قیمتی تابوت : افسانہ از، نسیم سید

قیمتی تابوت : افسانہ از، نسیم سید

قیمتی تابوت : افسانہ از، نسیم سید


“فک”

کوریڈور کے سنا ٹے میں میرے پیچھے سے کسی نے اس قدر بلند آواز میں کہا کہ میں اچھل پڑی اور مڑ کے دیکھا۔ وہ اپنے آ پ میں گم خود سے محو گفتگو تھا۔

“You can all go to hell  … I give a shit”

اس نے زور سے سر جھٹکا اور انگلی اٹھا کے اپنی بات تند سے لہجے میں یوں کہی جیسے اس کے سامنے کھڑے ہوں وہ لوگ جن سے وہ مخاطب تھا۔ ایلی ویٹر آچکی تھی میں جلدی سے اس میں داخل ہوگئی اور وہ بھی میرے ساتھ اندر آگیا۔ مجھے اس بلڈنگ میں آئے صرف ایک ہفتہ ہی ہوا تھا۔ گھر بدلنا بھی ایک جان لیوا مشقت ہے اسی لیے ایک ہفتے کی چھٹی لی ہوئی تھی اور آج پہلا دن تھا آفس جانے کا۔ چھ بجے صبح کا وقت، سویا ہوا کوریڈور، ایلی ویٹر میں ایک خبطی بوڑھا اور میں۔

“اتنے سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود یہ پاگل سا بوڑھا بلڈنگ کے اندر کیا کر رہا ہے؟ ” مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا اور غصہ بھی آرہا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ پہلے کاؤنٹر پر جا کے غصہ نکالوں مگر آفس جانے کی جلدی تھی۔ آفس جاتے ہوئے یہ سوچ کے خود کو اطمینان دلایا کہ ہمارے فلور کے ہی کسی گھرانے کا بزرگ ہوگا۔ بڑھاپے میں تو یوں بھی حواس ساتھ نہیں دیتے۔

پاگل تو نہیں لگ رہا تھا سو خطرناک نہیں ہوگا ورنہ اس بلڈنگ میں اتنے کیمرے لگے ہوئے ہیں کہ چڑیا پر نہیں مارسکتی کوئی پاگل بھلا کیسے گھس سکتا ہے۔

دوسرے دن اسی وقت صبح سویرے میں اپنے دروازے سے نکلی آفس کے لیے تو میرے دروازے کے عین سامنے والے دروازے سے وہ بھی نکلا ، بالکل اسی طرح

سر جھکائے کسی کو گالیاں دیتا وہ ایلی ویٹر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میں ایلی ویٹر کے ایک کونے میں سمٹ کے کھڑی ہوگئی ۔ مگر ایسا لگتا تھا جیسے اسے کسی دوسرے کی موجودگی کا احساس ہی نہ ہو۔

اسے انگریزی کی ایک سے ایک گالیاں یاد تھیں اور مجھے سخت کوفت ہورہی تھی کہ میری صبح کا آغاز ایک سے ایک دقیق گالی سے ہو رہا تھا آج دوسرے دن بھی۔ جی چاہا کہ اسے ٹوکوں ” مائینڈ یور لینگویج سر” مگر اندر کے خوف نے گلا دبوچ لیا۔

کیا پتہ میرے ہی گلے پڑجائے۔ اس دن مگر میں آفس جانے کے لیے پارکنگ میں جانے کے بجائے گراؤنڈ فلور پر اتر کے سیدھی سیکیورٹی کاؤنٹر پر پہنچی ۔ وہ بھی گراؤنڈ فلور پر میرے ساتھ ہی اترا اور بلڈنگ کا دروازہ کھول کے باہر نکل گیا۔

“یہ پاگل آدمی کون ہے؟ اور اسے کیوں اس بلڈنگ میں رہنے کی اجازت ہے”

مینیجر نے حیرانی سے پوچھا ” کس کو دیکھا آپ نے ، کس کی بات کر رہی ہیں؟”

