نئی صدی کی افسانوی ثقافت
از، فرخ ندیم
دیکھتے ہی دیکھتے پچھلی صدی کے بہت سے تخلیقی رجحانات، تجربات اور انکشافات معدوم ہونے لگے۔اب نئی صدی کی ثقافتی شعریات کئی حوالوں سے پچھلی صدی سے مختلف ہے۔نئی صدی کی تعبیرات و شرحیات اپنے سیاق و سباق میں بڑی حد تک تشکیک اساس ہیں۔’ متن کی مکانیت‘ اور اس کی تحلیلِ نفسی کی رو سے دیکھا جائے تو نئی صدی لفظ اور معنی میں ربط کو فطری کم اور ثقافتی و نفسیاتی زیادہ دیکھتی ہے۔ہر لفظ ایک لسانی اکائی ہے لیکن ہر لفظ دوسرے الفاظ سے مل کر معنیاتی نظام سے منسلک ہوتا ہے۔ ایسے ہی جیسے ایک انسان ایک فرد(ایک اکائی) ہے لیکن معاشرے کے دوسرے افراد سے مل کر ایک تناظری ماحول سے جڑت رکھتا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ لفظ کے لغوی معنی پہ ہی اکتفا کر لیا جائے جب کہ انسانی ابلاغ میں سیاق و سباق اور ثقافتی معنی ناگزیر ہے۔ اس لیے، اب، انسان کے فطری ہونے پہ سوال اٹھ چکا ہے۔اب جس ڈسکورس کی بازگشت سنائی دیتی ہے اس کے مطابق ہر عہد کے ثقافتی متون کی شناخت اس کے سیاق و سباق اور تناظر سے مشروط ہے۔ انسان اور اس کے رویوں کی طرح اس کے نصابی، اکتسابی اور موضوعاتی متون بھی ارتقا میں رہتے ہیں۔ معاشرے کے ا فر د جب معرفہ اور نکرہ کے تجربات سے گزرتے ہیں تو ان کا انداز فطری نہیں ہوتا۔انسانی آنکھ کے دیکھنے کا اانداز ماحول کے مطابق بدلتا سیاق و سباق وضح کرتا ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ اکثر اوقات انسانی آنکھ وہی کچھ دیکھتی ہے جو وہ دیکھنا چاہتی ہے۔کیمرہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجاد ہے لیکن جونہی انسان کے ہاتھ میں آتا تصویر کشی کرتا ہے تو نظریاتی ہو جاتا ہے۔ادیب کا قلم اور قلمرو دونوں ہی نظریاتی ہیں۔ یعنی نتائجیت اور بصارت کا آپس میں گہرا ربط ہے۔ نتائج تک پہنچنے کی صلاحیت کو ہم بصیرت کہتے ہیں۔ نئی صدی کی ثقافتی شعریات آنکھ اور شے کے درمیاں ایک معنی خیز سفر کانام ہے۔ اس صدی کے عصری شعور کی رو سے لفظ’ بصیرت ‘بھی جانبداری سے ماورا نہیں،اس لیے فطری نہیں۔ ادب کبھی کسی سماجی، سیاسی، ثقافتی حادثات، واقعات ، دریافتوں، دساتیر اور انکشافات سے الگ نہیں رہا نہ ہی اس کے خمیر میں کچھ ماورائے(ثقافتی) انسان رہا ہے۔ ثقافتی شعریات کی مبادیات کے مطابق کسی مرد اور عورت کے خیال و اظہار کی فہم اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک اس کو تاریخی و ثقافتی پیدا وار نہ سمجھا جائےگا۔ یعنی انسان ایک کانسٹرکڈ بینگ ہے، اس کی جلد، اس کا ذہن، دل و دماغ، سوچ اور فکر اس کے تناظر کا پیش منظر ہے۔
سجاد حید ر یلدرم اور اس دور کے رومانیت پسند کہانی نویسوں کے تصور انسان ہو یا ان کی ادبی تخلیقات، ان کے پس منظر میں وہ الفاظ و معنی ایک انسلاکاتی رشتے میں مربوط ہوتے ہیں جو نو آبادیاتی دور میں دلچسپی کا ساماں سمجھے جاتے تھے۔ پریم چند، رشید جہاں، احمد علی او دوسرے ترقی پسند مصنفین کی فکریات اس وقت کے مقامی اور عالمی معاشی اور سیاسی تناظر سے الگ نہیں۔ سعادت حسن منٹو اپنے جوہر میں ایک ہمہ جہت تحریک کا نام ہے جو مروج سماجی وثقافتی نصاب اور ذہن سازی کی ضد یا ’رد تشکیلی‘ شکل ہے۔’’تقسیم ‘‘ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات ہمارے افسانوی ادب میں بہت دلخراش ،وسیع اور اندوہناک اسباب و علل رکھتے ہیں۔ اس تقسیم سے عظیم ادب کیونکر تخلیق ہوا، اس کے بہت سے محرکات ہیں۔ جتنا بڑا انسانی و اجتماعی سانحہ تھا کم و بیش ادب بھی پوری وسعت اور شدت سے سامنے آیا۔خاص طور پہ افسانوی متن تو جگہ جگہ معصوم جانوں کے خون سے سرخ نظر آتا ہے۔ یہ’ تقسیم‘ رکی اس لیے نہیں کہ نوآبادیاتی نظام نے جس سیاسی ثقافت کی بنیاد رکھی اس سے معاشروں کا، طبقاتی، استحصالی، صارفی ، پروہتی، امیری، اساطیری ، مخاطبی اور خبطی رہنا لازم تھا۔ لازمیت اور حتمیت کے اصول سے کسی غریب کے گھر میں ’روشنی ‘ہوتی ہے نہ ہی بھوکے کا پیٹ بھرتا ہے مگر طاقت ور کے مفاد کا تحفظ ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے وسائل و مسائل کا تقسیم در تقسیم ہونا فطری عمل تھا۔لسانی، آئیڈیالوجیکل، مسلکی اور مذہبی ترجیحات نے اس وحدت کو سبوتاژ کیا جو صدیوں سے بر صغیر کے باسیوں کی نفسیات کا لازمی حصہ رہی تھیں۔سرحد کے دونوں طرف حکومتیں بدلتی رہیں لیکن جس عدل اور امن کی ضرورت تھی وہ خواب ہی رہا۔ نظریات و نظامات اگر انسان و عوام دوستی روشن خیالی اور ترقی پسند فکر سے مشروط ہوں تو ہر قسم کی آمریت سے نجات ممکن ہے لیکن طاقت اور صارفی صداقت کے سنجوگ سے پیدا ہونے والی رویات سے جو ثقافت پیدا ہوتی ہے اس میں انسانی مسائل کی متنی کثافت ناگزیر ہے۔ انہی مسائل کی بازگشت ادیبوں کے تخلیقی تجربات میں سنائی دیتی ہے ۔اردو افسانے کی روایت میں ایک طرف ترقی پسند فکر تقسیم سے پہلے سے روایتی کلامیوں کومخلتف اور نئے زاویوں سے دیکھنے میں مصروف عمل تھی تو دوسری طرف دو عالمی جنگوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی صورت حال نے لکھاری کے ذہن اور قلم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تقسیم اور عالمی جنگوں کے اثرات سے جو تخلیقی حساسیت وجود میں آئی اس نے خارجی عوامل سے داخلیت اور موضوعیت کا سفر کیا۔ اس سفر میں انفرادیت ، تشکیک، لادینیت، بغاوت، سادیت، مساکیت، قنوطیت، وجودیت،کلبیت ،بے معنویت، لایعنیت، تجرید و تمثال کئی اقسام کے ایسے نفسیاتی محرکات و مسائل کو شامل کیا گیا جو ماضی کا حصہ نہیں رہے تھے۔انسانی سرشت، شعور اور لاشعور اور جنسی ناآسودگیوں کے اسباب و علل کو پرت در پرت کھولنے کا عمل تیز ہوا۔ مارکسی فکر کے دانشور، طبقاتی کشمکش، سماجی و ثقافتی نفسیات و محرکات اور جدیدیت پسند انفرادی نفسیات، شعور کی رو،آزاد تلازمہ خیال پہ فوکس کرنے لگے۔ ایک طرف مارکس، مارکسی دانشور ، ترقی پسند تخلیق کار اور وایگوٹسکی تو دوسری طرف فرائڈاور ژونگ ، ایلیٹ ، جوائس ، لارنس ، اور اردو دنیا کے جدیدیت پسند تخلیق کار اور نقاد کھڑے نظر آئے۔
ان کے درمیان ایک اور فکر موجود ہے جس نے مارکس اور فرائڈدونوں سے استفادہ کرتے ہوئے جنسی امتیازات کے مہلک اثرات کا محاکماتی جائزہ لیا۔ یہ نسائی اور تانیثی آواز ہے جس نے اردو افسانے کی کائنات کو فطری رنگوں سے مہمیز کیا۔نسائی بیانیہ سے مراد وہ کہانی ہے جس میں عورت اپنی نظریاتی ثقافت کے پیراڈائم میں رہتے ہوئے اپنے حقوق اور فرائض کا ادراک پیش کرے جبکہ تانیثی بیانیہ کی عورت ان شرائط سے آزاد ہے۔ہمارے سماج کی عورت ان دونوں صورتوں کے بیچ ایک تیسری زمین متن کرتی نظر آتی ہے۔ وہ روایتی رومانوی ڈسکورس کے ہوتے ہوئے ایک ایسے( ازدواجی) بندھن کی خواہش کرتی ہے جس میں مرد و زن فاعل اور مفعول کی سماجی گرامر سے آزاد ہوں۔اس کے نزدیک سگھڑپن چپ پرستی کی علامت ہے۔ اظہار و ابلاغ اور دوسرے تمام حقوق پہ مرد کی اجارہ داری محض طاقت کا کھیل ہے جس کو روایت متحرک رکھتی ہے۔ ریاستوں کی آئیڈیالوجی کا غیر مشروط اتباع ہی اولین ذمہ داری ٹھہرتا ہے۔یہاں تک کہ کچھ معاشروں میں عورت’ ڈی عورت‘ یعنی اس کی اصل چھین لی جائے تب بھی روایت ہی سرخ رو ہوتی ہے۔عورت کی جسمانی اور نفسیاتی ساختوں کو ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔ پدر سری سماج اپنے فکری مغالطوں کے بہاو میں بہت سے بھیانک فیصلے کرتا ہے مگر نصاب سازی اس کو قسمت نصیب سمجھ کر نظر انداز کرتی ہے۔ ا نسانی ارتقا خود شہادت دیتا ہے کہ کمزور بالعموم اور عورت بالخصوص کی کمر جھکانے کی خاطر اس پہ روایات، رسوم ورواج کا بوجھ ضرورت سے زیادہ ڈالا گیا۔ آج بھی جہاں غربت زیادہ ہے وہیں روایات عام انسانوں (خصوصاً خواتین)کے معصوم اذہان میں فرسودگی ثقافت کی جاتی ہے۔ طاقت کی چیرہ دستیوں کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کی خاطر مہابیانیوں کی آکاس بیل پھیلادی جاتی ہے تاکہ کسی نئی رت کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ زمین کی طرح عورت کی زرخیزی، اس کی کوکھ میں پیدا واری صلاحیت اور اس جسم میں جمہوری صفت ہمیشہ سے پدر سری سماج کو کھٹکتی رہی ہے ۔ پدر سری شعور نے ایسی ایسی لفاظی اور لسانی تراکیب اختراع کی ہیں جو عورت کے ذہنی جسمانی، ثقافتی اور نفسیاتی کنٹرول میں معاون ثابت ہوئی ہیں۔ عورت کا نام عورت رکھا، نساء ، خاتون، فی میل ، اور وومین، ان تمام الفاظ کی ایٹیمالوجیکل سٹدیز سے ثابت ہوجاتا ہے کہ لسان اور عمرانیات انسانی شعور و لاشعور سے کتنا گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ لسانی اسیری ہی سماجی ثقافت و روایت کی پاسداری ہے۔روایت ایک ایسی ثقافتی گرامر ہے جس میں انسانوں کے افعال و کردار قواعد کے تابع ہو کر معنی خیزی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اس گرامر کا حاصل کل طاقت ور کی رضا ٹھہرا ہے۔ عورت ایک لفظ بھی ہے اور جنس بھی۔ اس روایتی گرامر سے نسبت نبھاتی عورت اپنے کردار کو نبھاتی چلی جاتی ہے۔
