ٹلرسن کی ڈُومور کی گردان : پاک امریکہ تعلقات میں بڑھتا ابہام
حسین جاوید افروز
پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی خارجہ امور میں نہایت ہی کٹھن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت دنیا دو بڑے بلاکس سویت یونین اور امریکہ میں بٹی ہوئی تھی ۔ایسے میں پاکستان کے لیے راستہ چننا خاصا مشکل تھا کہ آیا وہ کمیونسٹ بلاک کی جھولی میں گر جائے یا امریکی بلاک کا ہاتھ تھام لے۔ تاہم ابتداء میں ہی ہماری قیادت اس دور کے خارجہ تعلقات کی حساسیت کا ادراک نہ کر سکی اور ہم نے نیشنل سیکیورٹی کو اپنا قومی بیانیہ بناتے ہوئے امریکی کیمپ میں شمولیت حاصل کر لی ۔یوں بتدریج ہم نے جہاں امریکی دفاعی معاہدات سیٹو اور سینٹو میں ممبر شپ حاصل کی جس سے ہمیں خاطر خواہ دفاعی اور معاشی مدد بھی ملی۔ وہاں ہم کمیونسٹ بلاک کی ناراضی بھی مول لیتے گئے جس کا ہمیں مستقبل میں خاصا نقصان بھی ہوا ۔
اس دور میں مغرب کے ساتھ ایک طویل المدتی شراکت داری نے اگرچہ پاکستان کو وقتی استحکام عطا کیا لیکن امریکہ کے جنوبی ایشیاء میں ایک سرگرم اتحادی ہونے کے باوجود امریکہ کی نظر کرم ہمیشہ بھارت پر ہی ٹکی رہی ۔ جس کا واضح ثبوت بھارت چین جنگ 1962 ہے جس کے دوران بھارت کو وسیع پیمانے پر امریکہ نے دفاعی امداد فراہم کی۔ اس سے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ بعد ازاں 1965 کی جنگ میں جس طرح امریکہ نے ہم پر دفاعی پابندیاں عائد کیں اس سے ہم دفاعی طور پر کمزور ہوتے چلے گئے اور اس کا خمیازہ ہمیں 1971 میں بھگتنا پڑا ۔ اگرچہ بھٹو نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھتے ہوئے امریکہ سے بہتر تعلقات کی سعی کی لیکن بحیثیت مجموعی 1979 تک پاک امریکہ تعلقات میں دوریاں کم نہیں ہوسکی ۔جس کی ایک وجہ پاکستان کی چین کے ساتھ بڑھتی قربتیں بھی تھیں۔
یہ درحقیقت دسمبر 1979 میں سویت یونین کی افغانستان پر چڑھائی ہی تھی جس نے امریکہ کو اس کے مدتوں پرانے دوست اور آزمودہ اتحادی اسلام آباد کی یاد دلائی اور کارٹر اور بعد ازاں ریگن انتظامیہ نے پاکستان کو امریکی خارجہ پالیسی کا کلیدی پتھر قرار دینے کا راگ الاپنا شروع کیا ۔ یہی نہیں اسی افغان جنگ کے طفیل امریکہ نے ہمارے جوہری پروگرام پر بھی آنکھیں بند کر لیں اور جنرل ضیاء الحق کو سویت یونین کے دیو کو گرانے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی۔ پاک امریکہ رومانس کے ان بلندیوں کو چارلی ولسن وار ، ریمبو اور ڈے لائٹ جیسی فلموں میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے جس میں افغان مجاہدین کو ہیروز کے طور پر اجاگر کیا گیا۔
خیر جنیوا معاہدہ 1988 کے بعد امریکہ نے اپنے مفادات کی تکمیل پر پاکستان سے نظریں پھیر لیں اور اور افغانستان میں طوائف الملوکی اور انارکی کا انبار چھوڑ کر واپس چلا گیا ۔1989 تا 2001 کے دور میں واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان ہمارے جوہری پروگرام اور ایٹمی دھماکوں کو لے کر بد مزگی اور بے اعتنائیوں کے طویل دور چلے۔ اور پاکستان میں پاک امریکہ تعلقات کو patron /client relationship کے طور پر دیکھا جانے لگا ۔جس کے مطابق امریکہ کو جب اپنے مفاد کے تحت خطے میں کسی تزویراتی مقصد کو مکمل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اپنی جغرافیائی حیثیت کی بدولت پاکستان اس کا منظور نظر بن کر ابھرتا ہے ۔ لیکن اپنے مفادات کے حصول کے بعد امریکہ چلتا بنتا ہے۔