“یہی آدمی جو ابھی باہر گیا ہے”

” اوہ، مسٹر تھامس ، آپ پریشان نہ ہوں وہ بہت اچھے انسان ہیں سات سال سے بلڈنگ میں رہ رہے ہیں سب ان کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔

بس اپنے آپ سے بات کرنے کی عادت ہے انہیں “

” کیا یہ روزانہ اسی وقت اٹھ کے نیچے آجاتے ہیں؟ “

” جی ، ان کا روز کا یہی معمول ہے “

” تو ہماری ہر صبح کا یہ معمول ہوگا اب ایک سے ایک جدید اور مابعد جدید گالیاں ” میں نے ٹھنڈی سانس لی اورصبر کیا۔

اب ہمارا روز کا معمول یہی تھا جو وقت میرے آفس جانے کا تھا ٹھیک وہ وقت ان کے گھر سےنکلنے کا تھا شاید بڑے میاں الارم لگا کے سوتے تھا اس قدر پابندی سے نیچے جانے کے لیے اب یوں تھا کہ ” گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہونا ” والی جون میں آچکی تھی میں۔ ہم روزانہ چند ساعتوں کے لیے ایلی ویٹر میں ساتھ ہوتے۔

ایک آدھ مرتبہ میں خوش دلی سے”ہائے ” کہہ کے ان کا دھیان ان کے نامعلوم ملعونوں سے ہٹانے کی کو شش بھی کی مگر وہ شاید اونچا سنتے تھے۔

الٹ کے دیکھا بھی نہیں میری طرف ۔ کئی مہینے گزر گئے مجھے حیرانی تھی کہ میں نے اس گھر سے کسی اورکو باہر نکلتے نہیں دیکھا نہ ہی کسی کو ان سے ملنے آتے دیکھا شاید اکیلے رہتے ہیں یا شاید میرے ہی ساتھ اتفاق ہوا ہو کہ جب میں باہر نکلتی ہوں تو ان کے گھر والے اندر جا چکے ہوتے ہیں۔

ان دنوں میرے پاس چھوٹی بہن آئی ہوئی تھی ۔ویک اینڈ پربہن کا موڈ شاپنگ کرنے کا تھا سو میں اس کے دونوں بچوں کو اپنی بلڈنگ کے باربی کیو والے پارک میں لے گئی بچوں کے ساتھ پروگرام یہ تھا کہ باربی کیو بھی ہوگا اور خوب اودھم بھی مچائیں گے۔ بچوں نے شور مچا دیا ناشتہ کرتے ہی پارک میں جانے کا۔ وہاں مسٹر تھامس بھی ایک بنچ پر دھوپ میں بیٹھے تھے ” اچھا تو یہاں آتے ہیں پابندی سے روزانہ صبح کو مگر اتنی پابندی جیسے دفتر جارہے ہوں ‘” میں نے سوچا اور بچو ں کے ساتھ مشغول ہوگئی ۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ دھوپ کے ساتھ ساتھ اپنی جگہ بدل رہے تھے جدھر جدھر دھوپ جاتی وہ بھی کھسک کے ادھر جابیٹھتے۔ وقفہ وقفہ سے وہ زور زور سے اپنا لعن والا ورد شروع کرتے اور پھر سر جھکا کے کسی سوچ میں غرق ہو جاتے۔

میں نے غور سے ڈوبتے سورج جیسے مسٹر تھامس کا چہرہ دیکھا۔ ان کے چہرے کی شکنوں میں عجب مغموم سی تحریر تھی لکھی تھی جسے آنکھوں کےبجائے دل نے پڑ ھا۔ اور دل ان کے لیے کچھ اداس سا ہو گیا۔ شام کو میں نے پلیٹ میں کچھ کباب اور سلاد وغیرہ رکھا اور ہمت کرکے پلیٹ لے کے ان کے پاس پہنچ گئی۔

