عدل جو گراں ہو، انصاف تو کیجیے : اداریہ، ایک روزن
لفظ ڈاکٹر تاریخی طور پر کسے اعلٰی پڑھے لکھے اورعالم انسان کے لیے مُستَعمل رہا۔ اس میں طب سے کچھ مخصوص مناسبت نا تھی۔ جنہیں ہم آج پچھلی کچھ دھائیوں اور صدیوں سے انگریزی زبان میں آتی تبدیلیوں کے نتیجے میں معروف معنوں میں ڈاکٹر کہنا شروع ہوچکے، فزیشن یا سرجن کہلاتے رہے ہیں۔ اس تمہید کے پیچھے کچھ توقعات کا ارتباط قائم کرنا تھا۔
کچھ دنوں سے آغا خان یونیورسٹی اسپتال کراچی کے ایک ڈاکٹر کی جانب سے معروف دستاویزی فلم ساز و ہدایت کار، محترمہ شرمین عبید چنائے کی ہمشیرہ کو بھیجی جانے والی فرینڈ ریکوئسٹ (friend request) کے گرد سماجی ذرائع ابلاغ پر تند و تیز بحث چل رہی ہے۔
یہ بحث ایک پہلو سے خوش آئند ہے کہ پیشہ ورانہ اخلاقیات (professional ethics) جیسے بامعنی موضوعات بھی ہمارے عوامی، علمی و ملحقہ علمی حلقوں کی بحث و تمحیص اور مکالمہ (public discourse) کا حصہ بنے ہیں۔ ناخوش کرنے والا پہلو یہ ہے کہ اس بحث و تمحیص اور مکالمہ میں وہی چند پرانے چلن ہیں، وہی صنفی بے حسی ہے، وہی دُٖم کو پکڑ کر چہرا جاننے کی روایت برقرار ہے۔ موضوع بحث واقعہ کے کرداروں کی نجی زندگی ایک تسلسل سے رگیدی جا رہی ہے۔
سیاق و سباق محترمہ شرمین عبید چنائے نے سماجی ذرائع ابلاغ پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ وطن عزیز میں حدوں اور سرحدوں کا تصور تقریبا ناپید ہے۔ مزید یہ کہ ان کی ہمشیرہ جو آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں انتہائی نگہداشت کے لیے داخل ہوئیں وہاں کے ایک معالج نے ان کی ہمشیرہ کو فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیج کر انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ معالج صاحب جنہیں اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی کی سرحدوں اور حدوں کا ادراک و احساس نہیں، نے کسی غلط خاندان کا انتخاب کیا ہے۔
گو کہ اس معاملے کے گرد بحث و تمحیص اور مکالمہ میں کسی حد تک تہہ داری موجود ہے، مگر تجزیاتی سہولت کے لیے ہم چند ایک بڑے گروہوں اور ان کے مقابل نظر آنے والے ایک چھوٹے سے گروہ کی آراء کی فکری اوسط بتانے کی کوشش کرتے ہیں:
1۔ فرینڈ ریکوئسٹ (تعلق/واسطہ قائم کرنے کی کوشش و درخواست) کوئی ہراسانی کی وجہ نہیں کہ اسے فیس بک کے فورم کے eco system میں موجود آلات و سہولیات سے باآسانی منع و ممنوع کیا جا سکتا ہے۔ نیز کسی کا فیس بک اکاؤنٹ اگر کسی کو بھی فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے سے منع کرنے کا آپشن اختیار نہیں کیے ہوئے، تو کوئی بھی فرینڈ ریکوئسٹ بھیج سکتا ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر کوئی بار بار ان باکس میں پیغامات بھیج کر کسی کو تنگ کر رہا ہے، یا بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تو تب جا کر کسی حد تک ہراسانی کی بات کی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود بھی فیس بک آپ کو کسی ایسے فرد کو بلاک یعنی کالعدم قرار دینے کا مختار بناتا ہے۔ لہذا یہ چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کی سستی حرکت ہے۔
2۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ہراسانی کے وجود کا انکار گوکہ کسی حد تک نہیں کیا جانا چاہیے، مگر (جی ہاں “مگر” کا لفظ) شرمین عبید صاحبہ کی رد عمل دینے کی زبان میں ان کے مقام و مرتبہ کا ٹھہراؤ نہیں نظر آسکا۔ مزید یہ کہ انہوں نے سماجی ذرائع ابلاغ پر اپنے پیغام میں اپنے “خاندان” کا لفظ استعمال کرکے، اور اسے حوالہ بنا کر چھوٹے پن اور فرسودہ جاگیردارانہ طور طریقہ برتنے کی شاونیت پسند مثال پیش کی ہے۔
3۔ پہلے بیان کردہ دو گروہوں میں سے کچھ نے تو ہراسانی کی معنوی و تفہیمی تخفیف (semantic reduction) کرتے ہوئے اسے جنسی حملے کی اصطلاحات کے آس پاس کھینچ کر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اور جنسی حملے یا ہراسانی کے ٹھوس امکانات نا دیکھ سکنے پر اس سارے واقعے کو خطرناک اور بھونڈا مبالغہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ کچھ افراد نے راست انداز سے جنسی ہراسانی کی ترکیب استعمال کرنے میں احتیاط برتی ہے، لیکن ان کی تحریروں اور متنوں کے اندر کے اور قرب و جوار کے پیراگرافوں، تمثیلوں اور دیگر تبصرہ جات میں جنسی استعارے و تصورات کی موجودگی جا بہ جا نظر آتی ہے۔ جن سے مروجہ متنی تحقیق و مطالعہ کے سادہ سے ضوابط کے تحت بھی رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ ان کی دماغی آنکھ کس رنگ کی عینک لگائے ہوئے ہے۔
4۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ ہراسانی صرف جنسی ہی نہیں ہوتی بلکہ مختلف انواع کی ہو سکتی ہے؛ ان میں جذباتی و نفسیاتی اہم ہیں۔ ہراسانی کا شکار فرد کسی بھی دوسرے واقعے کے سیاق سے خارجی فرد سے زیادہ دعوی کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اسے کس قدر ہراسانی کا احساس ہوا، یا کہ نہیں ہوا۔ کسی اور فرد کو اس کے اپنے احساس و کیفیت کو پرکھنے اور رد کرنے اور فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔
ہماری نظر و مشاہدہ میں تو یہی اہم رائے عامہ کے گروہ آئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ باقی کچھ فکری منظر نامے موجود ہوں۔ یہ خلاصہ کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ہماری رائے پیش کرنے سے پہلے کسی حد تک آسانی کے لیے چند فکری و نظری تصاویر سامنے رکھی جا سکیں تاکہ سیاق و سباق قائم ہو جائے۔
ہماری دانست میں، ہر چند کہ، معالج بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، لیکن وہ ایک خاص تعلیم و تربیت اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کو باور کرنے کے بعد طب کے میدان میں داخل ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں شعبہ جات طب و ماہرین دندان کی پیشہ ورانہ نگرانی و رہنمائی کا فریضہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، PMDC، کے ماتحت ہے۔ اس سلسلے میں اس ادارے نے کچھ اصول و ضوابط اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے معیارات کا تعین کیا ہوا ہے۔ ہم اس Code of Ethics میں سے کسی اور جگہ تفصیلا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے، پہلے کچھ متعلقہ thinking points اور سوالات قائم کر لیں تاکہ ہم ان کے معیاری جوابات ڈھونڈ کر کسی بہتر نتیجے پر پہنچ سکیں۔
- ڈاکٹری اور طب کا شعبہ ایک اہم پیشہ ورانہ رویے اور عمل کا متقاضی ہے
- ڈاکٹر کی اپنے مریض کے انتہائی نجی رازوں سے آگہی ہوتی ہے
- کیا کسی ڈاکٹر کا مریض کی نجی زندگی میں دخل مریض کے لیے کسی حد عدم اطمینان و جھنجھلاہٹ (inconvenience causing) کا باعث نہیں ہو سکتا؟ یہ ایک نجی سا معاملہ، نجی منطقہ سے متعلق ہے، اور آپ اپنے معالج کے مختلف سماجی محل و مقامات پر دوبارہ اور بار بار روبرو نہیں ہونا چاہتے۔