ایسے میں نائن الیون کا سانحہ دونوں ممالک کو ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف گلوبل الائنس میں ایک دوسرے کے ہم رکاب ہوکر طالبان حکومت کے انہدام پر مجبور کر دیتا ہے ۔ جس کے بعد سے ہماری مغربی سرحد کی دہک آج تک ختم ہونے میں نہیں آ رہی ۔ 2006 سے امریکہ میں پاکستان خلاف ڈو مور کی رٹ بلند ہونا شروع ہوگئی اور ساتھ ہی ڈبل گیم کھیلنے کے الزامات بھی جڑ پکڑ گئے ۔اگرچہ اوباما نے اپنے دور میں افپاک پالیسی کے تحت افغانستان اور پاکستان کو فوکس کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ مگر سال 2011 میں اسامہ بن لادن کی موت، ر یمنڈ ڈیوس اور پھر سلالہ چیک پوسٹ پر حملے نے ایک بار پھر پاک امریکہ تعلقات کو گراوٹ تک پہنچا دیا۔
اوباما دور میں پاک امریکہ تعلقات میں اس کلیدی شراکت کا احیاء نہیں ہوسکا جو کہ آئزن ہوور اورریگن کے ادوار کا خاصا ہوا کرتا تھا۔ 2016 میں صدارتی الیکشن جیت کر ڈونلد ٹرمپ امریکی صدارت پر براجمان ہو جاتے ہیں اور ایک ری پبلکن کے طور پر ان سے امیدیں باندھ لی جاتی ہیں کہ وہ پاکستان کے حوالے سے ایک قابل قدر رویہ اختیار کریں گے۔ لیکن 21 اگست 2017 کو ٹرمپ کی افغان پالیسی اسلام آباد کو نئے خدشات اور چیلنجز سے دوچار کر دیتی ہے۔ اس پالیسی کے مطابق پاکستان کو دہشت گردوں خصوصاٰ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ڈو مور کی سخت تنبیہ کی گئی۔ جبکہ اس کے ساتھ اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دینے اور عسکری امداد کی کٹوتی پر بھی غور کیا گیا۔ نیز یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اپنا رویہ بدے ورنہ بہت کچھ کھونا پڑے گا ۔ جبکہ ٹرمپ نے افغانستان میں نئی دلی کے کردار کو سراہا۔
ٹرمپ کی اس اشتعال انگیز تقریر کے بعد پاک امریکہ تعلقات کا گراف تیزی سے گرا ۔اسلام آباد نے امریکی صدر کے ڈو مور منترا کو یکسر مسترد کر دیا ۔اور امریکی نائب وزیر خارجہ کے دورے اسلام آباد کو بھی کینسل کردیا۔ تاہم 13 اکتوبر کو امریکی جوڑے کی کرم ایجنسی سے بازیابی کے لیے پاک فوج کے کامیاب آپریشن نے ٹرمپ کو اپنا رویہ بدلنے پر مجبور کیا اور امریکی صدر پاکستان کے گن گاتے نظر آئے۔ 24 اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان کے دورے پر آئے اور سیاسی و فوجی قیادت سے افغانستان ،دہشتگردی کے تدارک کے حوالے سے مذاکرات کیے۔ جس کے تحت طے پایا کہ امریکہ پاکستان سے کچھ شرائط کے تحت ہی تعلقات جاری رکھے گا۔ ٹلرسن نے نے پاکستان کو 75 مطلوب افراد کی فہرست بھی فراہم کی تا کہ ان کی سرکوبی کے لیے کام شروع کیا جائے جن میں سرفہرست نام حقانی نیٹ ورک کا ہے۔
تاہم پاکستانی قیادت نے یک زبان کو ہو کر امریکی وزیر خارجہ کو واضح پیغام دیا کہ پاکستانی سرزمین پر دہشتگردی کے نیٹ ورک کو کچل دیا گیا ہے لہذا ڈو مور کی غیر ضروری دہرائی سے گریز کیا جائے ۔چےئرمین سینٹ رضا ربانی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی امریکہ پر واضح کیا کہ امریکی وزیر خارجہ ، وائسرائے بننے کی کوشش نہیں کریں ۔ ہم نے ماضی میں امریکہ دوستی کی پاداش خاصے مہلک نتا ئج کا سامنا کیا ہے ۔اب اسلام آباد اپنے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور ماضی میں بڈ بیر ایئر بیس اور ایک فون کال پر افغان جنگ میں کودنے جیسے ہولناک فیصلے نہیں کیے جائیں گے ۔
