علی گڑھ : منزلِ یقیں کا پہلا سنگِ میل
ڈاکٹر شاہد صدیقی
کبھی کبھی کوئی ایک قدم تاریخ کا رخ موڑ دیتا ہے ،ایسا ہی ایک قدم ہندوستان میں ایسٹ انڈیاکمپنی کی آمدتھی جس نے ہندوستان کو غلامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ۔ ابتداء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک تجارتی کمپنی کے طور پرکام کاآغاز کیا لیکن رفتہ رفتہ اس کا نفوذ اقتدار کی غلام گردشوں تک پھیل گیا ،مغلوں کے دم توڑتے اقتدار نے ایسٹ انڈیا کواس مقام تک پہنچادیا جہاں پہنچ کر وہ ہندوستان کے سیاہ وسفید کی مالک بن گئی اورپھرایک طویل عرصے تک چندہزار بدیسی حکمران کروڑوں ہندوستانیوں کی قسمتوں سے کھیلتے رہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے معاشی استحصال سے پورے ملک میں غربت کی شرح میں خطرناک حدتک اضافہ ہو گیا۔ بدیسی راج نے مقامی ہندوستانیوں کی معاشرتی ،ثقافتی اورمذہبی زندگیوں کوبری طرح متاثر کیا۔
مسلمانوں کے لیے سب سے بڑاچیلنج ان کے معاشی سٹیٹس میں اچانک تبدیلی تھی وہ جوکل تک ہندوستان کے حکمران تھے آج دوسروں کے دست نگر بن گئے تھے وہ تعلیم اورمعیشت میں سب سے پیچھے رہ گئے تھے۔ ہندوستان کے باشندوں نے من حیث المجموع ایسٹ انڈیاکمپنی کے تسلط کوکبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں وقتاً فوقتاً کسانوں اورجاگیرداروں کی مزاحمتیں ابھریںجنہیں ریاستی تشددسے دبادیاگیا لیکن سامراج کے خلاف نفرت کی چنگاریاں اندر ہی اندر سلگ رہی تھیں اور پھر1857 میں ہوا کے ایک جھونکے نے ان چنگاریوں کوایک ایسے الائو میں بدل دیا جس کی لپیٹ میں ہندوستان کے کئی علاقے آگئے یہ1857ء کی جنگ آزادی تھی جس سے برطانوی اقتدارکا سنگھاس کوڈول گیا۔
1857ء کی جنگ ِآزادی برطانوی سامراج کے خلاف سب سے بڑی مزاحمت تھی۔ اس جنگ میں معاشرے کے سبھی طبقوں نے حصہ لیا۔ ایک طرف آزادی کے متوالے تھے جن کے دلوں میں جذبوں کی سلگتی آگ نے انہیں جاں سے گزرنے کاحوصلہ دیاتھا۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی تھی جس کے پاس تربیت یافتہ فوج، جدید اسلحہ، بہترجنگی حکمتِ عملی اورمرکزی قیادت کی قوت تھی۔ اس جنگ میں سینکڑوں جوان آنکھوں میں آزادی کے خواب سجائے موت کی وادی میں اتر گئے۔ ہزار وں جیلوں میں قید کردیے گئے بہت سے سرپھروں کو پھندہ ڈال کر درختوں سے لٹکا دیا گیا۔ سرِ عام پھانسیوں کامقصد عام ہندوستانیوں کو سامانِ عبرت فراہم کرنا تھا۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کاوقت ہندوستان اورخصوصاً مسلمانوں کے لیے انتہائی پریشان کن تھا، اس صورتِحال میں ایک مختلف طرز کی حکمتِ عملی درکار تھی ۔اب جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا وقت تھا۔ ایسے میں سید احمد خان ،جو بعد میں سرسید کے نام سے مشہور ہوئے، مسلمانوں کی زبوں حالی کا ایک مختلف علاج لے کر سامنے آئے۔ ان کے خیال کے مطابق مسلمانوں کے زوال کی ایک بڑی وجہ جدید سائنس اورٹیکنالوجی سے دوری تھی سرسید کو اس حقیقت کابخوبی ادراک تھاکہ طاقت کا فرسودہ تصور اب بدل چکا ہے کسی زمانے میں توپ اور تلوار کوطاقت سے جوڑا جاتا تھا لیکن اب زمانہ بدل گیا تھا اور علم اورتعلیم طاقت کے استعارے بن کرابھرے تھے۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد نڈھال مسلمان قوم کی بحالی کاایک ہی طریقہ تھا ،تعلیم۔ ایسی تعلیم جو انہیں اپنی روایت کے ساتھ عالمی منظر نامے پرہونے والی تبدیلیوں سے بھی آشناکرے نصاب میں مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی کی اہمیت کوبھی اجا گر کیا گیا۔ اس سے پہلے کہ ہم سرسید کی علی گڑھ یونیورسٹی کی خدمات پرنظرڈالیں، یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اس وقت کے ہندوستان کوبرطانوی راج سے کون سے بڑے مسائل درپیش تھے۔ ایک تو برطانوی راج ہندوستان کا معاشی استحصال کررہاتھا اس کانتیجہ یہ نکلا کہ مقامی کسان اور دستکار نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ مقامی سطح پر تعلیمی میدان میں حکو متی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ متبادل تعلیمی نظام جوبرطانوی راج نے پیش کیا وہ ناہمواریوں پرمشتمل اوربحیثیت مجموعی ہندوستانیوں کی پہنچ سے بہت دورتھا۔
