تعصب شکنی : جسے وہ شیرینی سمجھتے ہیں، وہ زہرِ قاتل ہے
از، نصیر احمد
جتنا پاکستان ہم نے دیکھا ہے، اس میں تعصبات بہت زیادہ ہیں اور ہمارے خیال میں ان تعصبات کی وجہ علم اور تجربے کی کمی اور جستجو کا فقدان ہے۔ اور ریاست ان خامیوں کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہے جس کی وجہ سےتعصبات کے تحفظ کا ایک موثرنظام موجود ہے۔
علاوہ ازیں معاشرے میں اقدار کے نام پر ایک اخلاقی گراوٹ بھی موجود ہے جو ان تعصبات کی حفاظت بڑی لگن سے کرتی ہے جس کا شاید ہمارے سمیت کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ اس کے باوجود تعصب کا خاتمے کے لیے مسلسل آواز بلند کرنا ایک ایسی شہری ذمہ داری ہے جسے نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے، بہت مشکل، اب جو بھینس کو ڈنڈوں سے پیٹ رہا ہو اور اسے کہہ رہا ہو کتے کی بچی۔ ایسے کے دل میں کیسے جا کرے کوئی۔
آٹھ دس صدیاں لگ جاتی ہیں سمجھانے میں کہ بھائی یہ بھینس ہے کتے کی بچی نہیں ہے اور تین چار صدیاں اس بات کو سمجھانے میں میں لگ جاتی ہیں کہ جانوروں کو ایذا پہنچانا ایک انتہائی بری بات ہے۔
اور اگر وہ تھوڑا سا ضدی ہو، تو پھر سمجھیں کائنات کے خاتمے تک کوشش ہی کرتے رہیں گے لیکن حق کی مغفرت نہیں ہو گی۔
اس حماقت کے ساتھ ایک ایسی سماجی حمایت وابستہ ہے جس کے سامنے سب رستم و سہراب، رضیہ سلطانہ اور چاند بی بی بے بس سے ہو جاتے ہیں۔
تم بڑے آئے بڑے پڑھے لکھے، اس قدر موٹے ہو، اور چہرے پر ایسا جھاڑ جھنکار نے بکھرایا ہے کہ پتا نہیں چلتا کہ آ رہے ہو کہ جارہے ہو۔ ہماری بھینس ہے، ہم اس کو کتے کی بچی کہیں یا بوبی دیول۔ اس کو پیٹتے ہیں تو چارہ بھی توڈالتے ہیں، اتنی ہی ہمدردی ہے تو کل سے چارہ تم کاٹ لانا۔
یہ بھینس کو پیٹنے والوں کے ہمدردوں کا طرز عمل ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد مار پیٹ کے فضائل پر ایک مختصر سا لیکچر دیا جاتا ہے، جو خواتین کی پٹائی کے فوائد پر ختم ہوتا ہے۔
اور جو آپ سے کچھ ہمدردی رکھتے ہیں، وہ آپ کو اکثر خاموشی کی تلقین کرتے ہیں۔ چھوڑو ہمارا کیا لینا دینا، ان کو تو کوئی بھی نہیں سمجھا سکتا۔ تم کیوں ہمارے مسائل میں اضافہ کرتے رہتے ہو۔ تم ایسا کرو ایک شاندار سا مضمون کتوں اور بھینسوں کی مماثلت اور تفریق پر لکھو،تمھاری کچھ تسلی ہو جائے گی یا پھر ملک ہی چھوڑ دو۔
یہاں تو سب ایسا ہی ہے۔پھر نہ کہنا سمجھایا نہیں تھا، آج یہ بھینس ہے کل کسی جگہ تم ہو سکتے ہو،پھر کیا کر لو گے؟
کچھ دیر بہت اگر آپ بہت زیادہ بے وقوف نہیں ہیں تو یہ سچی بات سمجھ لیتے ہیں اور بھینس کتے کی بچی ہی رہتی ہے اور پٹتی بھی رہتی ہے۔بلکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو آپ کی بے بسی کا احساس دلانے کے لیے پورے گاوں میں بھینس پٹائی کی ایک تقریب منائی جاتی ہے ۔ اور اگر کچھ دشمنی زیادہ ہے تو اس تقریب کو سالانہ میلے میں تبدیل کر دیا جاتا ہے کہ دشمنوں کا منہ مسلسل کالا ہوتا رہے اور آمدنی کا کچھ ذریعہ بھی نکل آئے۔
اسی طرح کوئی چور گیروا پہن کر اپنے آپ کو سادھو مشہور کر لے اور اس کے ارد گرد کچھ اوباش اکٹھے ہو جائیں،تو آپ نے اگر اسے موقعہ واردات پر بھی پکڑا ہو، جھوٹے آپ ہی ہوں گے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
میں نے خود ایف آئی آر کاٹی ہے۔
عدالت نے میرے سامنے فیصلہ سنایا تھا۔
