سے وفا نہیں ہوتی۔عورت کی عقل گدی کے پیچھے۔عورت بے وقوف ہوتی ہے۔عورت کی ناک نہ ہوتی تو گُو کھاتی۔ عورت ناقص العقل ہوتی ہے۔
(نوراللغات ص۵۷۵)
فیروز اللغات: عورت اور گھوڑا ران تلے (ص۔۹۰۶)
لغاتِ کشوری: عورت۔مردو زن کی شرم گاہ۔وہ چیز جسے دیکھنے اور دکھانے سے شرم آئے۔عورت کو مجازاََ اس لیے عورت کہتے ہیں کہ سر سے پاؤں تک اس کا تمام جسم عورت ہے۔یعنی قابلِ پوشیدہ کرنے اور چھپانے کے۔(ص۵۰۶)
جامع انگلش اردو ڈکشنری(چیف ایڈیٹر کلیم الدین احمد):female کے معنی بچہ یا انڈہ دینے والی صنف۔صفت کے طور پر اسے استعمال کرتے ہوئے اس سے کمزوری، کمتری،سادگی،حماقت اور گھٹیا پن مراد ہے۔ Feminity کے معنی صرف نسوانیت نہیں بلکہ زنخا پن ہے۔ ٖFeminize کے معنی ہیجڑا بنانے کے ہیں۔(ص۵۶۵)
ڈاکٹر شہناز نبی نے اس قسم کے بہت سارے حوالہ جات یکجا کرکے شروع میں ہی اپنے کیس کو مضبوط بنا لیاہے۔اس کے بعد آپ کتاب کو پڑھتے جائیں ۔وہ اپنے موقف کو عمدگی کے ساتھ پیش کرتی چلی جاتی ہیں۔کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر شہناز نبی نے بجا طورپر لکھا ہے کہ:
’’امید ہے میری یہ کتاب اردو ادب میں تانیثی تنقید کی روایت کو مضبوط کرنے کا کام کرے گی اور تانیثی روایت کی ایک اہم کڑی ثابت ہو گی‘‘(تانیثی تنقید۔ص ۱۲)
میں ان کی اس بات کی مکمل تائید کرتا ہوں۔تاہم آخر میں ایک دو نکات مزید غور کے لیے پیش کرنا چاہوں گا۔
۱عورت کا کردار جو نئی ڈیفی نیشن چاہتا ہے،اسے زیادہ واضح کرکے پیش کیا جانا چاہیے۔کیا یہ مردو زن کے برابر کے حقوق تک کا مطالبہ ہے یا اس سے بھی آگے کی کوئی بات ہے؟
۲۔ معاشرتی سطح پر خواتین کے برابر کے حقوق کے لیے کئی تحریکیں اور تنظیمیں اپنی اپنی جگہ موثر طور پر کام کر رہی ہیں۔ادبی دنیا میں خواتین قلم کاروں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اگر تانیثی حوالے سے کام ہوتا رہا تو یہ کام بذاتِ خود ادب کے مرکزی دھارے سے الگ زنانہ ڈبے کے مترادف ہو سکتا ہے۔جب مردوزن کی برابری کی بات ہے تو ادب کی مجموعی فضا کی بات کی جائے،اس میں ادبی طور پر،تخلیقی طور پر مرد قلم کار ہوں یا خواتین قلم کار سب کی ادبی کار کردگی کی بنیاد پر بات کی جائے۔جب ایسا زیادہ احسن طور پر ہونے لگے گا تو لکھنے والوں کے لیے کسی الگ ڈبے کی ضرورت نہیں رہے گی۔لیکن اگر صرف تانیثی ادب پر توجہ مرکوز کی گئی تو نیک نیتی کے باوجود خواتین قلم کار وں کا الگ ڈبہ خودبخود بن جائے گا۔ہر چند ابھی تانیثی ادب کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے ایسی کاوشوں کو سراہا جانا چاہیے لیکن آگے چل کر بہر حال الگ الگ ڈبے نہیں رہنے چاہئیں۔