- اس خاص زہر بحث واقعہ میں شامل معالج سے سوال بنتا ہے کہ وہ اس سے پہلے کتنے مریضوں کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیج چکے ہیں؟
- کیا ڈاکٹری کے پیشہ سے منسلک معروف قواعد و ضوابط اخلاقیات، یعنی پی ایم ڈی سی کے ضوابط، کسی ڈاکٹر کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے مریضوں کی نجی زندگی میں دخل و داخلہ کر سکتا ہے؟
- کیا ڈاکٹر نے اپنی مریضہ کو اس سے پہلے ایک معاشرتی معروف فرد (celebrity) کی ہمشیرہ ہونے کے ناتے کبھی فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے کی کوشش کی؟
- معاشرتی معرف فرد کی حیثیت تو شرمین عبید چنائے کی تھی، پھر ایک عام مریضہ کو معالج نے فرینڈ ریکوئسٹ کیوں بھیجی؟
اوپر قائم کیے گئے سوالات اور متعلقہ خیالات کا ایک مجموعی جواب یہ بن سکتا ہے کہ شرمین عبید چنائے کی ہمشیرہ ڈاکٹر کے پاس بطور پیشہ ور معالج کی خدمات کے حصول کے لیے آئیں۔ انتہائی نجی نوعیت کے تعامل (interaction) میں ڈاکٹر کو اپنے ایک مریض کی ذاتی معاشرتی منطقے میں دخل دینے اور حصہ لینے کی اس کے پیشہ ورانہ اخلاقیات کے اصول و ضوابط میں ہر گز اجازت نہیں تھی۔ (منسلکہ تصاویر ملاحظہ کیجیے)
معالج اور مریض کے باہمی تعامل کو ہمیں کوئی سے دو افراد کے باہمی تعامل سے مماثلت قرار دینے کی کوشش سے احتراز کرنا ہوگا کہ یہ تعامل انتہائی مختلف و خاص نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسے نجی منطقے سے متعلق ہوتا ہے جہاں معالج کی رسائی کسی بھی دوسرے فرد ماسوائے ایک آدھ کے انسان رشتے کے نہیں ہوتی۔ اس تعامل کے دوران (good touch) اور(bad touch) یا کسی ہراسانی کی پہلے کی گئی کوشش سے جڑنے اور جوڑنے کے احساس و خیال کو متاثرہ فرد پر ہی چھوڑنا ہوگا۔
مزید یہ کہ اگر ان اچھی اور بری چھونے کی ثنویتوں (binaries) کا معاملہ نہیں بھی تھا، تو ہراسانی کو صرف جنس کے تصور کے گرد گھمانے کی تجزیاتی و تبصراتی سہل پسندی سے گریز کرنا ہوگا۔ مزید یہ کہ شرمین عبید چنائے کی جانب سے “خاندان” کے لفظ کے استعمال میں سے صرف شاونیت و جاگیردارانہ صفات ڈھونڈنے، سمجھنے اور بھر اس پر پورا واقعاتی منظرنامہ گھڑنے اور تراش کاری کرنے میں اصل واقعہ کو دھندلا دینے کی متعصبانہ روش پسندی پر نظرثانی کی گنجائش پیدا کی جانا چاہیے۔
ہم حوالہ دے سکتے ہیں کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ضوابط معالج اور مریض کے درمیان کچھ حدود فاصل قائم کرتے ہیں۔ (منسلکہ تصوہت ملاحظہ کیجیے) معالج کی طرف سے ان حدود کی بظاہر خلاف ورزی کے پہلو سامنے آتے دکھائی دیتے ہیں۔ معالج کو اپنی پیشہ ورانہ قواعد و ضوابط اخلاقیات کو سنجیدہ سے لینا چاہیے تھا۔
ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ ہم ایک ایسے معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی عورت کا بیاہ اس کے ساتھ ریپ جیسے جرم کرنے والے سے کرانے کو عین عقل مندی و مبنی بر منطق سمجھتا ہے۔ ہم ہر نظر کے سامنے آتی عورت کو پبلک پراپرٹی سمجھتے ہیں۔ ہم دوسروں کے لباس پر اعتراض کرکے اپنے ضبط اور حیا کی ناکامی کو ان پر پابندی کے تقاضے کی صورت نافذ کرتے ہیں۔ ہم اس معاشرے سے ہیں جس میں کچھ افراد اپنی سہاگ رات کو کسی مہا بھارت کی جنگ سے تعبیر کرتے ہیں، اور اس کی تفصیلات و جزیات کو اپنے لنگوٹیوں کے بیچ آشکار کرکے اپنی شرم و حیا سے بیزار مردانگی کے جھنڈے گاڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری محفلیں اپنی شریک حیات کے متعلق اپنی جعلی مظلومیت کے لطیفوں سے سجتی ہیں، تو ہمارے یہاں کے کنوارے جوان اپنی انگلیوں پر اپنے معاشقے اور اپنے دوستوں کے اندر ان سے منسلکہ exaggerated cheap creative non-fiction گھڑتے ہیں اور باہم سنتے سناتے ہیں۔
ہم اس بنی نوع انسان کے مجموعی سماج و معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں جس نے عورت بطور صنف اور عورت بطور انسان کے وجود کو صورت گناہ اور زندگی کے عذاب سے دوچار کرنے والی سمجھا ہے۔ ہمارے فقہی معاملات اور قوانین عورت بیزاری سے لبریز رہے ہیں۔ علمیات عصر کی روح کہتی ہے کہ ہمیں کفارہ ادا کرنے اور ازالہ کرنے کے طریقے وضع کرنا اور سیکھنا ہوں گے۔ ہمیں تو عادلانہ برتاؤ کرنے کی فکر کرنا چاہیے، لیکن ہم تو عورت سے انصاف کرنے سے بیزار نظر نہیں آتے۔
اس مضمون کی وجہ تسمیہ کے تناظر میں ایک بار پھر دیکھتے ہوئے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اس سارے معاملے میں vulnerable کون تھا؟ جسے ہماری معاشرت نے vulnerable قرار دیا ہوا ہے، وہ عورت ہے۔ ہمیں اپنی بنیادی انسانی قدروں کو جھاڑنا پونچھنا ہوگا۔
ایک بات اور بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ جب ہم کسی سے اپنے پیشے اور خدمات کی بناء پر جہاں ہم position of strength یا holder of secrets کی حیثیت میں ہوتے ہیں، وہاں ہم کسی کی پابندیوں سے آزاد پرائیویسی یا نجی منطقے سے عبارت سوشل میڈیا موجودگی کو بھی ذاتی سطحوں پر لانے کا جواز نہیں رکھتے۔ پیشہ ورانہ تعلقات کو پیشہ ورانہ تعلقات رہنا چاہیے، بھلے کوئی ڈاکٹر ہو، بھلے کوئی کسی تعلیمی ادارے وغیرہ میں آنے والے کسی بچے کی والدہ یا ہمشیرہ ہو، سے زبردستی کی گرم جوشی دکھانے والے ذمے داران یا اہلکار ہوں۔ personal اور professional کی حدود واضح رہنا چاہئیں۔
ہمارے یہاں طب کی روایت اور تربیت اگر سوشل ماڈل پر ہے جس میں وہ مریض کے خاندان کے حال احوال کی پوچھ پرتیت کرتا ہے تو اسے پھر سماج، جنس اور ان سے منسلکہ حساسیت کا احساس بھی ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر مریض کے جسم سے وہ رسائی رکھتا ہے جو شاید ہی کسی اور مرد/انسان ہو، اسے اپنے سماجی احساسات اور حساسیت کو بہت زیادہ مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ کسی سے پیشہ ورانہ منطقے کی طاقت سے تعلق داری جوڑنے کی کوشش کرنا پیشہ ورانہ اخلاقیات اور عمومی اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔
آخر پر ایک بار پھر سے عرض کرتے ہیں کہ جس نے ہراسانی محسوس کی ہے، اسے احساس گناہ اور جرم میں مبتلا کرنے کی ہمارے یہاں کی آزمودہ روش پر چلنے سے گریز کرنے کی طرف دھیان دیجیے۔ اور وہ جو اپنے آپ کو افضل مخلوق کے زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں، ان سے منت کی جا سکتی ہے کہ عورت سے متعلق عدل کی ضرورت ہے، انصاف تو ان کے بیچ ہوتا ہے جن پر تاریخ نے انصاف کرنے کی صدیوں پہلے سے عادت روا رکھی ہو۔ کفارہ ادا کریں، ازالہ کریں اور اپنے پدرانہ سماج کے اجتماعی احساس گناہ کو مندمل کرنے کی کوشش کرنے کی سبیلیں نکالیں۔