اردو افسانہ اپنی ابتدا ہی سے مغربی اور روسی ادیبوں اور دانشوروں کے اثرات قبول کرتا رہا ہے اس لیے جدیدیت ،ترقی پسندی، نسائیت، تانیثیت اور ما بعد جدیدیت کا فکری نظام بر صغیر کے افسانہ نگاروں کے ہاں جگہ جگہ ملتا ہے۔یوں تو ہمارا سماج پوسٹ ماڈرن معاشرت سے کافی فاصلے پہ ہے لیکن صارفیت اور اشتہاریت کے عملی مظاہر ادبی سماجیات سے گہرا ربط رکھتی ہیں۔ پوسٹ کولونیل تنقیدی تھیوری نے گو براہ راست اردو دنیا کو متاثر نہیں کیا اور یہ کہنا بھی مناسب نہیں ہوگا کہ مقامی افسانہ نگاروں نے کسی تھیوری کے ارتباط سے فکشن نگاری کی لیکن، ان تھیوریوں کی ترویج ایک حد تک ضرور اثر انداز ہے۔ اور جب سرحد کے دونوں طرف یہ معلوم ہے کہ پوسٹ کولونیل تھیوری کا تعلق پاک و ہند اور تارکین وطن کی معاشرتوں کے نفسیاتی مسائل سے بھی ہے تو ان کی اطلاقی صورت کو ممکنایا جانا عصری تخلیق و تنقید کا تقاضا ہے۔انگریز ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں اور اب بھی ہیں، ہر سال لاکھوں افرراد ہجرتوں کے تجربات سے گزر رہے ہیں، یورپی، امریکی جامعات میں لاکھوں کی تعداد میں ہمارے طالب علم پہلے علم حاصل کرتے ہیں پھر سکونت اختیار کرتے ہیں، واپس آئیں تو خاص ذہن سازی کا تحفہ لے کر آتے ہیں ، ان سب عوامل کو موجودہ افسانے میں جگہ ملنے سے مقامیت اور بین الاقوامیت میں مطابقت ، مسابقت اور مغائرت سامنے آرہی ہے۔ افسانوی ثقافت میں یہ نئی سمت مختلف ہوتے ہوئے بھی دلچسپ صورت حال کا پیش خیمہ ہے۔تقسیم سے جغرافیائی تبدیلیاں ممکنائی گئیں لیکن یہ تبدیلیاں کتنی درد ناک کہانیاں ہوتی ہیں یہ طاقت کا کنسرن نہیں۔ طاقت اپنے چہرے کی شکنوں سے زمین پہ لکیریں کھینچنا جانتی ہے۔ ان لکیروں دراڑوں کو عام انسانوں کی ہڈیوں کی مخ سے جوڑ کر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ مٹی اور زمین سے محبت کی کہانیاں عام ہیں لیکن جس زمین میں باردوی سرنگیں بچھا کر مخالفین کے جسموں کے پرخچے مٹی میں اڑنے کا انتظار کیا جاتا ہے ، وہاں اس ظلم کا شکار ہونے والوں کے لیے زمین تنگ پڑ جاتی ہے۔ ثقافتی مغائرت اور رد عمل کے طور پہ بہتر سکونت اور مستقبل کے خواب ترجیح بن جاتے ہیں۔ اور جہاں کولونیل سامراج مخالف روایت سے مقامی آمریت کے خلاف مزاحمت پسند ادیبوں کے ووکل کردار کہانیوں کے کوکھ سے اپنی آواز قاری تک پہنچانے لگے، وہیں، جدیدیت پسند اور ترقی پسند متون کے متوازی ایک متصوفانہ فکر بھی ادیبوں کی دلچسپی بننے لگی جس نے وجودیت اور وحدت الوجود کے مرکب سے نئی لیکن دلچسپ انسانی کیمسٹری دریافت اور مارکیٹ کی۔ نئے نئے تصورات اورنظریات نے انکشافات کے نئے در وا کیے۔ ’صبرسے تلقین تک نیریٹوز‘ میڈیا کے سبب زبان زد عام ہو گئے ۔انسانی زندگی سے سنجیدہ ادیب ہر حال میں رجعت پسندی، آمریت، حتمیت، لازمیت اور قطعیت کے ڈسکورس کا مقابلہ جدلیاتی طرز فکر سے کرتے ہیں اور طاقت ور کی ساخت شدہ سچائیوں کے سامنے تصویر کادوسرا رخ پیش کرتے رہتے ہیں۔سرحد کے دونوں طرف انسان ہی رہتے ہیں لیکن ان میں’ نظریاتی جکڑبندیوں‘ کے سبب ’قوم مرکزیت‘ اورنفسیاتی خلا پیدا ہوئے۔ سیاسی حکمت عملیوں کے رد عمل میں دونوں طرف وسیع پیمانے پہ ہجرتوں کی ثقافت نے نیو کولونیل ازم کی مہر ثبت کردی ہے۔ انسان کہیں بھی آزاد نہیں؟آج کے ادیب( عورت اور مرد) کا اہم سوال ہے۔فکرِ معاش نے لاکھوں انسانوں سے ان کی زمین چھین لی اور اب وہ اپنی ہجرت کا غلام بھی ٹھہرتے شناختوں کے بحران سے بھی گزر رہے ہیں۔ آزادی ،خود مختاری اور مساوات کا وہ سورج جس کی تمنا میں طرفین کی معاشرتوں نے لاکھوں جانیں قربان کیں وہ گرہن زدہ ہی رہا۔ افسانہ نگار اپنی کہانی میں اس سورج کا نوحہ لکھتے ہیں لیکن شعوری و لاشعوری سطحوں پہ نیا سورج تلاشتے، تراشتے، ساخت کرتے نظرآتے ہیں۔ ان کے ثقافتی ماحول میں سرمایہ دار، جاگیر دار، ملا، پروہت اور سرحد کے اِس طرف آمریتوں نے سماجی ساختوں کی جمہوری گرامرکے بخیے ادھیڑ دئیے۔کمزور کا استحصال ہوتا رہا اور قسمت پرستی کامخاطبہ مذہبی بیانیوں میں ڈھل کر ان کے آنسو پونچھتا رہا۔ اس ثقافتی گھٹن میں علامت استعارہ ، مجاز اور بیانوی التباس کا استعمال تخلیقی اسلوب کے ارتقا کا تقاضا بھی تھا اور اب بھی ہے۔ اس نئی روایت نے، جبر اور آمریت کے دور میں، ادیبوں کو نفسیاتی الجھنوں کو نئے اظہاریوں میں ڈھالنے میں مدد کی۔ادب میں ایک نئی تکونی شکل ’ ادیب، خیال اور اسلوب‘ پہ مکالموں کے اجرا سے تناظر ، متن اور ہیت پہ سوال و جواب ملنے سے سے اسلوبیاتی تجربات دریافت ہوئے ۔
ادیب کا مسئلہ اس کے متن میں موجود صورت حال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوال سے شناخت ہوتا ہے۔ اس لیے اس سوال اساس بیانیہ کو کس ڈھنگ پیش کیا جائے، ناقدین اور تخلیق کاروں کی توجہ کا مرکز بنا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ افسانوی متون میں بیانوی تجربات سے خیال کو بڑی ندرت سے پیش کرنے کی ثقافت کو فروغ ملا۔ روایت اور جدت کے خوبصورت سنگم سے نئے ذہن نے استفادہ کیا اور بلاشبہ خوبصورت افسانوی ادب تخلیق کیا گیا۔ جو تناظر انڈین اردو ادب کو ملا وہی اس کی ادبی ثقافت کا ترجمان ہے۔ پاکستان کی صورت حال یکسر مختلف ہے۔ یہاں دہشت گردی، بم بارود، درود و واعظ، خود کش حملے، مخالفین کے گلے کاٹنا، آمریت، لبرل فاشزم، سرمایہ دارانہ ریشہ دوانیاں، جاگیردارانہ اجارہ داری ، میڈیا کی ثقافتی اور لسانی سیاست، ان سب عوامل نے انسان اور انسانیت کا نیا اسلوب وضح کیا۔جنہوں نے بیرون ملک ہجرت کی اور بے وطنی کا درد جھیلا، ان سے کولونائیزر کا نیا تعلق قائم ہونے سے نیا ہائبرڈ انسان پیدا ہوا۔ اس ہائبرڈٹی کی ثقافت کے اپنے مسائل ہیں جن میں شناخت کا بحران ، نئی سوچ سے( عدم)مطابقت،قومیت کا مسئلہ، مذہبی انسان اور سیکولر معاشروں میں تفاوت،نسلی عصبیت، آجر اور اجیر کا رشتہ اور اس کے ساتھ ساتھ روایت اور ما بعد جدید صورت حال جیسے مسائل کے حائل ہونے سے تارکین وطن کا تشخص کہیں مجروح ہوتا ہے تو کہیں نئے سرے سے تجسیم ہوتا ہے، یہ تمام مسائل بھی آج کے افسانوی متون کا اہم موضوع ہیں۔ اردو ادب کے قارئین کی بہت کم تعداد ہے جو ان تینوں صورتوں سے بیک وقت آگاہ ہو،یعنی انڈین ، پاکستانی اور تارکین وطن یا بیرون ملک ہجرت کے تناظر میں لکھے گئے متون او ر ان کہانیوں کے اسلوب۔ سوشلمیڈیا سے پہلے پرنٹ میڈیا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں اورادبی رسائل میں چھپنے والے مضامین کی وساطت سے قارئین تک ان مسائل کی جانکاری پہنچتی رہی۔ لیکن اس کتاب میں موجود کہانیوں کے متون ، ان کے تناظر، بیانوی اسلوب اور ہیت و تکنیک میں تنوع سے نئی صدی کے مقامی اور بین الاقوامی مسائل اور تخلیقی رویوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ منتخب افسانوی ادب میں افسانے کے قاری کو ہر طرح کی فکر سے واسطہ پڑے گا ،تعبیر و تفہیم کے نئے در وا ہونگے اور افسانے کے متنی اور اسلوبیاتی ارتقا کو سمجھنے میں مدد بھی ملے گی۔