مسٹر تھامس نے سر اٹھا کے حیرانی سے مجھے دیکھا

میں نے اپنا تعارف کرایا “آپ کے دروازے کے سامنے والا دروازہ میرا ہے ہم پڑوسی ہیں پلیز جوائن کیجیے ہمیں” انہوں نے کچھ ہچکچاتے ہوئے پلیٹ لے لی۔ “میں نے آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ‘” میں حیران رہ گئی، آ ج تک انہوں نے مجھے دیکھا ہی نہیں

“مگر میں تو آفس جاتے ہوئے روزانہ ایلی ویٹر میں آپ کے ساتھ ہوتی ہوں “

” اوہ ، اچھا ، کوئی خاتون ہوتی تو ہیں مگر میں نے دھیان نہیں دیا تھا “

ہم لو گ اوپر جانے کی تیاری کررہے تھے تو اچانک وہ ہمارے پاس آئے۔

بہت دنوں کے بعد گرم کھانا کھایا ہے بہت شکریہ آپ کا “

” آپ ،،،،، کے ساتھ اور کون کون رہتا ہے؟ ” میر ے اندر کے تجسس نے بے تکا سا سوال کردیا۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور واپس جانے کو مڑ گئے۔ کچھ دور جا کے واپس آئے

” میں اکیلا رہتا ہوں “

اس ایک جملے نے نہ جانے کیا کچھ یاد دلا دیا اور وہ شام میری غارت ہوگئی۔ تین سال پہلے جب میں آٹوا میں رہتی تھی تب کی بات ہے میری ایک دوست کی ساس کو ہلکا سا سٹروک ہوا تھا۔ بس پھر وہ گھر نہیں آئیں ان کو نرسنگ ہوم بھیج دیا گیا وہ نرسنگ ہوم میرے آفس کے راستے میں تھاسو واپسی پر میں ادھر ضرور جا تی۔ بہت خوبصورت عمارت تھی وہ با ہرسے مگر اندر سے اتنی بھیانک کہ روح لرز جاتی اندر قدم رکھتے ہی۔ اپنے بچوں کا راستہ تکتی دھندلائی آنکھیں، رشتوں کی حرارت کو ترستے جسم یوں دھرے ہوتے ہر بستر پر جیسے کوئی بیکار کی چیزپڑی ہو۔ آخری عمرکے ان مجرموں کے لیے ہر لمحہ کتنا بھاری تھا ان پر ان کی آ وازوں پر جمی کائی سے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا۔

” میں اکیلا رہتا ہوں ” کہنے والی آواز پر ایسی ہی کائی جمی ہوئی تھی

مسٹر تھامس سے اب میں ایلی ویٹر میں کوشش کرکے کوئی نہ کوئی بات ضرور کر لتی تھی اور وہ بھی کبھی کبھار ہلکا سا مسکرا کے میری بات کا جواب بھی دے دیتے تھے بلکہ اب تو انہوں نے بے تکان گالیاں بکنا بھی کم کردیا تھا اور اکثر تو اگر جلدی نکل آتے اپنے دروازے سے باہر تو کھڑے رہ کے انتظار کرتے۔

میرا نام بھی اب ان کو یاد ہو گیا تھا میں نے ایک دن ان سے کہا۔

” آج رات کو آپ کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔ میں اپنے بیٹوں سے مِلاؤں گی آپ کو”

میری بات سن کے ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ آ ج وہ پہلی بار کھل کے مسکرائے۔ ضرور میں تو ترس گیا ہوں کہیں جانے کو میں اس آفر کو انکار نہیں کرسکتا”

