طب، ایک مقدس پیشہ اور فرینڈ ریکوئسٹ
از، عظیم نور
میرے ایک دوست نے کچھ ماہ پہلے مجھے بتایا کہ ہمارے ادھر کے ایک مشہور ڈاکٹر صاحب کے پاس ان کی پڑوسی خاتون دوائی لینے گئی۔ انجکشن لگاتے وقت بازو ہاتھ میں پکڑا اور لڑکی سے کہا کہ مجھے تم اچھی لگی ہو، مجھ سے دوستی کرو ، ورنہ تمہیں اتنا بدنام کروں گا کہ تم گھر سے باہر نکلنے کے قابل نہیں رہو گی۔ لڑکی نے آئندہ ان سے چیک اپ کروانا بند کر دیا۔ لاہور میں میری ایک جاننے والی خاتون کمر کی تکلیف میں مبتلا تھیں، ڈاکٹر نے چیک اپ کے بہانے ان کے جسم کو غیر مناسب طور پر چھونا شروع کر دیا۔ وہ وہاں سے بہت مشکل سے جان چھڑوا کر آئیں۔ ایسے اور بہت سے واقعات ہیں جو ہر شہر میں سننے کو ملتے ہیں۔
بہت سے اسٹوڈنٹ جانتے ہیں کہ کئی ایک یونیورسٹی اور کالج لیکچررز اسائنمنٹ کے نمبرز لگانے کا لالچ دے کر اپنی اسٹوڈنٹس کو بلیک میل کرتے ہیں۔ خواتین اسکول اساتذہ کو دفتر کے کلرک میسجز کرتے ہیں۔ ہر اسکول ٹیچر کم از کم ایک ایسے افسر کو ضرور جانتا ہے جو کسی اسکول میں بار بار صرف اس لیے جاتا ہے کہ وہاں اسے کوئی ٹیچر پسند آ گئی ہے۔ بنک یا پرائیویٹ سیکٹر میں افسران اپنے ماتحت عملہ کو کس کس ہتھکنڈے سے بلیک میل نہیں کرتے۔ یہ سب تو چھوڑیں، ایک خاتون بس ایک دن موبائل لوڈ کروا لے، لوڈ والے، اس کے دوست اس لڑکی کو کالز میسجز کر کر کے اس کا جینا حرام کر دیں گے۔ بڑے شہروں میں یہ شکایات بہت عام ہیں کہ کوئی خاتون اُوبر یا کریم سے سفر کرے تو اسے رات گئے کالز آنا شروع ہو جائیں گی۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیوں کہ ڈاکٹر سے لے کر اُوبر کا ڈرائیور یہ جانتا ہے کہ کوئی میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ عورت شکایت کرے گی تو کس سے؟ پولیس اسٹیشن جائے گی؟ محرر ایسی تفصیل پوچھے گا کہ پاؤں کے نیچے سے زمین نکل جائے گی۔ اور بدنام تو آخر میں عورت ہی ہو گی نا۔
کہتے ہیں کہ اگر کسی ایک غلط کام کو بار بار کیا جائے تو ایک وقت آتا ہے کہ یہ سب ٹھیک لگنے لگتا ہے اور یہی سب کچھ ہوا جب شرمین عبید چنائے کی بہن کو ایک ڈاکٹر کی طرف سے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی گئی اور انہوں نے ٹویٹر پر اس حرکت پر احتجاج کیا۔ اس جرم میں ڈاکٹر کو اس کی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا تو کئی ایک کو حتیٰ کہ معید پیرزادہ جیسے جرنلسٹ کو ڈاکٹر معصوم نظر آتا ہے کئی ایک کے نزدیک فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنا تو جرم ہی نہیں، لڑکی کو ڈیلیٹ ریکوئسٹ کی آپشن میسر ہے۔ بعض کا یہ خیال ہے کہ چونکہ شرمین عبید چنائے لبرل ازم کے سہارے سے جہاں چاہے جس سے چاہے تصاویر بنواسکتی ہے تو اسے یا اس کی بہن کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے پر اتنا واویلا کرنے کی کیا ضرورت؟ بعض کو لگتا ہے کہ یہودی و صیہونی فنڈنگ سے ایک اور ڈاکومینٹری بننے کو ہے جس پر وہ لوگ دوبارہ اسے آسکر دیں گے۔ مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں۔میں کچھ باتیں آپ کے حضور پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ہیپوکریٹک اوتھ Hippocratic Oath کے بارے توسبھی جانتے ہونگے۔ یہی کہ ڈاکٹر کبھی بھی مریض کو نا نہیں بولے گا۔یہ حلف ہر ڈاکٹر اٹھاتا ہے۔ ایمانداری سےبتائیں کہ آپ ایسے کتنے ڈاکٹرز کو جانتے ہیں جو ہیپوکریٹک اوتھ کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔ اب یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم ایسے معاشرہ کے باسی ہیں جہاں ایسے ڈاکٹر کو “وڈا ڈاکٹر “سمجھا جاتا ہے۔ مہذب معاشرہ میں ڈاکٹرزکو جب پریکٹس کا لائسنس ملتا ہے تو ہیپوکریٹک اوتھ کے علاوہ بھی بہت سی اخلاقی اقدار ہیں جن کی انہیں پیروی کرنا ہوتی ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے مریضوں سے کسی بھی صورت سیکسوئل نوعیت کا تعلق یعنی ڈیٹنگ، سیکس وغیرہ نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی بھی رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنر کسی ایسے عمل میں جواخلاقی پستی کے زمرے میں آئے کا مرتکب ہو ، اس کا لائسنس تاحیات معطل کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی ویب سائٹ پر اس حوالے سےقوانین موجود ہیں۔ وقت ملے تو ضرور مطالعہ کریں۔ بالکل ایسے ہی آپ کو یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں ایسی مثالیں ملیں گی جہاںمیل اور فی میل دونوں اساتذہ کو اپنے شاگردوں سے سیکسوئل ریلیشن شپ رکھنے، فلرٹ کرنے پر سزائیں ملیں، انہیں جیل بھیجا گیا اور جج نے انہیں استاد جیسے مقدس پیشہ پر دھبہ قرار دیا۔
اب اگلی بحث کہ کیا فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنا ایسا فعل ہے جو اخلاقی پستی کے ذمرے میں آتا ہے؟
بالکل۔ پہلی بات تو یہ کہ ڈاکٹر کبھی بھی ، کسی بھی صورت میں اپنے مریض سے ذاتی نوعیت کے تعلقات قائم نہیں کر سکتا، نا ان کو خود سے سٹارٹ کر سکتا ہے۔ اور دوسرا کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے فرینڈ ریکوئسٹ ان کو مزید میڈیسن ریکمنڈ کرنے کے لیے بھیجی تھی؟ سب سے اہم بات کہ کسی بھی اجنبی کو ، کسی بھی ایسے فرد کو جسے آپ جانتے نہیں ہیں اس کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے سے پہلے فیس بک بھی آپ کو متنبہ کرتی ہے۔ اور اگر آپ ایسا عادتاً کرتے ہیں، اور آپ کی کئی ایک فرینڈ ریکوئسٹس مسترد ہوئی ہیں تو فیس بک آپ سے اپنا یہ فیچر کچھ دنوں کے لیے چھین لیتا ہے۔ کسی اجنبی کو میسج کرنا تو پاکستان میں بھی قابلِ گرفت جرم ہے۔ سر آغا خان میڈیکل یونیورسٹی اور ہسپتال بڑے ادارے ہیں۔ ان کے ہاں کوڈ آف کنڈکٹ بالکل واضح ہوتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں کو ہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔
تعلیم، صحت اور انصاف انسان کی بنیادی ضروریات ہیں، اگر ان کے حصول کے لیے باہر نکلنے والی خواتین کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے اور ایسی باتوں کی مذمت بھی نا کریں تو ہم کس طرح کے لوگ ہیں۔ یہ سب قوانین اور ان کے اوپر وویمن ہراسمنٹ قوانین کیا ہم نے صرف دفتروں میں گرد پڑنے کے لیے بنائے ہیں؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شعبہ میں موجود ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اور ایک لمحہ کے لیے یہ سوچیں کہ شرمین عبید چنائے کی بہن کو نہیں، یہ فرینڈ ریکوئسٹ کسی ڈاکٹر نے آپ کی بہن کو بھیجی ہے، کیا تب بھی آپ یہی کہیں گے کہ فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنا اتنا بڑا گناہ نہیں؟ چلیں چھوڑیں! اجازت دیجیے۔ والسلام