عام طور پہ پوسٹ کولونیل ادبی متن سے مراد مقامی تخلیق کار سے لکھا گیا انگریزی ادب ہے۔ لیکن یہ تھیسز بڑی حد تک غلط فہمی کا شکار ہے۔ اردو ادب میں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جن میں کسی سفید فام کا تفاعل مقامی ( پاک و ہند) کلچر یا فرد سے ہوتا ہے جس سے زندگی کے مختلف مسائل و مفاہیم جنم لیتے ہیں۔ اقبال حسن خان کا افسانہ’ استرا گل‘ ایسا فکری متن ہے جس میں بہت ہی پیچیدہ اور سنگین مسئلہ کو ایک خوبصورت اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ انگریز ماں کی سات سالہ بیٹی ڈیزی جب باپ خداداد کی جکڑ بندیوں کا شکار ہوکر اس کے آبائی علاقے گجرخان پہنچتی ہے تو ڈیزی بھی وقت کے ساتھ ساتھ دیسی رہن سہن اور ان تمام رویوں کو سمجھنا شروع کردیتی ہے جو باپ کے کلچر میں موجود ہیں۔ٹیکسی ڈرائیور خداداد لندن میں انگریز عورت سے شادی کے باوجود اپنی ذہن سازی نہ بدل سکا۔ اس کے لیے مغربی ثقافت ’بے حیائی‘ کے سوا کچھ نہیں۔ پدرسری مزاج اور سماج ڈیزی کو اس کی ماں کی زمین سے اکھاڑ کر گجر خان بھیج دیتا ہے۔اپنی جوانی تک ڈیزی پاکستانی سماجی گھٹن کا شکار رہتی ہے۔ انگریز ماں کی ڈیزی بیٹی قاری کو کہیں نظر نہیں آتی بلکہ ایک روزی روٹی کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے والی جوان لڑکی نظر آتی ہے جو کندھوں پہ سیلف لادھے مرد ذات مسائل جھیلتے دن کاٹتی ہے۔ جس باپ نے ڈیزی کو بہتر مستقبل کی خاطر لندن سے گجر خان بھیجا، وہ خود تو اپنی ذہن سازی لے کر مرگیا لیکن ڈیزی کی زندگی کو ریاکاری، استحصال، جبر، بے حیائی، منافقت ، یاسیت اور بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار کر گیا۔ ما بعد نو آبادیاتی صورت حال کا یہ افسانہ وسیع ثقافتی معنویت پہ اساس کرتا ہے۔ ’جعفری کلچر کی استراگلیت‘ ڈیزی کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے۔ جس ڈھٹائی کے ساتھ وہ اپنی استراگلی جاری رکھتا ہے وہ اس کردار کو دلچسپ مگر پیچیدہ گدھ بنا کر پیش کرتی ہے۔عورت کے جسم چال اور نقوش کو پڑھ کر اندر کی عورت دریافت کرنے والے ایسے کردار ہمارے معاشروں کے گلی محلوں اور دفتروں میں دانائی کے نام نہاد استعاروں کے روپ میں سادہ انسانوں کی نفسیات میں آسیب بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ خیر و شر سمیت تمام انسانی معاملات میں خود کو معتبر حوالہ دیکھنا ان کا خبط بن جاتا ہے۔ڈیزی کا ایک اینٹی ہیرو سلمان سے تعلق بھی سماجی روایات کا شکار ہوجاتا ہے اور یہاں تک کہ اس معاملے کے خاتمے کی خاطر ڈیزی استراگلیت کو قبول کرنے پہ تیار ہو جاتی ہے۔ افسانے کا کلائمیکس اس استراگل سے ایک انسانی دریافت کا ہے جس کا سبب بھی ڈیزی (ایک عورت) اور اس کی مجبوری ہی ہے۔
مجبوریاں ہر جگہ موجود ہیں، کہیں نظریاتی مجبوری تو کہیں معاشی ۔ انسانی موضوعیت اس کے معروض سے ممکنائی جاتی ہے۔ مغرب کا انسان اپنی تمام تر فکری آزادی کے دعووں کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت سے آزاد نہیں۔آج بھی جگہ جگہ مزور وں کے احتجاجی مظاہرے احتجاج اور مزاحمت کی شکل میں اخبارات اور میڈیا پہ موجود ہوتے ہیں۔نسیم سید کا افسانہ ’’قیمتی تابوت‘‘ کولونیل ڈسکورس کے اس پراپیگنڈہ کی ضد ہے جو مغرب کے انسان کو ہر قسم کی گھٹن جبر اور استحصال سے پاک کر کے ایک ائیڈئیل انسان کے طور پہ پیش کرتا ہے۔نارمیلیٹی اور ایبنارمیلیٹی کے درمیان خط تخصیص کھینچتا ہوایہ افسانہ ایک طرف توظاہری( پروگریشن) ترقی اور احساس کی سطح پہ ریگریشن(تنزلی)کوپینٹ کرتا ہے تو دوسری طرف ایڈورڈ سعید کی تھیوری’ شرق شناسی‘ کی ضد غرب شناسی پہ دال کرتا ہے۔مغربی ادب میں بے شمار مشرقی کردار پیش کیے گئے ہیں جو ایبنارمیلیٹی کے کثیف تجربات سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ایڈورڈ سعید نے ان مغربی متون کو پس ساختیاتی حوالوں سے دیکھ کر مشرق مغرب میں اس بائنری کو ڈی کنسٹرکٹ کیا ہے جو ہمیشہ سے لسانی و ثقافتی سیاست کا شکار رہی ہے۔تہذیب غلام عباس کے افسانے اوورکوٹ کی تمثیلی شکل ہے۔ افسانے کی یکتائی اس امر میں مضمر ہے کہ افسانے کی روای مشرقی کردار ہے اورمتن کا مرکزی کردارمسٹر تھامس مغربی معاشرت سے ہے جو انسانی رویوں، معاشرتی نا انصافیوں اور بے حسی سے گھائل ہوتا سکڑتا چلا جاتا ہے اور آخر میں ایک قیمتی تابوت کی نذر ہو جاتا ہے۔ انسانی اکلاپا وجودی کلامیہ کا سبب بنتا ہے۔ تنہائی انفرادی فیصلہ بھی ہو سکتی ہے اور سماجی بے بسی بھی لیکن اس افسانے میں انسان کی تنہائی اور شکست و ریخت مغربی اجتماعی شعور و لاشعور کا حصہ ہے۔ تکنیک و اسلوب کے حوالے سے افسانہ سادہ اور رواں بیانیہ میں لکھا گیا ہے جس میں دو کردار اور ان میں مکالماتی فضا کا ہونا دو تہذیبوں کے مسائل اور ان میں ہم آہنگی پیش کرتا ہے۔ انسان اپنا درست کردار ادا کرے تو ہر جگہ انسانی قدریں کاشت کی جا سکتی ہیں۔کینیڈا کے تناطر میں لکھا جانے والا یہ افسانہ ایک حساس راوی کاپنے گردوپش میں دلچسپی اور داخلی کیفیات واحساسات کا پیش منظر ہے۔اس افسانے میں بھی ایک (مشرقی) عورت کی جمہوری شخصیت یاسیت سے جڑے بوڑھے مرد سے ایک یورپی تہذیبی بزرگ دریافت کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔
پوسٹ کولونیل صورت حال صرف وہی نہیں جو مغربی مفکرین اور ان کے فکری نظام سے وابستہ ناقدیں کے اذہان کی پیدا وار ہے۔ ہزاروں سالوں سے ہندوستان کی سرزمین پہ وسیبی کلچر ہمیشہ سے مذہبی نظریاتی ہم آہنگی کا منظر نامہ بنا رہا۔ لیکن کولونیل عہد کے بعد کے منظر نامہ میں’ ڈی وائڈ اینڈ رول‘ کی حکمت عملی ہر جگہ سامراج کی خدمت کرتے نظر آئی۔ تقسیم کے وقت آگ اور خون کے تجربات سے گزرنے والی قومیں ابھی تک عدم برداشت کی آگ میں جھلس رہی ہیں۔اس صورت حال میں بلوائیوں کی زد میں آنے والے کرداروں کے ٹکروں کو کوئی قیمتی تابوت نصیب نہیں ہوتا۔ ان کی لاشین گھڑوں ، ویرانوں میں کتوں کے جبڑوں اور گدھوں کی نوچ تلے ملتی ہیں۔شیمویل احمد کا افسانہ ’’بہرام کا گھر ‘‘ سماجی آئیڈیالوجیکل ’حق و باطل‘ کی ہولناک مجازی شکل ہے۔بے رحمی کی مشق در مشق سے مذہبی تعصب تعفن کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تشدد کی گرامر انسانی نفسیات کا حصہ بن جائے تو انسانوں میں درندگی دھاڑتی ہے۔ نصاب ساز ذہن سازی کے کارخانے قائم کرتے ہوئے خیر و شر کی ایسی تلقین کرتے ہیں کہ ان کے حواریوں کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک ان کی برچھی مخالف کے خون سے سرخ نہ ہوجائے۔ کہانی میں ایک ماں بیٹا فسادات کا شکار ہوتے ہیں،بڑھیا بیٹے کی راہ تکتی ہے اور بیٹا بلوائیوں کی برچھیوں سے ٹکڑے ہو کر ایک گھڑے میں پڑا ہے۔ جسے اس کا ماموں پولیس کی بے حس اور محدود مدد سے تلاش کرتا ہے۔افسانے کے تناظر میں فسادات کی آگ ہے مگر یہ کیوں بھڑکتی ہے ، ہماری ثقافت کا متن خود بولتا ہے۔ ایک حساس ادیب انسانی قدروں کے سوا کسی نصاب کا حصہ نہیں بنتا، پریم چند اور منٹو سے لے کر آج تک کے تمام سنجیدہ افسانہ نگاراپنے تمام حوالوں سے اس متشدد ذہن سازی کے خلاف لکھتے رہے ہیں ۔ شیمویل احمد نے اسی روایت کی ترجمانی کرتے ہوئے فساد ماری انسانیت کا حال ایک پختہ بیانوی اسلوب میں ڈھال کر لکھا ہے۔
طاقت ور کی بے حسی اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے کمزور کے استحصال کو لازمی قراردیتی ہے۔ انسانی قدروں کی پامالی اس روش کے نزیک اجارہ داری کا لازمی جزو ہے۔ زمینی و ثقافتی انکروچمنٹ طاقت ور کی خوراک ہے اس لیے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا ہے جس میں استحصال کی روایت مضبوط تر ہوتی نظر آئے۔ جب افسانے کا نام “کتن والی” رکھ لیا تو افسانہ نگار سبین علی نے کہانی کے مرکز میں کتن والی رکھی۔ مائی جولاہی سوت کھیس چادریں کات کر سماج کو موسموں سے بچاتی رہی، مگر سماج اس کو نہ سمجھ سکا، نہ کوئی گھر دے سکا، یہ المیہ ہے اہل ہنر کا، بنیادی مسئلہ افسانہ نگار نے واضح طور پہ متن کی صورت سامنے رکھ دیا کہ سرمایہ دار کس طرح ، اربنائیزیشن اورہاوسنگ سکیموں کی صورت خود شہروں کے مرکز میں بیٹھتاجا رہا ہے اور غریب اہل ہنر مارجنز پہ چلے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طاقت پھیلتی جاتی ہے اور کمزور سکڑتے جاتے ہیں ایسے ہی جیسے مائی جولاہی کی زندگی بے رحم سماجی موسموں سے لڑتی آخر میں غائب ہو جاتی ہے۔ یہاں غربت نہیں غریب ختم کیا جاتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ سنجیدہ افسانہ نگار اپنی معاشرت کا شعور رکھتے ہوئے کہانی میں وہ پراسیس دکھاتا ہے جس سے انسانی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ یہی عمل اس افسانے کا حسن ہے۔ افسانہ نگار نے اس مہارت سے اسے بنا ہے کہ قاری کے دل و دماغ پہ نقش ہو جاتا ہے، افسانے کا عنوان علامتی ، بیانیہ مضبوط،تہہ دار اور قاری کو سوچنے پہ مجبور کرتا ہے۔ فکری طور پہ ترقی پسند افسانہ ہے۔ طبقاتی کشمکش، مزدوروں کی محنت اور مسائل کو متن کرتا پسماندگی کی حقیقی تصویر بنتا ہے۔ اس افسانے کی ایک خوبصورتی محنت کی جمالیات ہے، مائی جولاہی کا کردار، اس کا سراپا، اس کی مصروفیات، اس کی محنت سے لگن، اس کے ہنر سے جزباتی جڑت، ثقافت سے لگاو، یہ سب مارکسی جمالیات کااہم باب ہے۔ نشہ کسی غریب کی ایجاد نہیں، ہو سکتا ہے اس علاقے میں ہیروئین اسی لیے پھیلائی گئی ہو کہ یہ بستی تباہ ہو جائے اور طاقت ور کواس زمین کے ٹکرے کی ملکیت حاصل ہو جائے۔ ایسا ہی ہوتا ہے، بھولا جو مائی کے فن کا تسلسل تھا نشہ سے بلکتا دنیا سے فارغ ہو گیا، راوی کے مشاہدے کو داد جس نے یہ سارا عمل اپنی یادداشت میں محفوظ کیا اور ہماری ثقافت میں موجود ہنر کدوں کی موت کا دکھ قاری سے بانٹا۔افسانے کی جزئیات نگاری براہ راست عنوان اور متن کے خیال کی ذیلی وضاحت ہے۔
