جذبات، احساسات اور جبلّتوں کو ماپنے والی مشین

Khizer Hayat aik Rozan
خضر حیات، صاحبِ مضمون

جذبات، احساسات اور جبلّتوں کو ماپنے والی مشین

خضرحیات

اب سائنس میں جس قدر ترقی ہو رہی ہے تو کسی بھی قسم کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے اور ممکن ہے کہ وہ پیش گوئی آگے چل کر درست بھی ثابت ہو جائے۔ اس تناظر میں کیوں نہ ہم بھی کسی ایسے ہی سائنسی مفروضے پر غور کرنا شروع کریں جو مستقبل میں حقیقت کا جامہ پہن سکتا ہے۔

ایک خبر کے مطابق سائنسدان ایک ایسی مشین کو ایجاد کرنے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں جو کہ انسانی جذبات، احساسات، خواہشات اور جبلتوں کو ماپنے کا کام کرے گی۔ یہ مشین ایک چِپ یا سم کارڈ کی بدولت آپریٹ ہو گی جسے جسم کے اندر لگا دیا جائے گا۔ اس چپ کو بنیادی طور پر حرام مغز کے ساتھ چپکایا جائے گا اور یہ چپ دماغ سے پیغام لے کر مشین کو ارسال کرتی رہے گی۔ امکان ہے کہ یہ مشین بھوک، پیاس، غصہ، نفرت، محبت، لگائو، دل لگی، سیکس، بلڈ پریشر، دل کی رفتار، طمانیت، استحصال (بشمول جنسی)، رشک، حسد، بدلہ، معافی، نیند، چین، بے چینی، خوف اور ایسے ہی دیگر جذبات و احساسات کی ریڈنگ لے کر ان کی شدت سے متعلق آپ کو آگاہ کرے گی۔

سوچنے لائق بات یہ ہے کہ اس مشین کے فائدے کیا کیا ہونگے؟ یہ مشین صحیح صحیح بتا سکے گی کہ آپ کسی سے سچ میں محبت کرتے ہیں یا نہیں اور اگر کرتے ہیں تو کتنی محبت کرتے ہیں (فیصد میں)۔ مثال کے طور پر خاتون اپنے شوہر کو آئی لوّ یُو کہتی ہے اور شوہر جواب میں آئی لوّ یُو ٹو کہتا ہے تو جب دونوں یہ عمل دہرا رہے ہوں گے تو مشین دونوں کے دل میں دوسرے کے لیے موجزن محبت کی مقدار کو مشین پر ریڈنگ کی صورت میں ظاہر کر دے گی۔ اب دونوں ایک دوسرے کی مشینیں ہاتھ میں لے کر جان سکیں گے کہ کون کس سے کتنی محبت کرتا ہے۔ جھوٹ کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا کیونکہ کئی جھوٹ روزانہ کی بنیادوں پر پکڑے جا رہے ہوں گے۔ یہ مشین انسانی ذہن میں موجود کئی مغالطوں کو ختم کر کے فیصلہ کرنے میں آسانیاں پیدا کر دے گی۔ اس سے آپ کو درست اندازہ ہو جائے گا کہ کس ریسٹورنٹ سے کون سا کھانا کھا کے آپ کا طمانیت کا لیول کیا ہوتا ہے اور گھر میں امی یا بیگم کے ہاتھ کا کھانا کھا کے آپ کو کتنے فیصد اطمینان ملتا ہے۔

اسی طرح مائیں یہ دیکھ سکیں گی کہ انہیں کس بچے سے سب سے زیادہ محبت ہے اور کون انہیں کتنا زہر لگتا ہے۔ محبوب اور محبوبائوں کا یہ مغالطہ بھی رفع دفع ہو جائے گا کہ ان کی پہلی محبت سچی تھی یا پانچویں۔ گرل فرینڈز اور بوائے فرینڈز سچی محبت کے ثبوت میں ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی مشین کی ریڈنگز شیئر کرکے ایک دوسرے کو یقین دلانے میں آسانی محسوس کریں گے۔ آپ کو یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ آپ اگر دس لوگوں سے نفرت کرتے ہیں تو فیصد میں سب سے زیادہ نفرت کس سے کرتے ہیں اور سب سے کم کس سے۔ دفاتر میں یا پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے کب کون آپ کی تعریف کرتا ہے اور کب کون ہراساں کرتا ہے، مشین آپ کو سب کچھ بتاتی رہے گی۔ ایسے موقعوں پر سکرین شارٹس لے کے محفوظ کئے جاسکیں گے جو عدالتی یا پنچائتی کاروائی میں ثبوت کے طور پر پیش کئے جا سکیں گے۔ یہی سکرین شارٹس قیامت کے دن اعمال ناموں میں بھی شامل کئے جائیں گے۔