ایک اور چیلنج عیسائی مشزیوں کافعال کام تھا جس کی بدولت وہ غریب ہندوستانیوں کوتبلیغ کے ذریعے عیسائی بنارہے تھے۔ اسی سے متعلق درپیش ایک اہم چیلنج مغرب کے اسلام پر پے درپے حملے تھے جن کے ذریعے لوگوں کے اذہان متاثرہورہے تھے پہلے سے ہی مسلمانوں اور برطانوی راج کے درمیان ایک قابل فہم دوری تھی جسے 1857ء کی جنگ آزادی نے مزید بڑھادیاتھا۔ اوراس دوری اورعلیحدگی کے مسلمانوں پرکچھ اچھے اثرات نہ تھے مسلمانوں کو نوکریوں کے میدان میں دور رکھاجارہاتھا اورطاقت کی غلام گردشوں میں ان کا گزر مشکل بنا دیا گیا تھا۔ اس سارے منظر نامے میں سرسید نے مسلمانوں کوطاقتور بنانے کے لیے ایک الگ راستہ بنانے کافیصلہ کیا، ایک ایسارستہ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا راج سے تصادم بھی نہ ہو اور وہ اپنے آپ کو جدید عصری علوم اورمہارتوں سے لیس کرکے ہندوستان میں اپنا کھویا ہواسماجی تشخص بھی بحال کرلیں۔
سرسید اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ان کو درپیش چیلنج بہت بڑا ہے اوراس کے لیے انہیں ایک جامع جواب کی ضرورت ہے، ایک ایسا جواب جو جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندانہ تجزئے پر مبنی ہو علی گڑھ تحریک مسلمانوں کودرپیش مسائل کے حل کے لیے دانش پرمبنی ردعمل تھی۔ اس تحریک کے بہت سے اجزاء تھے۔ جن کاواحد مقصد مسلمانوں کوطاقتور بنانا تھا۔ تحریک کاایک جزوایسے ادب کی تشکیل تھی جس کی بدولت مسلمانوں میں معاشرتی وسیاسی تبدیلی آئے۔ اس مقصد کے لیے سرسید نے کئی کتابیں لکھیں۔ ان کارسالہ ”تہذیب الاخلاق‘‘ مسلمانوں کی سماجی تعلیم کاایک اہم آلہ تھا۔ ایک اورچیلنج جس کاسرسید نے سامنا کیا وہ اسلام اوراسلام کی نمایاں شخصیات پر تنقید تھی ۔
سیاسی میدان میں سرسید نے یہ بھانپ لیا تھا کہ اقلیت ہونے کے باعث ہندوستانی مسلمان روایتی جمہوریت میں پیچھے رہ جائیںگے اورسرسید کی یہی سوچ دوقومی نظریے کی بنیادتھی۔ سرسید کے اس خیال کوان کے جانشین نواب محسن الملک نے شملہ وفدکے دوران عملی جامہ پہنادیا جس میں انہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے ایک انتخاب کنندگان کامطالبہ کیا۔ دو قومی نظریے کی یہ آواز بعد میں علامہ اقبال اور قائدِاعظم محمد علی جناح کی آوازوں میں ڈھل کر ایک علیحدہ وطن کے پُر زور مطالبے کی شکل اختیار کر گئی۔ تحریک علی گڑھ کامرکزی نکتہ سرسید کے تعلیمی اقدامات تھے ۔1869کویورپ میں قیام کے دوران آپ نے وہاں کے تعلیمی نظام کابغورمشاہدہ کیا۔
ان کا خواب تھاکہ وہ ایک ایسا ادارہ قائم کریں جس میں مقامی اورعالمی نصاب کاامتزاج ہو اوران کے اس خواب کی تعبیر 1875ء میں علی گڑھ کے قیام سے ہوئی۔ی ہ سکول جلد ہی درجہ ترقی پرفائز ہوکر اینگواورینٹل کالج بن گیا۔ یہ کالج ایک اقامتی درسگاہ تھا جس کا مقصد طلبہ کو بامقصد تعلیم کی فراہمی تھی یہی وجہ تھی کہ اس ادارے میں تدریس کے ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں جیسے کھیل اورمباحثوں پربڑا زوردیا جاتا تھا۔ یہی کالج 1920ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے درجے پرفائز ہوگیا۔ علی گڑھ کالج کا مقصد مسلمانوں کو طاقتور بناناتھا اورمحمڈن ایجوکیشنل کانفرنس اورسائنٹیفک سوسائٹی جیسے اقدامات سے اس مقصد کو تقویت ملی۔
علی گڑھ یونیورسٹی تحریکِ علی گڑھ کاایک اہم ترین جزو تھی۔ اسی تحریک نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ امید جگائی کہ وہ جدیدعلوم سے لیس ہوکر سیاسی وسماجی آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ اسی تحریک کااعجاز تھا کہ اس نے ایسے گریجویٹس پیدا کیے جو ایک موثر اورمنطقی انداز میں اپنا ذاتی نقطہ نظرپیش کرسکتے تھے۔ یہ علی گڑھ کے طلبا ہی تھے جنہوں نے قائدِ اعظم محمدعلی جناح کی زیرِ قیادت پاکستان کی تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ یہ وطن اسی بیج کا ثمرہے جسے سرسید نے مدتوں پہلے بویا تھا۔ سچ ہے کبھی کبھی کوئی ایک قدم تاریخ کا رخ موڑ دیتا ہے۔ علی گڑھ مدرسے کا قیام ہماری منزلِ یقیں کی جانب ایک ایسا ہی قدم تھا جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