انسانی معاشروں میں ہر لفظ ثقافتی نفسیات کا مظہر ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی متن اپنے معروض سے جڑے بغیر کوئی واضح تعبیری شکل بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ افسانہ ’’ڈیپارچر لاونج ‘‘کے مرکزی کردار بدر الدین اور افسانے کے عنوان میں متنی جڑت ہی نہیں ایک فکری انسلاک بھی ہے۔ پورے سیاق و سباق میں کچھ بھی تو افسانہ نگار نعیم بیگ کے اس فکری نظام سے باہر نہیں جو افسانے کی متنی فضاکا شعور بنتا ہے۔ ڈیپارچر لاونج زمین اور آسمان کے درمیاں ایک جگہ کا نام ہے جہاں مسافر چند لمحوں کے لیے رک کر اپنے ماضی حال اور مستقبل کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اس خوبصورت افسانے کا متن بھی کم و بیش وقت کی اسی تقسیم کا آئنہ دار ہے۔ یعنی اس کے تین حصے ہیں پہلا حال، دوسرا ماضی اور تیسرا مستقبل۔ فلائٹ انسان کے اڑنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ اس کشش ثقل سے آزادی کا نام بھی ہے جو کبھی روایت ،کبھی رسم ،کبھی مجبوری اور کبھی محرومی کی شکل میں انسان کو جکڑے رکھتی ہے۔ بدر االدین ایسا ہی ایک کردار ہے جس نے ول پاور سے یا ول ٹو پاور سے اپنی محرومیوں کا بدلہ اپنے فرار کے صورت میں لیا۔ ایک مذہبی اور روایتی ماحول کا فرد جس نے ایک سفاک پسماندگی کو ہر قدم جھیلا ہو ہمیشہ مناسب موقع کی تلاش میں ہوتا ہے تا کہ اس جبر پسند قید خانے سے رہائی حاصل ہو جو اس کی شناخت ،خواب اور آزادی کو مسخکرتا ہے۔ بدرالدین کو معلوم ہے کہ جب سے دین مارکیٹ سے جڑا ہے سکالر ساز مواقع بھی دستیاب ہیں جو اس کی شناخت کو اس کے خوابوں سے ہم آہنگ کر دیں۔ لیکن اس کے خواب عام انسانی خواب سے ہٹ کر اس کی ضد؍اوبسیشن بن جاتے ہیں۔ افسانے کے متن کے مطابق “اولوالعزم ہونا اس کا خواب تھا اور بلندی اس خوب کی تعبیر۔” جب ہم اس کردار سے ملتے ہیں تو وہ ایک انتہائی کامیاب شخص بدر الدین ہے جسے ماضی مین اس کی ماں کہتی تھی”دیکھ وے بدرو ۔ تیرے باوا کو کیا ہوا ہے۔ وہ جونہی گھر پہنچا اس کی ماں نے ایک ہانک لگائی۔” اپنے نام کے طول و عرض کی تجسیم اور سربلندی کے کے لیے بدر نے چھوٹی موٹی آوازوں سے تو ہمیشہ کے لیے (جسمانی طورپہ) نجات حاصل کر لی لیکن لاشعوری طور پہ جب بھی وہ انکھیں موندھے گا اس کی سوچ اس کو گھسیٹتے ہوئے اس کے ماضی کی طرف لے جائے گی جس سے بچنے کی خاطر وہ (بدر) جیسے کردار پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہیسٹیریا کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس تلخ تجربے سے گریز کی خاطر انسان پیچھے مڑ کر دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ اور انکھیں کھول کر سامنے کی طرف اور اوپر کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہاں مصنف نے انتہائی مہارت سے ایک متنی تکنیک irony کا استعمال کیا۔ بظاہر بدر عالمگیریت، آفاقیت، عینیت، انسان دوستی کے بیانیوں کلامیوں کا ترجمان بن کر عزت شہرت دولت سمیٹتا رہتا ہے لیکن اندر ہی اندر ایک لاشعوری خوف؍فوبیا میں مبتلا رہتا ہے جو کچھ کھونے کا خوف ہے۔ بدر اس خوف سے نجات حاصل نہیں کر پاتا۔ پسپائی اس کی کمزوری ہے۔ وہ کسی صورت اپنی انفرادی کامیابی پہ سمجھوتہ نہیں کر سکتا اس کے لیے بے شک اس کو اپنی ذمین ،رشتوں اور محبت کی قربانی دینی پڑے۔ اس کے لیے لفظ “ڈارلنگ” کہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ محبت بھی انسانی کمزوری ہے۔ عروج سے اس کا متنی رشتہ صرف مفاد کا نظر آتا ہے ہمین بدر کے احساسات کا علم نہیں ہو پاتا۔ اتنا بھی اس لیے ممکن ہے کہ عروج ایک پڑھی لکھی اور مغربی ثقافت( مشی گن) مین سیٹلڈ کردار ہے۔ شاید اس لیے وہ عروج ہے۔ بدر کی موت بھی انسانی زندگی میں اسی آئرنی کی بدولت واقعہ ہوتی ہے۔ اندر کی کمزوری، انا، ضد، پسپائی سے ڈر، انرشیا سے، خوف سے بدر کے بدن کو ہسٹریا پہنا دیتے ہیں اور وہ یقین نہیں کر سکتا کہ ایسا بھی اس کی زندگی میں ممکن ہے۔ باہر سے سخت اور کامیاب آدمی ایک چھوٹی سی شکست قبول نہیں کر پاتا۔ یہاں نہ تو قناعت نہ صبر نہ آخرت، کچھ بھی یاد نہیں۔ جس سے یہ راز کھلتا ہے کہ نصابی کتابیں اور مدرسانہ خطابت عام اضافی قدریں ہیں، ان کاعملی زندگی اور زمینی حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ بدر کی موت بدر کے آئیڈئل ازم، اس کی اپنی ہائبرڈائزیشن، اس کی ول پاور، اس کی ایگو (انا) اور اخر میں اس کے narrative of success کی موت ہے۔ مرتے وقت بدر ہوا میں معلق ہے، آسمان پہ نہ زمیں پہ۔ خطابت، فصاحت،انسانیت، آدمیت، بلاغت ، قناعت،ریاضت بدر کی کاسمیٹکس ہی ثابت ہوئے۔
ڈیپارچر لاونج سے نکلتے ہیں تو ایک ایسی تہذیبی شخصیت کی ڈولی دیکھتے ہیں جو پوری ایک صدی عورت ہے۔پیغام آفاقی نے اپنے مشہور افسانے ’’ڈولی ‘‘ میں ایک عہد ساز عورت کی زندگی کا پورٹریٹ ہمارے سامنے رکھ دیا اور افسانے کے قارئین کو کہانی کی بنت اور فن سے روشناس کرادیاکہانی کی طاقت اس کے تصورِ افسانہ میں مضمر ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے افسانہ نگار لیفٹ رائٹ کے تصورات کو چیلنج کرتے نظر آ تا ہے۔ زندگی اور کہانی کا آپس میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ فنکار لاشعوری یا شعوری طور پہ بڑی زندگی کو بڑا بیانیہ دینے پہ مجبور ہوجاتا ہے۔ پیغام آفاقی نے ایک عورت کے بیانیہ سے متشکل ہونے والے اسلوب سے عورت کی توقیر کو واضح کیا ہے۔ ادب اور زندگی کی رو سے دیکھا جائے تو بھی اسلوب سماجی سطح پہ اہم ہوجاتا ہے اس لیے کہ یہاں ایک زندگی تو ہے مگر عورت کی اور عورت بھی ایک صدی سی۔عورت کی کوکھ سے اولاد اور سماج پیدا کیا مگر اس کوکھ سے ادب پیدا کرنا یہ افسانہ نگار کمال فن ہے۔ راوی اور اس کے دوست بشیر کے درمیان مکالمے سے واضح ہوتا ہے کہ ان دو کرداروں کو ایک عورت کے مرنے کا شاید دکھ نہیں ایک صدی کے کلچر سے بچھڑنے کا دکھ ہے، ایسی صدی جس میں وہ ٹھہراو ، صبر ، برداشت ،حوصلہ اور اس کی آنکھوں میں اس پوری صدی انیس سو گیارہ سے دو ہزار گیارہ تک کی تاریخ اپنی تعمیر و تخریب کے ساتھ زندہ تھی۔ کہانی میں طوالت ہے مگر اس میں دلچسپی قاری کے اعصاب کا امتحان نہیں لیتی۔ narrative shift کے ساتھ مکالماتی فضاکو متنانے کے اسلوب کا ایک خوبصورت تجربہ افسانے کے قاری کو کرداروں کے قریب لانے کا سبب بنتا ہے۔ افسانہ نگار نے زندگی کے تمام رنگوں کو یکجا کرتے ایک پورٹریٹ بنایا ہے جو ہنری جیمس، اور جوائس کے پورٹریٹ ناولوں کی روایت کا ترجمان ہے۔
ابرار مجیب کے پاس ابھی ایک کینوس ہے جو اس کے وجودی کرب کو وسعت اور گہرائی سے پیش کرتا ہے۔ واحد متکلم میں لکھا گیا یہ دلچسپ اور جدید افسانہ’’افواہ‘‘ اپنے تناطر سے الگ نہیں، اس کے متن میں ایک ہیجان ہے، موت کی طرف سفر کرنے کا سنسنی خیز سفر جو قاری کو مضطرب رکھتاہے۔راوی کے گردا افواہیں گردش کر رہی ہیں جن سے اس کا ثقافتی ماحول گھٹن اور مغائرت کا شکار ہوتا سناٹوں میں بدل جاتا ہے۔ افواہ ایک آسیب کی طرح ان سناٹوں میں رقص کرتی ہے ۔ معاشروں کی نفرتیں عفریت بن کر ہماری موت کا انتظار کرتی ہیں۔ ڈریکولا، گھوسٹ، چڑیلیں سب تاریکی اور سناٹوں کی ثقافتی علامتیں ہیں۔ افسانہ نگار کی فنی مہارت اس کے بیانیہ کی سنسناہٹ سے منعکس ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے تناظر سے کشید کیا گیا یہ فکر انگیز بیانیہ قاری کو سوچنے پہ مجبور کردیتا ہے کہ انسانی وحشت کس طرح ایک پرسکون ماحول کو دہشت زدہ کردیتی ہے۔راوی ایک عام آدمیہے اور اپنی ذات سے منسوب گردش کرتی افواہوں سے لا علم ہے لیکن یہ ضرور جانتا ہے کہ فضا افواہ آلود ہے۔ کہانی کی ابتدا سے کلائیمکس تک کا سفر راوی کی جانکاری کا سفر ہے۔ ابرار مجیب نے اپنے تناطر میں رہ کر لفظ افواہ کی سماجی اہمیت کو مہارت سے متن کیا ہے۔ کہانی کی اسراریت، غیر یقینی، کرب، خوف، اورثقافتی کثافت جملوں کی ترکیب نحوی میں علت و معلول کے متنی رشتے قائم کرتی ہیں۔ ہر پہلا جملہ دوسرے کو خیال اور اسلوب کی سطح پہ اس طرح سپورٹ کرتا ہے کہ کہانی ایک نامیاتی کل کی طرح نظر آتی ہے۔افواہ علت ہے او ر راوی کی داخلی کیفیات و احساسات معلول، یہی افسانے کا پلاٹ ہے جو ایک منطقی انجام تک پہنچتا ہے۔