پاک امریکہ تعلقات کا مستقبل تا حال خاصا مبہم دکھائی دیتا ہے ۔کیونکہ ٹلرسن نے 25 اکتوبر کو دلی میں ایک بار پھر پاکستان کو ڈو مور کا درس دیا ہے ۔جبکہ بھارت کو ایف سولہ اور ایف اٹھارہ طیاروں کی فراہمی پر بھی آمادگی دکھائی ہے اور اسے فطری اتحادی قرار دیا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ ٹرمپ کے بڑھتے رومانس کی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ افغانستان میں سیکیورٹی کے حوالے سے بھارتی افواج کی تعیناتی کا خواہاں ہے ۔اور نئی دلی کو مستقبل قریب میں اس حوالے سے اس کڑوی گولی کو نگلنا ہی ہوگا ۔کیونکہ جنوبی بحیرہ چین میں بھارت چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی دفاعی امداد کا شدت سے متمنی ہے تاکہ اپنی فوج کو جدید تقاضوں کے سانچے میں ڈھال سکے۔
امریکہ کو پاکستان سے حالیہ برسوں میں نہ صرف حقانی نیٹ ورک بلکہ سی پیک جیسے عظیم منصوبے میں چین کے ساتھ طویل المدتی شراکت داری پر بھی تحفظات رہے ہیں ۔امریکہ جنوبی ایشیائی خطے میں بھارت کو سب سے بڑے تزویراتی کھلاڑی کے طور پر ابھارنا چاہتا ہے۔ جبکہ پاکستان اور چین کے لیے یہ امریکی اپروچ ناقابل قبول ہے۔ علاوہ ازیں افغانستان کے علاقائی تناظر میں بھی صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی تاحال الجھاؤ کا شکار نظر آتی ہے ۔ جواب افغا نستان میں 3900 مزید پرائیوٹ کنٹریکٹرز کے خفیہ آپریشنز پر تکیہ کر کے زمینی حقائق کو بدلنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن افغانستان میں داعش اور طالبان کا بڑھتا اثر و نفوذ امریکی اور افغان حکومت کی واضح ناکامی ہے جس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ گہرے سیکیورٹی خطرات کے سبب ریکس ٹلرسن بگرام ایئر بیس میں ہی صدر اشرف غنی سے ملاقات پر بضد رہے۔ جبکہ پچھلے سولہ برس میں افغان جنگ میں 783 ٹر یلین ڈالر جھونکنے اور 3000 امریکی فوجی مروانے کے بھی بعد امریکہ مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرپایا۔
اور تو اور امریکہ کی ہی تربیت یافتہ افغان آرمی کا حال یہ ہے کہ ڈیڑھ سال میں 9 ہزار افغان فوجی اپنی زندگی ہار چکے ہیں۔ اس تمام تر بحث کے بعد سچی بات تو یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کے جنگ زدہ ماحول سے لہو لہان افغان معاشرے کی تعمیر نو سے کوئی سروکار نہیں رکھتا ۔اس کا درد سر طالبان ،چین اور روس کے بڑھتے اثرو رسوخ کے آگے بند باندھنا ہے۔ تاکہ افغان معدنیات جن میں لوگر کا تانبہ اور کئی ٹریلین ڈالرز کی دیگر معدنیات شامل ہیں ان پر غلبہ حاصل کر سکے۔
لیکن اپنی تمام تر قوت کے باوجود افغانستان میں امریکہ اپنی ناکامی کا نزلہ اسلام آباد پر ہی گراتا ہے جو کہ ایک غیر منطقی اپروچ کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسلام آباد بھی امریکہ کے ساتھ وقتی حربی شراکت کے بجائے چین ،روس اور ترکی کے ساتھ گہرے حربی معاشی تعلقا ت قائم کرنے کو ہی اولیت دے رہا ہے ۔اب اسلام آباد جہاں امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے معاندانہ پالیسی کے مفاہیم و مضمرات سمجھ چکا ہے وہاں اس کے سیاسی اور عسکری حلقوں میں یہ سوچ بھی جاگزیں ہو چکی ہے کہ اب کہ وقت آ گیا ہے کہ اپنے قومی مفادات پر مبنی بیانیے کی تشکیل کی جائے اور تضادات پر مبنی پالیسیوں سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