صاف ستھرے مسٹر تھامس آج کوئی دوسرے ہی انسان لگ رہے تھے۔ اونچا قد بڑھاپے کے باوجود مضبوط بدن گہری نیلی بڑی بڑی آنکھیں، ذرا سی توجہ اور محبت سے کسی خبطی بوڑھے کے بجائے آج وہ کس قدر شاندار لگ رہے تھے۔ میرے بیٹوں سے گپ لگاتے ہوئے مسٹر تھامس اونچے اونچے قہقہے لگا رہے تھے۔ فرخ میرے پاس کچن میں آیا۔ جینئس ہیں مسٹر تھامس ماما وہ فوج میں کرنل ہوا کرتے تھے۔ کھانے کی ٹیبل پر باتیں کرتے ہوئے انہوں نے بہت اچانک کہا

” میرے چار بیٹے ہیں۔ اور آ ٹھ گرینڈ چلڈرن “

” اوہ ،، یہ تو بہت اچھا ہے۔ کیا ٹورنٹو میں ہی رہتے ہیں ” میں نے پوچھا

” دو ٹورنٹو میں ہیں ایک نیویارک میں ایک کیلیفورنیا میں “

” کرسمس کی چھٹیاں ہونے والی ہیں آ پ نے شاپنگ کر لی ؟”

مسٹر تھامس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اب مجھے چلنا

چاہیے بہت دیر ہو گئی “

اب میں اکثر کوئی نہ کوئی ڈش بیگ میں ڈال کے ایک نوٹ کے ساتھ ان کے دروازے کے ہینڈل سے لٹکا آتی تھی۔ چار بیٹوں کے ہوتے ہوئے مسٹر تھامس کا بڑھاپا کتنا بے آسرا تھا ایسی تنہائی انسان کو کس طر ح گھن کی طرح اندر سے کھا جا تی ہے مجھے اس کا خوب اندازہ تھا ۔ مغرب کے یہ بچوں کی آوازوں سے بھرے پرے گھر صرف گھر والے کی جوانی تک ہی بھرے ہوتے ہیں اس کے بعد ایک ہو کا عالم ہوتا ہے اور وہ، جوانی بھرعیش و آرام کا سامان جوڑنے والے بڑھاپے میں کیسے بے سروساماں ہو تے ہیں ۔جسم تو ہر عمر میں چاہت کا طلب گار ہوتا ہے اس کی نمو ہی محبت کی حرارت میں ہے یہ حرارت ہی نہ ہو تو؟ عجب بات ہے کہ یہاں بڑھاپا گھروں سے بے کار اشیاء کی طرح نکال کے کو ڑے پر ڈال دیا جاتا ہے۔

اس حقیقت کا ادراک اکثر بہت پریشان کرتا ہےکہ ہم خاندان کا تصور ابھی تک ذہنوں میں محفوظ رکھنے والوں کو “کیا ہوگا بڑھاپے میں کہیں خدانخواستہ نرسنگ ہوم ” اوراس سے آ گے سو چتے ہو ئے بھی لرزہ طاری ہوتا۔ ادھر چار دن ہو گئے تھے مسٹر تھامس کو نہیں دیکھا تو تشویش ہوئی شام کو ایک ڈش جو اس دن ان کو بہت پسند آئی تھی سو چا ان کو بھی بھیج دوں اور خیریت بھی پوچھ لوں۔

دروازہ کافی دیر کھٹکھٹایا مگر کوئی جواب نہیں آیا میں پریشان ہو کے نائن ون ون کو کال کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ انہوں نے دروازہ کھولا مسٹر تھامس بری طرح کھانس رہے تھے دروازہ کھول کے وہ خود کو سنبھالتے ہو ئے واپس مڑ گئے۔ ڈرائنگ روم میں بیڈ روم سے ہلکی سی روشنی آرہی تھی اب وہ صوفے پر نڈھال سے پڑے تھے۔ میں نے واپس مڑکے بیٹے کو آواز دی۔

“مسٹر تھامس شا ید بہت بیمار ہیں جلدی آو شاید ان کو ہوسپٹل لے جانا پڑے”