ایک اور افسانہ جس کا عنوان ہی ’’پورٹریٹ‘‘ ہے افسانہ نگار اقبال حسن آزاد کے تصور افسانہ کا پورٹریٹ ہے۔سیمیائی حوالے سے دیکھا جائے تو پورٹریٹ ایک سیگنیفائر ہے اس ساری افسانویت کا جو کہانی کے ماضی مطلق اور استمرار سے متنی انسلاکات رکھتی ہے۔ افسانہ سکوت بیانیہ سے شروع ہوتا ہے اور اضطراب و اضطرار سے گزرتے ہوئے ذات کی ساخت پہ ختم ہوتا ہے، تیقن اور اضطرار لسانی اور بیانوی ثنویت سے جڑ کر ایک دوسرے کی تکمیل کا سبب بنتے ہیں۔ کہانی میں بدلتے مناطر شعور ی اور لاشعوری کیفیات پہ دال کرتے ہیں۔ یہ تصویریں کبھی امیج، کبھی استعارہ اور کبھی علامت کی صورت سامنے آتی ہیں جو اس وقت سمجھ میں آتے ہیں جب ہم اس افسانے کے عنوان سے رجوع کرتے ہیں۔ یہ پورٹیٹ ایک خاص بیانوی وقت پہ محیط ہے جو جنگل کے خوف سے شروع ہوتا ہے اور افسانے کے مرکزی کردار کے باپ کی تصویر پہ ختم ہوتا ہے۔ یہاں باپ بھی اور اس کا پورٹریٹ بھی علامات ہیں۔ باپ کا آرکیٹائپ شناخت کا سگنیفائر بن کر اس کردار کے اپنے پورٹریٹ( سیگنیفائیڈ) کی تکمیلیت کا اشارہ دیتا ہے۔ یہاں صرف باپ کا پورٹریٹ اہم نہیں ، اس کردار کا اپنا پورٹریٹ اس وقت تک مکلمل نہیں ہوتا جب تک باپ کی شکل سامنے نہیں آتی۔ باپ کا آرکیٹائپ سایہ، پناہ ،انحصار بہت سی ثقافتی نفسیات کی اہم علامت ہے۔ جنگل کا استعاراتی نظام وہ سماجی انتشار ہے جو اس کردار کے باطن میں اتر کر لاشعور کو حرکت پزیر رکھتا ہے۔ اس جنگل کی اپنی آوازیں ہیں، اس کے ساتھ انسانوں کے خون کی بو شامل ہے، کردار جنگل کی وحشت سے نکلنا چاہتا ہے لیکن وہ ایسا کچھ لاشعوری طور پہ کرتا ہے۔ یہاں ایک اور اضدادی جوڑا شعور اور لاشعور کے درمیاں بنتا ہے، جیسے حال اور ماضی، سکون اور انتشار، گھر اور جنگل، شناخت اور عدم شناخت، زندگی اور موت، ضبط اور اضطراب ایک جیسے متناقضات ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد دہتے ہیں۔
ما بعد جدیدیت اور خاص طور پہ پس ساختیاتی تنقید کی رو سے لفظ اور معنی میں حتمیت قائم کرنا ایک نظریاتی آمریت ہے۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو تنقیدی فکری نظام اور اصطلاحات کے معنی بھی مختلف ہوجاتے ہیں۔ کولونائیزیشن اس حوالے سے ایک ہی معنی (مروج ڈسکورس) نہیں رکھتی بلکہ اس میں ایک دوسرا معنی بھی اپنی شدت سے موجود ہے جس کے تجربے سے ہم سب انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے گزرتے ہیں مگر اس حقیقت کو ماننے سے یا تو انکار کرتے ہیں یا ایک ثقافتی ہچکچاہت در آتی ہے۔ یہ کولونائیزیشن انٹرنل یعنی داخلی استعماریت ہے جو کوئی بھی طاقت محسوس یا غیر محسوس انداز میں اثر انداز ہو کر ہماری نظریاتی اساس ، رہن سہن، رسم و رواج اور اندازِ فکر کو بدلتی ہے۔افشاں ملک کا افسانہ ’’سمندر ، جہاز اور میں‘‘ نہ صرف بیانوی اسلوب میں تہہ دار ہے بلکہ علامتی بھی ہے۔وقت کے سمندر میں زندگی کا جہاز طوفانوں کا شکار ہو چکا ہے اور کرداروں کی ڈِس الوژنمنٹ ، اضطراب اور مایوسی افسانے کا اختتام بنتی ہے۔ فقیر کے الفاظ متن میں کیٹالائزر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جن معاشرتوں کے لوگ کسی بھی قسم کی سامراجیت ، استعماریت اور کولونیل ازم کا شکار ہیں ان کے لیے یہ الفاظ لمحہ فکریہ ہیں۔ افسانے کا علامتی نظام بر صغیر کے تناظر میں وسیع معنیاتی نظام سے فکری انسلاک رکھتا ہے۔
افسانہ’’ نکیل ‘‘صدیوں پرانی جبر و استحصال کی روایت کی تمثیلی شکل ہے۔ علامتی افسانہ میں افسانے کے عنوان سے لے کر اختتام تک پورامتن ایک ایسی لسانی وحدت سے جڑا ہوتا ہے جس میں بیانیہ کے پیش منظر اور پس منظرمیں ایک موضوعاتی ربط ہوتا ہے۔ پیش منظر کے متوازی ایک منظر نامہ بنتا ہے جس کا تعلق افسانہ نگار کے تخلیقی شعور سے ہوتا ہے۔ اس تخلیق شعور سے مراد تخلیق کار کا تصور زندگی اور ادب ہے۔خیال کی سطح پہ افسانہ جبری مشقت، طبقاتی کشمکش، سماجی استحصال، ریا و سیاہ کاری، کاروکاری، معاشی جبر و ثقافتی گھٹن کو کہانی کرتا ہے لیکن اس کا بیانوی اسلوب جدید افسانوی تکنیک شعور کی رو سے جڑت رکھتا ہے ۔ تلازمہ کاری اور جزئیات نگاری افسانے کے خیال سے مربوط رہتے ایک نامیاتی وحدت میں ڈھلتے ہیں۔ علامت اس افسانے میں مجرد نہیں بلکہ زمانی و مکانی حوالوں سے تہذیبی اور روایتی معنوی نظام سے مشروط ہوتے سماجی اور ثقافتی ہی رہتی ہیں جس سے متن کی جڑت جدیدت اور ترقی پسندی دونوں تحریکوں سے ملتی ہے۔
Diasporic context ( اس سے مراد دیارِ غیر میں نئی ثقافتی اور سماجی ساختوں کا قیام ہے )میں تحریر کیا گیا نور العین کا افسانہ’’ پارکنگ لاٹ‘‘ مختلف نسلوں کے مابین انسانی رشتوں کی تفہیم ہے۔ حرکت و سکوت کی ایک ایسی پر کشش تمثیل ہے جس میں انسانی کردار اپنی تمام تر سماجی صداقتوں اور نفسیاتی الجھنوں کے ساتھ متنی وحدت تشکیل کرتے ہیں۔
افسانے کی مصنفہ کا تخلیقی شعور ما بعد نو آبادیات کے تجربہ کا حاصل کل ہے۔ لاکھوں افراد ہجرت اور تقسیم جھیل رہے ہیں اور ایک ہائبرڈ شناخت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ہائبرڈٹی جلد کی بھی ہو سکتی ہے اور ثقافت کی بھی۔ اس کلچر سے جنم لینے والا اردو ادب قارئین کو نئے مسائل سے متعارف کراتا ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پہ کہانی کے بنیادی محاسن ٹیلنگ اور شوئنگ ایک دوسرے کی تکمیل کا سبب بنتے ہیں۔ ٹیلنگ سے، یہاں، مراد وہ بیانوی اسلوب ہے جو کرنے ہونے اور سہنے کی انسانی گرامر سے مربوط ہے، شوئنگ سے میری مراد جزئیات نگاری، تلازمہ کاری اور منظر نگاری ہے۔ افسانے کا علامتی نظام بہت مختلف مگر دلچسپ ہے۔کسی بھی افسانے کا magnitudeا س کے خیال اور اظہار میں ایک فطری ربط سے ظاہر ہوتا ہے ۔ روزی مصنفہ کی سوچ کی ترجمان نظر آتی ہے جو پارکنگ لاٹ کا دوسرا روپ ہے، سماجی جڑت کی ایک متحرک علامت۔ کرداروں میں قربت اور فاصلے کے تجربات سے اندازہ ہوتا ہے کہ رنگ و نسل، مذہب او ر قومیت انسانوں کے درمیاں کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ جدید ،ما بعد جدید اور گلوبلائزیشن کے عہد میں انسان دوستی کا ڈسکورس بہت عام ہے لیکن انہی ترقی یافتہ ممالک میں نسلی عصبیت کی موجودگی ان ریاستوں پہ اہم سوال ہے۔ نائین الیون کے بعدکی دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں سراسیمگی کا شکار ہے، امریکی معاشرت میں رہتی دوسری قومیتیں اپنی تمام تر وفاداریوں کے باوجود اپنے تشخص کی کھوج میں مصروف ہیں۔یہ افسانہ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔
مقامی معاشی اور معاشرتی تناظر میں لکھا گیا افسانہ’’ کباڑیا‘‘ انسانی نفسیات کا گہرا ادراک ہے ۔ انسانی سطح پہ کوئی بھی کمزوری افسانے کے مرکزی کردار کے لیے شاکنگ یا بریکنگ نیوز نہیں، وہ عادی ہے کہ ٹوٹی پھوٹی زندگی میں کام کیسے چلایا جاتا ہے، گزارا کرنا ،کام چلانا ، سرکل چلانا، ٹوٹل پورا کرنا ایسی لسانی ترکیبات ہیں جو ہمارے کباڑیا کلچر میں اکثر استعمال کی جاتی ہیں۔ ان سے سماجی نفسیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ صارفی ثقافت کے تناظر میں یہ شخص جانتا ہے کہ ٹوٹی ہوئی اشیا بے کار نہیں ہوتیں۔نامانوس ڈکشن ہو یا خیال ہو بحرحال قاری کی مشق کرواتا ہے، یہاں صرف ایک متنی تقاضا ہے کہ بظاہر آسان نظر آنے والا انسان اندر سے تھوڑا مشکل ہے۔یہ کردارکسی خیر و شر اچھائی بھلائی کا رسک نہیں لے سکتا،اسنے کام چلانا ہے، زندگی جسے اس کی ہتھیلی پہ آئی اس نے ایسے ہی دیکھا۔یہ اس کی ذہن سازی ہے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے معاملے میں ایک کباڑیا بھی پدر سری مزاج کا حصہ ہے۔ افسانے میں حقیقت نگاری تمام جزئیات سے انصاف کرتی ہے۔