سائنسی بنیادوں پر جانچ کرتے ہوئے مشین بھوک اور پیاس کی شدت بھی درست طور پر بتا دے گی۔ اپنی سب سے زیادہ بھوک اور پیاس کا سکرین شارٹ لے کر آپ محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو اپنی جدوجہد بمعہ سکرین شارٹس دکھائیں گے تو انہیں آسانی سے یقین آ جائے گا کہ آپ نے اپنی زندگی کتنی مشکل سے بسر کی ہے۔ آپ کو سب سے زیادہ خوف بیوی سے محسوس ہوتا ہے، گرل فرینڈ سے، دفتر میں باس سے یا سسرال سے، مشین سب کچھ ظاہر کر دے گی۔ مشین انسان کو کئی طرح کی الجھنوں سے نکال دے گی اور مغالطوں سے پاک ایک سیدھی سادی زندگی کا حصول سائنس کی بدولت ممکن ہو سکے گا۔

یہ سب تو امیر ملکوں کے چونچلے ہیں اور وہ اس پہ تحقیق کرتے ہیں تو کرتے رہیں۔ ہم تو فی الحال اپنی پوری توجہ، پیسہ اور ٹیلنٹ ان مسائل کو حل کرنے میں لگا دیں گے جن سے اس کائنات کا مستقبل نتھی ہے اور جن کو اگر فی الفور حل نہ کیا گیا تو بہت بڑی تباہی آ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم پہلے تو یہ طے کریں گے کہ کھیرا کاٹنے کا صحیح اسلامی طریقہ کیا ہے؟ شلوار کو کہاں پہ باندھا جانا چاہئیے؟ ڈاڑھی کا سائز کیا ہونا چاہئیے؟ روزے کی حالت میں استنجا کرتے وقت کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئیے؟ اور کدو کھانے سے طبیعت پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

ہماری سمت یقیناً درست ہے۔ ہم نے یہ تو طے کر ہی لیا ہے کہ گاڑی چلانے سے خواتین کا کنوارپن کیسے اور کس حد تک متاثر ہو سکتا ہے۔ رجب طیب اردوان کا بھلا ہو کہ اس نے ڈارون مردود کا نظریہ نصاب سے غائب کروا دیا، اب ترکی کو صف اول کی قوم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں اگرچہ ڈارون کی چھٹی تو نہیں کروا سکے مگر پھر بھی ہم نے احتیاط کے طور پر سائنس کی درسی کتاب میں اس کے نظریئے کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ڈارون کے نظریئے کو سنجیدگی سے لینے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ سراسر جھوٹ پرمبنی غلط نظریہ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چند بڑے بڑے مسائل تو ہم نے حل کر  لیے ہیں اور جو چند ایک رہتے ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے بعد دیکھیں گے کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ تب تک دنیا نئے سیارے دریافت کرتی ہے تو کرتی پھرے، تحقیق کار چاند پر جاتے ہیں تو بھلے جائیں، نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں تو بھلے ہوتی رہیں۔ ہماری سمت درست ہے اور ہمیں اپنے مسئلے چکانے میں کوئی جلدی بھی نہیں ہے۔ یہاں سے فراغت ملے گی تو پھر سوچیں گے کہ کس کس قسم کی مشینیں کہاں کہاں اور کیسے ایجاد ہو رہی ہیں۔

؎ اک حقیقت سہی فردوس میں حُوروں کا وجود

حُسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں

نوٹ: اس خبر کو ادھر ادھر ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ خبر بھی ایک مفروضے پر مبنی ہے اور مفروضہ کب ایجاد میں بدل جائے کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔

1 Trackback / Pingback

  1. چند عالمی سازشیں — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.