گھر میں داخل ہو کے بجلی جلائی تولگا یہاں برسوں سےکسی نے صفائی نہ کی ہو ۔گھر کیا تھا ایک جنک یارڈ تھا گویا ۔ “مسٹر تھامس کو بہت تیز بخار تھا۔ انہیں واک ان کلینک لے چلتے ہیں”میں نے خرم سے کہا

“نہیں۔ پہلے ان کے بیٹے کو فون کریں ان کو بتانا بہت ضروری ہے “

میں نے مسٹر تھامس سے فوں نمبر مانگا تو وہ کھانستے جاتے اور گالی بکتے جاتے بیٹوں کے نام کی وہ ٹوٹی ٹوٹی آواز میں اپنا مرثیہ سنا رہے تھے۔

” تین سال سے میں نے ان کی شکل نہیں دیکھی۔ پہلے پہلے بہت فون کرتا رہا۔ پھر فون کرنا چھوڑ دیا۔ آئیں گے ،،،،، مگر میرے بعد تاکہ اس مہنگے اپارٹمنٹ میں اپنا حصہ لے سکیں ” انہوں نے فون نمبر دینے سے انکار کردیا۔ ہم ایک مہینے تک روزانہ ہوسپٹل جا تے رہے ان کا لیور کینسر آخری مراحل میں تھا۔

کسی انتظار سے شرمندہ ہو کے وہ اب بھی اکثر چلا اٹھتے تھے

“I don’t give a shit too”

مسٹر تھامس کی منتظر مگر خود دار آنکھیں شاید تھک چکی تھیں کسی بے سبب کے انتظار سے شام ڈوب رہی تھیں، کئی دن کی بے ہوشی کے بعد انہوں نے ہم لوگوں کی آہٹ پر آنکھیں کھولیں۔

” وہ نہیں آئے؟ ” میرا دل تڑپ گیا اس آخری وقت کی نامرادی پر۔

آنسو کا ایک قطرہ بند ہوتی پلکوں پر اب بھی جما ہوا تھا اور سرد ہونٹوں پر ایک خوددار جملہ۔

“ مجھے کسی کا انتظار نہیں ہے”

سراپا انتظارمسٹر تھامس کے پتھرائے ہوئے ہونٹوں پر ایک عجب سی مسکراہٹ تھی۔ نہ جانے وہ مسکراہٹ تھی یا وقت کے چہرے پرطنز کی ایک لکیر وہ صبح سے شام تک گھر کی وحشت سے بھاگ کے با غیچے میں تن و تنہا گرارنے کے عذاب سے آزاد ہو چکے تھے۔

آ ج ان کی تد فین ہے۔ ان کے چاروں بیٹے سیاہ سوٹ میں ملبوس اپنے بیوی بچوں کے ساتھ موجود ہیں اس کے علا وہ بہت سے افراد اور بھی ہیں جو سیاہ سوٹ میں ملبوس بہت دھیمے لہجے میں ایک دوسرے سے محو گفتگو ہیں۔ بہت خوبصورت ہال میں انہوں نے مسٹر تھامس کی رخصتی کا بڑا شاندار اہتمام کیا ہے اب پوڈیم پر مسٹرتھامس کا بیٹا اپنے شاندار باپ کے کرنل کے عہدے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی شخصیت کے بہت سے خوبصورت پہلو اجاگر کررہا ہے۔ کئی افراد نے تقریر کی ان کے ایوارڈ گنوائے۔ خراج تحسین پیش کیا مغفرت کی دعائیں کی گئیں۔

میں نے پلٹ کے مسٹر تھامس کے اس تابوت کی طرف دیکھ اجو پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ عجیب بات دیکھی میں نے۔ اس تابوت میں سے ملگجے کپڑوں میں ملبوس ایک خبطی سا بوڑھا اٹھا… اس نے ہاتھ اٹھا کے مجمع کو مخاطب کیا۔

“Fuck you all . … go to hell”

اور بڑبڑاتا ہوا ہال سے باہر نکل گیا۔

………………..