دیار غیر کی وطنیت بہت سے سوالات اٹھاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرت کی اپنی ترجیحات ہیں جن کی پیروی میں نئی نسل عدم شناخت سے دوچار ہوتی ہے۔ڈیاسپرا کلچر میں پرانی نسل جسمانی طور پہ تو نئی ثقافت میں سانس لیتی ہے لیکن ان کا لاشعور ماضی سے جڑتا پرانے زمانی و مکانی حوالے تلاش کرتا ہے۔ وہ مثالیں بھی ماضی سے کرید کر حال میں پیش کرتی ہے۔ دوسرے ملک میں بھی یہ نسل اپنی ذہن سازی ، نظریہ، کلچر اور روایات میں زندہ رہنا پسند کرتی ہے جبکہ نئی نسل اپنی بقا کی جنگ کرتی ہے۔ اور ہائبرڈ ثقافت میں زندہ رہتے ایک مسلسل کرب میں مبتلا رہتی ہے۔ خاص طور پہ ایسی صورت حال میں جس میں صارفی صداقتیں افراد کو اپنی نظریہ سے متحرک رکھنے کی متمنی ہوں۔ نئی نسل اس نظریہ اور کی ثقافت کی چکاچوند سے متاثر ہو کر پرانی قدروں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے مگر اپنے گھر اور بازار کے درمیان ذہنی اور نفسیاتی طور پہ بٹی رہتی ہے۔ اسambivalentصورت حال میں تضادات کا جنم لیناکرداروں کی شخصیت مسخ ہونے کے مترادف ہے۔ پوسٹ کولونیل ناآسودگیوں، الجھنوں اور ہجرتوں کے مسائل کو عیاں کرتا طلعت زہرا کا افسانہ’’بازار‘‘ ماضی اور حال میں پرانی اور نئی نسلوں میں نفسیاتی فاصلوں کا المیہ بنتا ہے۔افسانہ نگار، ماں اور راوی کا کردارمتن کی فکری وحدت میں ایک تثلیث کی شکل میں موجود ہے۔ شناخت کے بحران کا گہرا ادراک رکھنے والا یہ کردار مسلسل ایک کرب سے گزرتا ہے اور دردِ سرجھیلتا ہے۔
ما بعد نو آبادیاتی دنیا بھی بہت عجیب ہے، یہاں انگریز کے جانے بعد اس کے پیروکاروں نے ان سے بڑھ کر ہی جبر و گھٹن کا ماحول پیدا کیا، نام نہاد جمہوریتیں اور نام نہاد آزادی کا کلامیہ بیانیہ جال اور جعل سازی کے جھانسے ثابت ہوئے، ایک حساس انسان عورت ہو یا مرد اس کی آواز دب کر رہ جاتی ہے۔اخباروں کے گوداموں میں پڑی سسکتی بین کرتی آوازیں سیاسست اور دلفریب گلیمر کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔ پوسٹ کولونیل نسائی آواز کا یہ حساس افسانہ’’ بین کرتی آوازیں‘‘ افسانہ نگار نسترن فتیحی کے مشاہدہ اور مطالعہ کا عکس ہے۔ گوداموں میں پڑی آوازوں کو دبے صدیاں گزرجاتی ہیں لیکن کبھی مفاہمت اور کبھی مصلحت آڑے آتی ہے اور مارکیٹ کی صارفی ثقافت ان بے بس بیانیوں کو بے حسی کی دیواروں میں چنوا دیتی ہے۔عورت مختلف حوالوں سے دیواروں میں ہمیشہ سے چنی گئی ہے۔افسانے میں پدرسری نفسیات کی بائنری ایک حساس عورت کی ان تھک محنت سے بنائی گئی ہے لیکن دستور اور روایت کے مطابق عورت ، اس کا علم، تحقیق، اور کوشش سماج میں غیراہم ہی ٹھہرتا ہے۔ مرد مرکزی دنیا میں عورت کا سچ دبا دیا جاتا ہے اور یک طرفہ معاشرت جاری رہتی ہے۔
صرف عورت ہی نہیں اکثر اوقات انسانیت اور انسان کے حقوق بھی بقول التھوسے ریاستی اداروں کے جبڑوں میں جکڑے اپنے معنی کھو جاتے ہیں۔حکومتی ادارے ریاستی نظریہ کیبالا دستی کی خاطر نصاب سے تشدد تک سب کچھ استعمال کر سکتے ہیں۔ سماج میں تعزیراتی بیانیہ کو فروغ دیا جاتا ہے تاکہ نظریہ نفسیات میں نقش ہو جائے اور لاشعور کا حصہ بن کر انسانی زندگیوں کو متحرک رکھے۔ اختر آزاد کا افسانہ’’شوٹ آوٹ‘‘ اسی تناظر کا متن ہے۔ متن کے اندر بہبودِ آبادی اور فیملی پلاننگ ایسی لسانی تشکیلات ہیں جن میں معنوی کثافت قاری کی آنکھوں میں رڑک مارتی ہیں۔ حکومتی پالیسیوں کی آڑ میں کساد بازاری دندناتی پھرتی ہے اور عوام اپنا نصیب سمجھ کر چپ سادھ لیتے ہیں۔ارباب بست و کشاد کی اپنی ترجیحات اور مفادات ہوتے ہیں جن پہ کبھی کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ آئرنی یہ ہے کہ جس قانون کی اطاعت عوام پہ فرض ہے اس کا مذاق جب عملی طور پہ اشرافیہ کرتی ہے تو کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ جدید اسلوب میں لکھا یہ افسانہ افسانہ نگار کی سیاسی و سماجی تعبیر کا منہ بولتا متن ہے۔افسانے کا کلائمیکس بچوں کی ’’شوٹ آوٹ‘‘ پہ ہوتا ہے ۔ اس لسانی ترکیب میں افسانہ نگار نے ایک بیانوی التباس رکھا ہے جس کے ظاہری اور باطنی معنی میں سکوت اور چیخ کا فرق ہے۔
غریب اور امیر کے تصورِ مامتا میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ غریب ماں کی کوکھ اجڑے تو کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا، عورت زنجیروں میں جکڑی جائے تو روایت کی فتح سمجھی جاتی ہے۔۔ اب چونکہ عورت کمزور تھی اس لیے اس کے ذہنی و جسمانی کنٹرول کے لیے کبھی پردہ، کبھی برقعہ کبھی عورت کبھی نسا کبھی خاتون کا نام دیا گیا۔ شاہین کاظمی کے افسانے ’’برف کی عورت‘‘ کو پڑھ کر لفظ خاتون کے لسانی وثقافتی تعبیر سمجھ میں آتی ہے۔ اس لفظ میں مفعولی حالت کے پیش نظر یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ سماج مختلف رسوم و روایات کے استعمال سے خواتیں کی ذہن سازی متشکل کرتا ہے۔ عورت کی زندگی اور جسم کا ہر ایک حصہ اس کی ملکیت ہے لیکن سب سے پرائیویٹ حصہ کی قربانی عورت کی کلچرل ساخت پہ دال کرتی ہے۔ جب ایک سماج میں موجود ایک رسم اس پرائیویسی میں مداخلت کرتی ہے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ عورت کی پراؤیسی سے زیادہ اہم سماجی رسوم و ثقافت ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہ سکتے ہی کہ فرد کی داخلی زندگی اجتماعیت کے تابع ہے۔خاتن او ر خاتون کی بائنری ساخت کرتا یہ افسانہ سماجی ساختوں کی رد تشکیلیت کی تمثیلی شکل بنتا ہے۔ جو عورت ختنہ کروانے کے بعد خاتون اور عزت دار بنے وہ مثبت رویہ ہے اور جو انکار کرے وہ منکر، کافر باغی۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ رسوم و رواجات کوآفاقی صداقتوں سے تعبیر کرنے سے کمزورں کے دل، روح اور جسم مجروح ہوتے رہے ہیں اور عام انسان ان کو فطری تقاضے سمجھتے عمل پیرا رہے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ انسان آفاقی صداقتوں میں زندہ نہیں رہے یاہم یوں کہ سکتے ہیں کہ انسان آفاقائی گئی، یا حقیقتائی گئی صداقتوں میں رہتے ہیں ایسے ہی جیسے لفظ تہذیب حقیقت میں ایک لسانی سیاست کا نام ہے، دنیا میں کہیں بھی کسی بھی دور میں مہذب انسان کا تصور محال ہے ۔ افسانے کا حسن اس کے بیانوی اسلوب اور البتاس سے ظاہر ہوتا ہے۔
بے حسی کی برف جب تناطر میں موجود ہو تو معاشرے کے افراد کی نفسیات کا بھی نصاب بن جاتی ہے۔ سماج کے متن کی زیریں سطحیں بھی غیر متزلزل نہیں رہتیں۔ جاگیر دارانہ سماج میں تحرک کے فقدان کے سبب طبقاتی ساختیں کنکریٹ رہتی ہیں جن سے کسب فیض عام انسان کا روگ نہیں۔ وہ اپنی مزدوری کے عوض محض دو وقت کی روٹی پہ شکر ادا کرتا ہے۔ لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ اس کے مشاہدے اور تجربے کے رد عمل میں اس کے اندر بغاوت یا مزاحمت کی آگ بھڑکے اورموسوی انقلاب کا سبب بنے یا پھرپریم چند کے افسانے’’ کفن ‘‘کے دو کردار بن جائے جن میں بغاوت تو ہوتی ہے لیکن ثقافتی بے حسی کی صورت۔ افسانوں کے کرداروں کی داخلیت یا موضوعیت کا مسئلہ یا المیہ( ٹریجیڈی) کو اس کی باطنی کیفیات و نفسیات کا شاخسانہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ بہت سے ایسے معروضی حقائق ہوتے ہیں جو جمع ہوتے کسی بڑی ٹریجیڈی کا باعث بنتے ہیں۔شاہد جمیل احمد کا المناک بیانیہ’’ایک رات کی خاطر‘‘ ایک محروم طبقے کے انسان کی روداد ہے۔ واحد متکلم کی تکنیک میں لکھا گیا یہ افسانہ قاری کے ذہن کو جھوڑنے والے اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ بظاہر افسانہ سادہ بیانیہ کی کہانی محسوس ہوتا ہے لیکن درونِ متن علامت کا نظام بھی اپنی پرتوں کے توسط سے گہرے مفاہیم دیتا ہے۔صابی کون ہے؟ کیا کوئی پاہج اولاد ہے یا ناکردہ گناہ کی سزاکا بوجھ؟ بوجھ اتارنے والے کا صبر محض پدرانہ ذمہ داری ، اپنائیت، خون کا رشتہ ہے یا کسی سماجی معاشرتی مسئلہ کسی روایت حکایت وفاداری یا خاندانی مسئلہ کے ساتھ جینے کا تکلیف دہ سفر؟ شریفاں کی بے حسی بھی اس کے دکھ کا رد عمل ہے۔ سماج کے یہ دونوں انسان اپنی ذات کی تکمیل کی خاطر صابی کا بوجھ اتارنا چاہتے ہیں اور شریفاں کے منہ سے نکلا ایک جملہ اس کے شوہر کا کام آسان کردیتا ہے۔ زبان و بیاں اور روانی کے حوالے سے افسانہ وقت کے دھارے کی طرح چلتا ہے۔قاری اس انہماک کے ساتھ افسانہ پڑھتا ہے کہ وہ بھی صابی کے باپ کے ساتھ اس کا بوجھ برداشت کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ انسانی کشمکش ، بے بسی اس وقت شدت اختیار کر لیتی ہے جب مسائل زیادہ اور وسائل کم ہوں۔
