اسلام آباد کا کوفہ اور بلوچ طلبا
عابد میر
شہروں کی اپنی ایک فضا ہوتی ہے۔ کچھ شہر اپنی مخصوص علامتوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ جیسے لندن کا تذکرہ ہو گا تو دریائے ٹیمز یاد آئے گا، پیرس کے ساتھ دریائے سین منسلک ہو گا۔ کراچی کا تذکرہ ہو تو ساحلِ سمندر ذہن میں آتا ہے۔ لاہور کے ذکر سے مینارِ پاکستان کی شبیہہ بنتی ہے۔ کوئٹہ کا ذکر ہو تو پہاڑوں اور چشموں کی بات ہوتی ہے۔ اور اگر اسلام آباد کا ذکر ہو تو۔۔۔تو اقتدار کی غلام گردشوں میں لپٹے ایک ایسے شہر کا گمان ہوتا ہے جہاں انسان، عہدوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اور اپنے آغا گل کی بات یاد آتی ہے کہ، ’اسلام آباد عہدوں کا شہر ہے، یہاں کے قبرستان سے بھی گزرو تو صدا آتی ہے، میاں ذرا خیال سے‘ میں بائیس گریڈ کا افسر رہا ہوں۔
اسلام کے نام پر مصنوعی طور پر آباد کردہ اس شہر کی فضا میں کچھ ایسا مصنوعی جادو ہے کہ جو یہاں تک پہنچا وہ پھر ’حب الوطن‘ ہو کر ہی رہتا ہے۔ یہاں سے شہر کو دیکھو تو پاکستان جنت نظیر نظر آتا ہے۔ خوب صورت کشادہ سڑکیں، عالی شان محل نما عمارتیں، بین الاقوامی معیار کی مارکیٹیں، بھرپور آبادی کے باوجود ایک سنجیدہ سانت میں لپٹا شہر، اندر سے کٹھور اور باہر سے معصوم دِکھتا نہات فریب کار شہر۔
ہمارے ہاں تاریخ رہی ہے کہ بلوچستان سے جو اس شہر کو پیارا ہوا، وہ پھر ہمارا نہ ہوا۔ جسے اسلام آباد بھا گیا، وہ پھر اپنے کوہ و بیاباں سے اکتا گیا۔ شاید اسی لیے اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بڈھے بلوچ کی زبانی بلوچ جوانوں کو نصیحت کی تھی کہ، ’’ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا/اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلی نہ بخارا۔‘‘
ہمارے جوانوں کو مگر اسلام آباد کا بخار چڑھا۔ خیال تھا کہ وہاں اعلیٰ تعلیم کے مواقع پائے جاتے ہیں۔ دشت و بیاباں سے نکل کر جائیں گے، کچھ پڑھ لکھ کر آئیں گے تو اپنے وطن اور اہلِ وطن کے کام آئیں گے۔ جن بوڑھے ماں باپ کو یہ خواب دِکھا کر وہ اس شہر کو سدھارے تھے ، وہ اب بھی ان خوابوں کی تعبیر کی تمنا میں جیتے ہیں۔ ان میں جانے کتنوں کو شہر جا کر یہ یاد رہا ہو گا کہ ان کے خوابوں کی تعبیر کے لیے’کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا!‘
جو بھول گئے تھے، وہی رستہ بھولے اور جن ہاتھوں کو علم و قلم تک پہنچنا تھا، وہ ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں تک پہنچے۔ اس بدتہذیبی کے نتیجے میں ان پر علم کے دروازے بند کر دیے گئے۔ وہ جو اپنے گھر کی دہلیز و دروازہ اور وطن کی چھاؤں چھوڑ کر غریب الدیار ہوئے تھے، اب بھلا کہاں جاتے۔ سو‘ ہوش ٹھکانے آئے تو معافیاں مانگیں، زبانی ، کلامی۔۔۔ہر طرح سے معذرت طلب کی۔ مگر اسلام آباد کے سینے میں دل کہاں دھڑکتا ہے!
