ہندوستان کے مغل حمایتی اور برطانوی حمایتی
از، نصیر احمد
مغل حمایتی : ہمارا تمھارا کیا مقابلہ، ہم تو حج پر جارہے تھے، مظلوم عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کی پکار سنی ، تو سوچا ذرا ان ہندوستانیوں کے دماغ تودرست کر دیں، بس یہی وجہ تھی ہندوستان میں آنے کی،قسم سے ایک ٹکا بھی ہندوستانیوں سے لیا ہو، بلکہ اپنے بھی سارے خرچ ہو گئے، اب تم ہی بتاؤ کیا کرتے؟ بس ہندوستانی ان پڑھ تھے سوچا انھیں کچھ تعلیم دے دی جائے، ایک سکول کھول لیا،سکول چل نکلا اور پھر تو جتنے خیبر پار استاد تھے ، سب نے ہندوستان کا رخ کیا، اور اپنے اپنے سکول قائم کر لیے۔ لیکن ہندوستان کی آب و ہوا بہت خراب ہے، یہاں اکر ہر البیرونی الاندرونی ہو جاتا ہے، مساحت بھول کر فصاحت کر نے لگتا ہے، جنگی ترانے بھول کر گھونگھٹ نکال کر سانورے کے رنگ میں رچنے کی سعی کرنے لگتا ہے، اس لیے ان کو پڑھانے کے لیے دساور سے اور استاد منگوانے پڑ جاتے ہیں۔ اب تمھاری طرح ڈاکو، چور اور بے ایمان تاجر تھوڑے ہی ہیں۔
برطانوی حمایتی : بس ہر کوئی اپنی ہی طرف دیکھتا ہے، ہم بھی کہاں جنگیں لڑنے اور قبضے کرنے کے لیے آئے تھے، ہمارا مقصد تو فورٹ ولیم کالج قائم کرنا تھا تاکہ اہل برطانیہ اردو ادب کے فن پاروں سے محظوظ ہوں،بس لوگ غلط سمجھے اور جنگ کرنے کے لیے تیار ہو گئے، اور وہ لڑکا سراج اس نے تو باقاعدہ کشتی کی دعوت دے دی، اور لگا بھبھکیاں دینے، اب ہم دیسی لڑائی کے طورطریقے کیا جانیں، وہ کبڈی کبڈی کرتا میدان میں نکلا، اس کے تیور دیکھ کر ہم ڈر گئے، پتا نہیں کیا کر بیٹھے اور داغ دی توپیں،بعد میں بڑا دکھ ہوا جب کلکتے میں ہرنوں نے محفل گریہ برپا کی لیکن ہم نے اسی کا رشتہ دار ہرنوں کی دیکھ بھال پر لگا دیا۔اب نوکری بھی دی، کالج بھی قائم کیا، لیکن پھر بھی گالیاں ہمیں ہی پڑتی ہیں۔حالانکہ برمنگھم میں ابھی تک ہر اتوار کو محفل مشاعرہ ہوتی ہے۔
مغل حمایتی :اور بادشاہ سلامت کے ساتھ جو ظلم کیا؟
برطانوی حمایتی :ایک پر فضا مقام پر پنشن تو ہر کسی کی آرزو ہوتی ہے، تم اسے ظلم کہو تو زیادتی کی بات ہے، تم لوگوں کو اندھا کر کے جلاوطن کرو تو وہ عمرہ اور ہم شاعری کے فروغ کے لیے کسی کو بھاری ذمہ داری سے سبک دوش کریں اسے تم ظلم کہتے ہو۔
مسلم حمایتی : کہاں اندھا کیا؟ وہ تو ساری حکیموں کی شرارت تھی، پتا نہیں نین سکھ میں کیا ملا دیا؟
برطانوی حمایتی : اور شاہی اموات کے بعد ہر دفعہ جو برادر کشی کی رسم؟
مغل حمایتی : ایسا کچھ نہیں ہوا یار، وہ تو بز کشی کا کھیل تھا، اب برادر بھیڑوں بکریوں کی کھالیں اوڑھ کر گھڑ سواروں کے آگے دوڑنے لگیں، تو کچھ غلط فہمی تو ہو ہی جاتی ہے۔ اپنی طرف تو دیکھو تم نے تو سرعام لوگوں پر گولیا ں چلا دیں تھیں۔