اچھی افسانہ نگاری اب بھی اپنی پوری شدت سے موجود ہے، نئی زندگی نئے اسالیب میں ڈھل کر سامنے آ رہی ہے۔ کتنی ہی مثالیں ایسی ہیں جن میں افسانہ نگاروں نے خیال( انسانی مسئلہ) کو ایسا لباس(اسلوب) دیا جو افسانہ نگاری میں مثال بن گیا۔ ہم جس عہد میں رہتے ہیں اس میں سماجی نفسیات کی تفہیم و تعبیر ہمارے نام نہاد نظریاتی نصابوں کا حصہ نہیں ہے۔ افسانہ نگار بھی عام طور پہ انفرادی نفسیات میں دلچسپی لیتے ہیں، کسی بھی سمجھدار افسانہ نگار کے لیے یہ بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ جس طرح تناظر متن سے جڑا رہے اسی طرح شخص (کردار) معاشرے سے الگ نہ ہو۔ڈاکٹر کوثر جمال کے افسانے ’’گٹر سوسائٹی‘‘ میں سماجی و ثقافتی نفسیات کی تعبیر ملتی ہے۔ شاہ بانو اپنے عہد کا ایک متنہے۔ ایک ذہن سازی ہے جس میں ثقافتی روایات ٹھوس آرکی ٹائپس کی شکل میں متحرک ہیں۔ اس لیے اس نسائی کردار کو بھی اس کے تناظرسے جوڑ ے بغیر اس کی تعبیر کرنا ، ادھوری تفہیم ہوگا۔ شاہ بانو کی نفسیات وہی ہیں جو عام فیوڈل سماج کی کمزور عورت کی ہیں۔ افسانے میں بہت سی مہارتیں ایک ساتھ نظر آتی ہیں۔ڈاکٹر کوثر جمال کا تصورِ افسانہ، تصور جمالیات، کالج کے ماحول اور بیانیہ کی لسانی تشکیلات سے متنی انسلاک رکھتی جزیات نگاری اور خیال میں مطابقت، زندگی کی آئرنی( ماہر نفسیات خود اوبسیشن کا شکار ہے اور اپنی ذات کی تحلیل نفسی سے بہت دور) مجموعی طور پہ یہ تمام اجزائے ترکیبی افسانے میں وحدت تاثر پیدا کرتے ہیں۔ افسانہ نگار کا تصور افسانہ ان کا تصور زندگی ہی ہے۔ یہاں قاری کو افسانویت اور فسانویت میں فرق محسوس ہوتا ہے۔ افسانویت اس طرح کی نہیں کہ مادی حقائق مسخ ہوں۔زمین سے جڑے، حقیقی ،بولتے ،زندہ لیکن نفسیاتی الجھنوں نا آسودگیوں اور مجبوریوں کے شکار کردار متشکل کیے گئے۔ عورت ،جیسے ایک ماہر نفسیات دیکھتا ہے وہ اہم سوال ہے۔ہم سوچنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ ماہر نفسیات کی ایک عورت کی جنسی خاکہ نگاری کے پس پردہ محرکات کیا ہیں۔ عورت اور مرد کا تعلق، فلسفہ محبت اور پدر سری جنسی ثقافت یہ وہ مسائل ہیں جنہیں خود ماہر نفسیات سلجھانے سے قاصر ہیں۔ افسانے کے مرد کردار کے فلسفہ محبت میں ذکر مرکزیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اس کی ذات میں جنسی نا آسودگی ایک لمحہ فکریہ ہے۔بیانیہ میں واقعیت کو افسانویت میں جس طرح افسانہ نگار نے ڈھالا، انکی فکری بالیدگی کا ثبوت ہے۔
ان کہانیوں افسانوں کا خمیر انسانی ثقافتی رویوں سے ہی کشید کیا جاتا ہے۔ کہیں جنسی نا آسودگی فرد کی داخلیت میں عدم توازن کی کیفیت پیدا کرتی ہے تو کہیں روایات کا جبر گلے کا طوق بن جاتا ہے۔ پاپولر ڈسکورس کے مطابق مر دو زن ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں لیکن کچھ تجربات ایسے بھی ہیں کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی نفسیات کو گھائل کر کے رکھ دیتے ہیں۔ شادی ایک سماجی و ثقافتی بندھن ہے جو دو افراد کو ایک دوسرے سے مشروط کر دیتا ہے ۔لیکن یہ بندھن ان دیکھے ان جانے تعلق سے مربوط کرنا ایک سماج کی سمجھداری ہے تو دوسرے کے نزدیک ایک مضحکہ خیر صورت حال۔ جب یہ معلوم ہے کہ ہر انسان کی پسند و ناپسند یا رد و قبولیت کا فارمولہ الگ ہے اور انسانی ذہن کا میلان جبر سے نہیں موڑا جا سکتا تو سماجی روایات ایسے فیصلے کیوں کرتی ہیں جن سے دو( مختلف ) انسانوں کی زندگی صحت مند اور پرکشش سنجوگ کی بجائے کانٹوں بھری گہری کھائی بن جائے۔ارشد علی کا افسانہ’’ واپسی‘‘ سماج کے انہی تضادات کا دلخراش بیانیہ ہے۔ بیس برس پہلے کمالے نے گھر چھوڑا، بیوی اور ایک بیٹی کو چھوڑا اور جب بیس سال بعد واپسی کا خیال آتا ہے تو ضمیر کی خلش اعصاب شکن ثابت ہوتی ہے۔ جس شخص کے قدموں نے بیس سال کی لڑکھڑاہت کا کرب جھیلا ہو وہ ایک دن میں کیسے واپسی ممکن بناسکتے ہیں۔ کمالے کا فیصلہ جیمس جوائس کے افسانے’’ آیو لین‘‘ کے نسائی کردار سے مماثلت رکھتا ہے۔کردار وقت کے بہاو کے ساتھ چلنے سے ڈر جاتے ہیں۔ نفسیاتی عارضوں کی ہزاروں شکلیں ہیں جو غیر محسوس انداز میں ہماری حرکات کا تعین کر رہے ہوتے ہیں مگر ہمیں انکا شعور نہیں ہوتا۔ شعور کی رو کی ایک خوبصورت کوشش میں لکھا گیا یہ افسانہ اس کے مرکزی کردار کمالے کے خارج اور داخل کی ابدی کشمکش کا مظہر ہے۔
مرکزی کردار کو افسانے کے متنی ماحول کے مطابق تراشنا افسانہ نگار کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ افسانہ نگار اس کردار کو پہلے اپنی ذات میں جذب کرتا ہے، اس کی نفسیات او ر معاشرت سے جڑتا ہے، اس کی حرکات و سکنات کو قوت متخیلہ سے کہانی کے موضوع کے مطابق بناتا ہے، پھر اسے اپنی ذات سے باہر نکال کر قاری کے سامنے رکھتا ہے۔ سنجیدہ افسانہ نگار اپنے تخلیقی عمل کے دوران ایک سے زیادہ زندگیاں جیتا ہے۔ وہ اپنی ذات سے جڑت کے ساتھ اپنے کرداروں کی زندگیاں بھی جھیلتا ہے۔ کردار سے بھی زیادہ اہم کردار کی اس کے مسئلہ سے مطابقت اہم ہوتی ہے۔ لیاقت علی کا افسانہ ’’پلیٹ فارم‘‘ قاری کو ایسے ہی کردار سے ملواتا ہے جو اپنی ذات میں پلیٹ فارم تھا۔ افسانے کے عنوان سے ہی کردار کی وسعت اور حیثیت کا ادراک ملتا ہے، جیسے جیسے پلیٹ فارم تباہی کے تجربات سے گزررے ویسے ہی نیازی صاحب کا انسان دوست، علم دوست اور وضح دار کردار پلیٹ فارم سے بچھڑ کر چھوٹی موٹی زندگیوں میں تقسیم ہوتے رہے۔ پلیٹ فارم اور نیازی دونوں سماجی اور تہذیبی کردار تھے جو افسانے کے آخر میں سکڑ گئے۔ سماجی جکڑ بندیاں اس قدر سخت ہیں کہ راوی چاہتے ہوئے بھی نیازی صاحب کی زندگی کوشکست و ریخت سے نہ بچا سکا۔ اس کی تگ و دو سے البتہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ لاشعوری طور پہ راوی اس کردار کو مٹنے سے بچانا چاہتا ہے جو اس نے خود تراشاتھا۔
ہم جس سماج میں زندہ ہیں وہ مرد سماج ہوتے ہوئے بھی نسائی لسانی ساختوں اور اظہاریوں سے خالی نہیں۔ان اظہاریوں کے تنوع میں نفسیاتی الجھنیں، گھر گھرستی، عورت کی اپنے گھر میں حیثیت، دکھ پریشانیاں بیماریاں، فاصلے، بدن کے مسائل، جنسی نا آسودگیاں اور معاشی طبقاتی الجھنیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ پس ماندہ طبقوں میں مرد کی گھر سے دوری ، موت یا بے رخی ان الجھنوں میں تشدید کا سبب بنتی ہے۔ نسائی بیانیوں کی کھوج سے بہت سے افسانہ نگارزندگی کی زیریں سطح سے نفسیاتی اور جنسی حقائق بر آمد کرتے رہے ہیں ۔ وحید قمر کا افسانہ’’ رکھوالی ‘‘بھی اسی سمت میں ایک سفر ہے۔ افسانہ نگار نے بڑی کامیابی سے پردہ داری اور کھوالی کے پس منظر میں چند نسائی کرداروں کی نفسیات کو پیش منظربنایا ہے۔ کلچرل شیم (شرم) ایک سماجی ساخت ہے ،ا یک رویہ ہے جسے ایک ثقافت انسانی ذہن میں متن کرتی ہے۔ لیکن یہ متنی ساخت نفسیاتی نا آسودگیوں کا لاوہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ ظاہر اور باطن کے درمیان تفاوت کا ہی وہ سپیس ہے جہاں افسانہ نگار اپنے تخلیقی سفر کے دوران اپنی رہتل اختیار کرتا ہے۔ وحید قمر نے اس رہتل کو بیانیہ کی شکل دی اور تضادات سے المیہ تک کا بیانوی سفر طے کیا۔ عترت ، رشیداں، شاہدہ اور نرگس چار عورتیں چار کہانیاں ہیں، ایک جیسی بھی اور مختلف بھی ۔ ان چاروں کی مشترکہ کہانی سے بیانیہ کو کسی منطقی انجام تک پہنچانا افسانہ نگار کی فنی بصیرت کا اظہار ہے۔