احتجاج کا راستہ اپنایا تو بے رحم شہر کی بے رحم پولیس نے انہیں روئی کی طرح مسل ڈالا، کلیوں کی مانند کچل ڈالا۔ وہ جوان بدن جو ذرا سی تھکاوٹ میں بھی ماں کی مالش کے عادی تھے، ان پہ کوڑے برسے۔ وہ پیشانیاں جنہیں باپ کے ٹھنڈے بوسے نے، گرم ہوا نہ لگنے کی دعا کے ساتھ پردیس بھیجا تھا، لہولہان ہوئیں۔ وہ ہاتھ ، جن میں بہنوں نے دعائیں بند کر کے بھیجی تھیں، ہتھکڑیوں میں باندھے گئے، زندانوں میں ڈالے گئے۔
اس سارے قصے میں دلچسپ تھے وہ لوگ جو ہمیں نوجوانوں کی بے راہ روی کے قصے اور کڑے ڈسپلن کی کہانیاں سناتے رہے۔ فرمایا، اصل قصہ تو لڑکا لڑکی کے چکر کا ہے۔ یہ بھی خوب کہی صاحب۔ گویا یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیا ں پیار نہ کریں گے تو کیا مدرسے کا مولوی کرے گا۔ یا پھر یونیورسٹی میں پیار محبت کی بندش کا قانون ہی منظور کروا لیں۔ جیسے مردِ مومن، مردِ حق حضرت ضیاالحق کے زمانے میں ’یہاں سیاسی گفتگو منع ہے‘ کے اسٹیکر ہر جگہ چسپاں کرنے کا رواج پڑا تھا، اسی طرح یونیورسٹی میں ’یہاں پیار محبت کرنا منع ہے‘ کے بینر لگوا دیجیے۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ یونیورسٹی حفظِ ماتقدم کے بہ طور طلبا سے داخلہ فارم کے ساتھ ایک حلف نامہ پُر کروا لے کہ یہاں وہ صرف اور صرف ریاست کے مقررکردہ نصاب کی تعلیم حاصل کرے گا، اس کے علاوہ سیاست و محبت جیسی کسی خرافات میں مبتلا نہ ہو گا۔ یوں نہ محبت کا بانس رہے گا، نہ اس پہ کسی مجنوں کے دل کی بانسری بجے گی۔
ڈسپلن کی بھی اچھی کہی۔۔۔ڈسپلن کی دہائی دینے والے وہ معصوم لوگ ہیں، جو عملاً تیسری دنیا کے نظام میں زندگی بسر کرتے ہیں، اور مثالیں جدید یورپ سے لاتے ہیں۔ اُس قائداعظم یونیورسٹی کے لیے آکسفورڈ اور کیمبرج کی مثالیں دیں گے، جس کا وائس چانسلر نوجوانوں کے تفریحی ناچ کو بے حیائی اور سگریٹ نوشی کو منشیات فروشی قرار دیتا ہے۔ حضورِ والا، دستار سر پہ اچھی لگتی ہے، مگر پہلے وہ سر بھی لائیے جو دستار کا اہل ہو۔
اور ایک طرف کسی قسم کی شرم و حیا اور اخلاقیات سے عاری یہ ’مین اسٹریم میڈیا‘ کی منڈی۔۔۔جہاں ہر جنس ارزاں بکتی ہے، بلوچ نوجوانوں کو علم دشمن ثابت کرنے کی اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اخبارات میں تو خبر کا بلیک آؤٹ رہا۔ میڈیا چینل چیختے چنگھاڑتے رہے کہ طلبا نے علم کی دھجیاں بکھیر دیں، نہ پڑھیں گے نہ پڑھنے دیں گے کا نعرہ بلند کر دیا۔۔۔ جب کہ ان کا رونا ہی یہی تھا کہ انہیں پڑھنے دیا جائے۔ یونیورسٹی کے بے دخل کیے جانے کے سوا، ہر نوع کی سزا انہیں قبول ہے۔
یہ کوئی تھڑے باز طلبا نہیں، علم کی پیاس ہی انہیں اپنے کوہ و بیاباں سے یہاں تک کھینچ لائی تھی۔ ان میں سے کسی کو بھی بٹھا کر اس کے مضمون کو ٹیسٹ لے لیں، فیل ہو جائے تو گھر نہ بھجوائیں سیدھا جیل بھجوا دیں۔ ان سے عالمی سیاست کے چڑھاؤ اور اُتار سے لے کر فلسفے کے اَسرار تک پہ بات کر لیں، یہ آپ کے میڈیائی جوکروں سے کہیں زیادہ سنجیدہ گفتگو کرتے ملیں گے آپ کو۔۔۔مگر یہ میڈیا ہے، ماں تھوڑی ہے کہ ان کی فریاد سنے!
ہم نے اپنے جوان اس دن کے لیے اسلام آباد نہیں بھجوائے تھے کہ ہمیں ان کی لاٹھی زدہ پیٹھ اور لہولہان پیشانیاں دیکھنے کو ملیں۔ اس شہر میں اسلام تو کبھی آباد نہ ہو سکا، لگتا ہے کہ انسان بھی کم پڑ گئے ہیں۔ سنا ہے اس نیم جنگل نما شہر میں رات کو بھیڑیے راستوں پہ نکل آتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو شاید معلوم نہ تھا کہ یہ بھیڑیے ، کوئی وردی پہن کر دن دیہاڑے حملہ آور بھی ہو سکتے ہیں۔
بلوچ تاریخ میں ایک روایت یہ رہی ہے کہ بلوچوں کا ایک طائفہ نواسہ رسول کا ساتھ دینے والے قافلے میں شامل تھا۔ جن پہ کوفیوں نے ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ آج بھی تاریخ میں ’کوفی‘ ظالم اور بے درد ترین انسان کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔ بلوچ جوانوں پہ ہونے والے بہیمانہ تشدد نے اسلام آباد کے کوفی کردار پہ ایک اور مہر لگا دی ہے۔ ان کے بدن پہ لگا ہر زخم، اس شہرِ بے مہر کے کوفہ ہونے کی مُہر ہے۔
البتہ اس کے نتیجے میں کراچی سے کشمور، کوئٹہ سے قلات اور گلگت سے گوادر تک ان طلبا کے لیے جو یک جہتی پیدا کی ہے، وہ ان کی بے بسی کی آواز بن گئی ہے۔ جو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اسلام آباد کے کوفیوں کو للکار کر دعوت دے رہی ہے،
آ، اے ستم گر ہنر آزمائیں
تُو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں
بلوچ جوانوں کے سینے، ایک بار پھر اسلام آباد کے تیروں کے سامنے ہیں۔ وہ سینے جو علم کی پیاس سے بھرے ہیں، دیکھیے اسلام آباد کا کوفہ وہاں نفرت اور تعصب کے کتنے چھید کر سکتا ہے!
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.