انگریز حمایتی :ارے نہیں؟ وہ بھی کسی حوالدار کی سازش ہے، ہم تو مقامیوں کو احتجاج کرنے اور احتجاج سے نمٹنے کے طریقے سکھا رہے تھے، اتفاق سے گولیاں اصلی نکلیں، قواعد و ضوابط کی خامی، تم بہت مبالغہ کرتے ہو اور تم نے پوری دلی اجاڑ دی کئی دفعہ؟
مغل حمایتی :تم نے بات توجہ سے سنی نہیں، ہم تو آئے ہی سکھانے پڑھانے کے لیے تھے، وہ تو ہم ہندوستانیوں کو آگ بجھانے کے طریقے سکھا رہے تھے، ان کم بختوں کو ستی ہو نے کا شوق ہی بہت ہے، جہاں ذرا شعلہ سا لپک جائے، یہ کود پڑتے ہیں ، تھوڑی بہت اموات ہو گئیں۔ یہ سیکھنے میں کافی کمزور ہیں، اس لیے انھیں بار بار سکھانا پڑتا ہے۔
برطانوی حمایتی : تھوڑی بہت اموات؟لاکھوں کی تعداد ہے
مسلم حمایتی : اب اربوں کی تعداد میں ایک دو لاکھ بحیثیت نالائق طالب علم کم ہو جائیں، تو تعداد تھوڑی ہی رہے گی، اب کہاں گئی تمھاری منطق، عقل، اور ریاضی دانی۔ یہ تم تھے جنھوں نے کروڑوں بھوکے مار دیے لیکن اس کا ذکر ہی نہیں کرتے۔
برطانوی حمایتی : سرا سر جھوٹا الزام ہے، اب ہم کسی کو روزے رکھنے اور مون برت سے روکتے تو تم کہتے کہ ہندوستانیوں کے مذہبی معاملات میں حکومت کی ظالمانہ مداخلت ہے۔ اور غدر برپا کر دیتے، اب بد انتظامی کی اجازت تو ہم نہیں دے سکتے تھے۔اور وہ جو تم نے دلی میں قتلام کیا تھا؟
مغل حمایتی : ارے یار، بات کا بتنگڑ بنانا تو کوئی تم سے سیکھے۔ وہ تو دلی والوں سے ہم نے کہا جاؤ تلواریں، اٹھا کے لاؤ، تاکہ تمھیں شمشیر زنی سکھائیں، وہ اسلحہ خانے میں گئے اور کسی معمولی بات پر آپس میں جھگڑ بیٹھے اور لگے ایک دوسرے کو کاٹنے، بہت سیٹیاں بجائیں کہ کم بختو ریہرسل ہے، انھوں نے نہیں سنیں، ہم وہاں پہنچے تو لاشوں کے انبار لگے تھے، لیکن الزام تو آخر میں حکومت پر ہی آتا ہے، بہت نالائق ہیں، اس لیے سکھانے کی ہر کوشش انھی کی ہلاکت پر ختم ہوتی ہے، برطانوی حمایتی :یہ تو تو تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو، کل ہی تعلیم بالغاں کی کلاس میں میں انھیں انگریزی پڑھا رہا تھا ، عجیب سے واقعات ہو گئے۔
میں نے کہا اے(A) سے ایپل( Apple) تو کلاس کے ایک کونے سے آواز آئی؟ ہائے میرا دل، اور دھڑام کی آواز آئی۔ چیک کیا تو بزرگ فوت ہو چکے تھے۔
میں نے کہا بی (B) سے بکٹ (Bucket) ادھر سے آواز آئی، ہائے میرا جگر۔ دیکھا تو ایک اور بزرگ تھے، انھوں نے آہ بھری اور تڑپنے پھڑکنے لگے، کانپے تڑپے اور تھرتھرائے اور دنیا سے چلتے بنے۔
اب تم یقین نہ کرو گے، زیڈ تک پہنچتے پہنچتے پوری کلاس فوت ہو چکی تھی۔ بعد میں وجہ معلوم کی تو پتا چلا سیکھنے پر اکثریت کا یہی رد عمل ہوتا ہے۔
مغل حمایتی : ان کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ موت سے انھیں والہانہ پیار ہے۔
برطانوی حمایتی : پھر ہم کیوں آپس میں جھگڑتے رہیں۔
مغل حمایتی : میرے خیال میں تھوڑا بہت باتوں باتوں میں جھگڑا ٹھیک ہے، کچھ نہ کچھ سچ سامنے آ ہی جاتا ہے، صلح ہو گئی تو پھر جھوٹ ہی بچے گا۔