کچھ افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جو راوی کے بیانیہ متوازی بیانوی جہتوں سے جدلیات کشید کرتے ہیں۔ مکالماتی متن میں کہانیوں کی رو بہتی افسانہ نگار کے اس مسئلہ پہ منتج ہوتی ہے جو اس کااصل محرک ہوتا ہے۔’’پھانسی‘‘ افسانے میں قرب عباس نے طاقت کے کلامیہ کو عیاں کرتے قاری کو اس کا موازنہ ایک عام آدمی کی فہم سے کرنے کا موقع دیا ہے۔ اس افسانے کا عام آدمی وہ ڈرائیور ہے جو شروع کے حصے میں خاموش مگر باطنی طور پہ متحرک نظر آتا ہے۔ باطنی حساسیت ہی زندگی کی علامت ہے۔ سٹیریوٹائپنگ کی روایت کے مطابق انسان کی ظاہری حیثیت اور اس کی خارجی زندگی ہی شناخت کا سبب بنتی ہے۔ انسانی شناخت کا یہ غیر لچک دار رویہ انسانی اقدار کی تعمیر و تخریب کا ذمہ دار ہے۔انہی مسائل کے ادراک سے افسانہ نگار کے متن اور تناظر کا تعلق ملتا ہے۔ قرب تناظر سمجھتا ہے اور سماج کی دھند سے معنی کشید کرنے کا فن جانتا ہے۔ دھند اس افسانے میں علامت کی سطح پہ گہرے معنیاتی نظام پہ دال کرتی ہے۔ دھند اپنی فطری حیثیت میں افسانے کے مجموعی ماحول میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کردار دھند کے پار دیکھنے کی کتنی کوشش کرتے ہیں یہ راوی جانتا ہے۔ سفر ارتقا کی علامت ہے اور اور دھند اس کی ضد ہے۔ ڈرائیور کا ہاتھ سٹئیرنگ پہ ہے جو گاڑی چلاتے دھند سمجھتا اور عبور کرتا جاتا ہے۔عقب میں بیٹھے کردار ریاست اور سماج کے وہ نمائندے ہیں جو سارا نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہیں۔ دن دیہاڑے ماورائے عدالت ملزمان کا این کاونٹر کرنے والے پولیس گرد کلچر کو ایک عام آدمی کاونٹر کرتا ہے تو گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بوکھلاہٹ پپیچ و تاب کھاتی دھند میں ہچکولے لیتی ہے۔ ڈرائیور سوال کرتا ہے:’’ سر جی کیا پھانسی مجرم کے ساتھ جرم کو بھی مار دیتی ہے؟‘‘ ڈرائیور کہانی کا آدمی ہے اور اس کے عقب میں بیٹھے دو افراد طاقت کے ترجمان۔ کہانی احساس کا نام ہے اور طاقت سزا کی علامت۔ افسانہ کہانی کی طرف طرف جھکاو رکھتا طاقت کے ڈسکورس کی نفی کرتا ہے۔ڈرائیور جو کہانی سناتا ہے اس سے احساس اور عدالت آمنے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ افسانے میں مکالمہ اور بیانیہ کا توازن اسلوب کو دلچسپ بناتے ہیں۔
طاقت کا ایک ڈسکورس وہ ہے جو مرد بند کمروں میں بھی استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرتا ہے۔عورت کا چپ رہنا،ہر عمل میں، تعلقات کی صحت مند ایکویشن کی دلیل ہے۔ وہ زمین رہے، مفعول رہے تو تقدیس اور مرد ذہن کی طمانیت کا سبب ہے، اور اگر عورت مرد جیسی خواہش کرے وہی بولے جو مرد بولتا ہے وہی کرے جو مرد کرتا ہے تو یہی تقدیس عورت کے بدن سے چھین کر اسے چکنا چور کردیا جاتا ہے۔ جنسی نفسیات اور پدر سری مزاج کو منعکس کرتا قمر سبزواری کا افسانہ’’ حرافہ‘‘ خبط اور ضبط کے درمیاں ایک سفر کی ایک کہانی ہے۔ خبط کے متوازی ضبط جنسی تعلق کی گرامر میں فکسڈ کردار ادا کرتا رہے تو جنسی عمل کے فاعل کی فاعلیت قائم و دائم رہتی ہے۔لیکن اس افسانے میں ضبط کا بندھن ٹوٹتا ہے اور عورت پدرسری ڈسکورس کی ثقافتی لسانی ساختوں کی دھجیاں بکھیر دیتی ہے۔ فکسڈٹی کا پردہ چاک ہوتا ہے اور فاعل مفعول کی ثقافتی گرامر بدلنے سے بیڈ روم کی’ روایتی تہذیب‘ چیختی کرلاتی نظر آتی ہے۔افسانہ عورت کی لرننگ اور ان لرننگ کے درمیاں ایک جنگ ہے جس کا اصل محرک اس کا شوہر ہے۔شازیہ کا یہ ’باغیانہ‘ سفر ہر سماجی رد عمل کا ترجمان ہے۔ بغاوت کی فصل کے اسباب سماجی ہوتے ہیں لیکن ان کو انسانوں کی باطنی نفسیاتی کمزوریاں سمجھ کر تعزیراتی رویہ اپنانا ہمارے نصاب سازوں کی بڑی کار آمد حکمت عملی ہے۔
سماجی قدروں کی گرامر جب ٹوٹتی ہے تو بیانیہ کلامیہ سب منتشر ہوجاتے ہیں۔ وحدت چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں بٹ کر سماجی نفسیات کا اظہار بنتی ہے۔ افسانہ چونکہ زندگی کے مختلف پہلووں کا عکس ہوتا ہے اس لیے اس کی بنت یا تشکیل میں زندگی اپنی اصل میں منعکس نہ ہو تو تھوڑی بہت بناوٹ کا تاثر ملتا ہے۔ سنجیدہ افسانہ نگار انسانی نفسیات ،حساسیت اور کیفیات کے زیر و بم سے بیانیہ تشکیل دیتا ہے۔ ظاہر اور باطن کے درمیاں ایک بیانوی مسافر افسانہ نگار یوسف عزیز زاہدنے اپنے افسانے ’’دسترخوان، سالم روٹی اور کہانی‘‘ میں علامت اور جدید اسلوب سے کرداروں کے وجودی کرب کو بیاں کیا ہے۔ یوسف کا اسلوب اس جدید افسانہ نگاری میں اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ علامت اور تجرید کے ملاپ سے کہانی افسانے میں ڈھالنا ان کے فن کو ندرت بخشتا ہے۔ طاعون، چھوٹے بڑے اور کتوں جیسے چوہے سفر، راستہ، دسترخوان، روٹی ،گھنا جنگل، سفر وغیرہ علامتی نظام کے وہ اجزائے ترکیبی ہیں جو کہانی میں ڈھل کر اپنا متنی کردار واضح کرتے ہیں۔ افسانے میں لاشعور کی بیانوی رو اور تلازمہ کاری کا انضباط اسلوب کی سطح پہ افسانے کو آج کے عہد کے شعور اور حساسیت سے منسلک کرتا ہے۔کہانیاں ختم ہونے کوجنم لیتی ہیں۔ ہر انسان کی زندگی کاسورج کہانیوں سمیت ڈوب جاتا ہے۔اور جب تک یہ کہانی قاری تک پہنچتیہے تب نئی کہانیاں جنم لے چکی ہوتی ہیں۔
محبت ،نفرت ،ظلم، استحصال، عداوت ، جبر و استبداد، بر بریت،دکھ سکھ یہ محض الفاظ ہی نہیں کسی خاص زمان و مکان کی کہانیاں ہیں۔ انسان کہانیاں کھاتے پیتے اوڑھتے پہنتے پھلتے پھولتے اور قبر میں اتر تے بھی کہانیاں رقم کرتے جاتے ہیں۔ عورت کہانی میں محبت اور وچھوڑاہمارے سماج کے پلاٹ کی اہم اکائیاں ہیں۔ پلاٹ کم وبیش ایک ہی ہے کردار بدلتے رہتے ہیں۔ اس پلاٹ کا حصہ کبھی خود افسانہ نگار ہوتے ہیں تو کبھی ان کے کردار۔ ایک کہانی کئی دوسری کہانیوں سے مل کر نئی کہانیاں تخلیق کرتی ہیں۔ بیانیہ در بیانیہ کہانی آگے بڑھ کر اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ہر کہانی کی ایک لوکیل ہوتی ہے جس سے کہانی کی جزئیات نگاری مشروط ہو کرمعنی کی وسعت اور گہرائی کا سبب بنتی ہے۔ ماہ جبین صدیقی کا افسانہ ’’نائلون میں لپٹی لاش ‘‘ بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے جس میں عورت اور ثقافت ایک دوسرے کو ادھورا ور مکمل کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ ثقافت اور بیانیہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ عورت بیانیہ سے ہمیں ان سچائیوں کی فہم ملتی ہے جو عام طور پہ نظر انداز ہوتی ہیں۔ فریم سٹوری کی بیانوی تکنیک میں لکھی گئی یہ کہانی راوی اور کرداروں کے شعور اور لاشعور کی گتھیاں سلجھاتی ہیں۔فلسفہ محبت کو احساس کی ندرت سے سجا کر افسانہ نگار نے قاری کی سوچ کے نئے در وا کیے ہیں۔ کہانی کے اختتام سے محسوس ہوتا کہ مرکزی کردار ایک کہانی میں زندہ رہی اور اس کہانی کا کھو جانا اس کردار کی زندگی اجیرن کر گیا۔ ٹرین میں بیٹھی دوسری عورت خود ایک کہانی ہے، دو ملتی جلتی کہانیاں جب مکالمے کے ایک تیسرے سپیس میں داخل ہوتی ہیں تو دونوں کی آنکھیں چھلک جاتی ہیں۔ پھر سترھویں صدی کی کہانی لکھی جاتی ہے جس سے کہانیاں کھا کر زندگی کرنے والا ماحول متن کیا گیا ہے۔ اس کہانی کے سفر سے مرکزی کہانی واپس مڑتی ہے اور ایک بڑے المیہ پہ ختم ہوتی ہے۔
جب سے انسان نے کہانی سنانا شروع کی ہے تب سے اس نے المیہ ہی لکھا۔ خواب و خواہش کی شکست و ریخت کا نوحہ لکھا۔ کسی دوست کی موت پہ مرثیہ لکھا۔ کسی گاوں شہر وطن یا عزیز کے کھو جانے کا المیہ۔ غریب الوطنی کا المیہ۔انسان کا کوئی ایک دکھ نہیں۔ ہاں ایک لمحہ موجود میں کوئی ایک دکھ زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔غریب الوطن کہانیاں ہماری ثقافت کا اہم باب ہیں لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ غریب الوطن مسائل بھی بدلتے چلے گئے۔ نو آبادیاتی نظام میں اس غریب الوطن حساسیت کے اسباب میں سب سے اہم سبب معاشی اور سماجی محرومی ہے۔سرمایہ دارانہ’گلوبل ولیج‘ کو بہت دلچسپ مہابیانیوں سے سجانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔لیکن جب تارکین وطن نسلی لسانی عصبیت کا شکار نظر آتے ہیں تو سارا آئیڈیل ازم دھڑام سے گرتا محسوس ہوتا ہے۔طاقت ور ریاستوں کی تعلیمی پالیسیاں بھی اس خوفناک چکاچوند میں پیش پیش ہیں۔ دوسری اور تیسری دنیا کے لوگ جب پہلی دنیا کے دساتیر سے تفاعل کرتے ہیں تو ظاہر اور باطن کھل کر سامنے آتا ہے۔
ہزاروں مثالیں اخبارات ، الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے توسط سے سرمایہ دارانہ چالوں کو عیاں کر رہی ہیں۔ یہ ادراک ہمیں سلمی جیلانی کے افسانے ’’ چاند کو چھونے کی خواہش‘‘ سے بھی ملتا ہے۔ سادہ بیانیہ کی کہانی بڑی سادگی سے ایک اہم گلوبل ایشو کو متن کرتی ہے۔راوی ایک باشعور کردار ہے جس کی محروم دنیا سے جذباتی وابستگی اس کے اپنے تلخ تجربات کا ثمر بھی ہوسکتا ہے۔ مغربی دنیا کے تعلیمی ادارے بھی سرمایہ دارانہ پالیسیوں سے ہم آہنگ ہیں اس لیے محروم طبقوں کے طالب علم ان ممالک میں خواہشوں کے چاند تجسیم کرنے کشتیاں جلا کر چلے جاتے ہیں اور شخصیتوں کے بحران کے تلخ تجربات سے گزرتے بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔یہاں تک کہ غلط فٹ پاتھ پہ سونے کی سزا ان غریب الوطن طالب علموں کی روح گھائل کر جاتی ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.