سب ریکارڈ ایسے غائب ہوتے ہیں کہ آپ کی ساری جزئیات اور تفصیلات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور پیر سائیں کی کرامات کے طمانچے آپ کے سر پر برستے ہی رہتے ہیں۔
اب پیر صاحب چاہییں تو سرگودھا سے سیدھے دریائے نیل چلے جائیں اور دریائے نیل سے سمر قند و بخارا پہنچ جائیں اور بخارا سے اصفہان سے ہوتے ہوتے سب زیارتوں کا سفر لمحوں میں طے کر لیں، آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا مل جائے گا، جس نے پیر سائیں کو ٹھیک دس بج کر تین منٹ پر ان جگہوں پر بچشم خود دیکھا ہوتا ہے۔
اب تو موبائل فون ہو گئے ہیں
حضور آج جدہ میں کیا کر رہے ہیںَ؟
شام کو غریب خانے پر رونق افروز ہوں، ہماری عزت بڑھے گی۔
بیٹا، یہ کیا کیا، قدرت کے کام میں دخل نہیں دیتے، ہم تو اس وقت موہڑہ پھڈیالاں میں مسمات پھجلاں پر حاوی جن ہٹا رہے ہیں۔
اور ہر طرف سبحان اللہ سبحان اللہ کے نعرے گونجنے لگتے ہیں اور دوچار مرید ان فلمی سپاہیوں کی طرح پھڑ ک پھڑک کر ادھر ادھر گرنے لگتے ہیں، جن کی شرجیل نقل اتارا کرتے تھے۔
اس سب کی وجہ سے تعصب شکنی کچھ نا ممکن سی ہوجاتی ہے لیکن اتنا بھی برا حال نہیں ہے، انفرادی طور تعصب شکنی کی کوششیں کامیباب بھی ہو جاتی ہیں۔ہم نے کافی تعداد میں لوگوں کو اپنے تعصبات کو شکست دیتے بھی دیکھا ہے۔
بات ساری علم اور تجربے کی کمی کی ہے اور جستجو کے فقدان کی ہے۔ معاشرے نے ان سب خامیوں کو وطن اور مذہب کے نام پر خوبیاں بنا دیا ہے اور ان تعصبات کے ساتھ معاشی کامیابی کو منسلک کر دیا ہے۔
ورنہ چند لمحوں کے لیے بھی جیسے انگریز کہتے ہیں، آپ اپنے آدمی بن جائیں، سب تعصبات دھواں ہو جاتے ہیں، لیکن گانے میں کسے کے ہونے پر اتنا اصرار ہے کہ بہت سارے ملکی کبھی اپنے ہو ہی نہیں پاتے۔
اب انگریزوں کو ہی دیکھ لیں، ان کے بارے میں بہت سارے ملکیوں میں اتنے تعصبات ہیں کہ بچی کا کلپ کھو جائے تو گالیاں انگریزوں کو پڑتی ہیں۔ دنیا بھر کے انگریزوں کو بہت سارے ملکی سازشی، مکار، ظالم، مذہب دشمن، استعماری، سامراجی، ڈاکو، اچکے، بے حیا، بے شرم، شرابی، فحش، رشتوں کی قدر سے محروم، نسل پرست، بندر اور نہ جانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں۔ لیکن کبھی اتفاق سے کسی انگریز سے ملاقات ہو جائے، اور اس میں کچھ خوبیاں نظر آ جائیں، وہ سب خوبیاں اسلامی تعلیمات کا نتیجہ نکلتی ہیں اور انگریز اچانک ہی کسی مدرسے کے فارغ التحصیل ہو جاتے ہیں۔
انگریزوں میں تو پھر بھی کبھی کبھی اچھائی نظر آجاتی ہے، ہندو تو ان متعصب لوگوں کی نظروں میں مجسم بدی ہوتے ہیں۔ ان میں اچھائی ڈھونڈنے کی کوشش ہی ایک قسم کی ملت ومذہب سے غداری سمجھی جاتی ہے۔
ایک دفعہ شام کی خبروں میں وزیر اعظم کی جندال نامی کسی شخص سے ملاقات کی خبریں چل رہی تھیں اور ایسے لگ رہا تھا کہ وزیر اعظم اس سے ملنے کے بعد وطن کے غدار ہو گئے ہیں۔
کتنی بری بات ہے لیکن نفرت کے ساتھ کچھ ایسا سطحی قسم کا لطف اس طرح متعلق ہو گیا ہے کہ بات کرنا ہی نا ممکن ہو گیا ہے۔ کون جانے کس کو کیا برا لگ جائے اور آپ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔انسانی زندگی کی ارزانی سے نفرت کا رشتہ دیکھنا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن وہ حمایتی نظام جس کا ہم ذکر کر چکے ہیں، وہ حرکت میں آجاتا ہے، اور ہندو میں اچھائی اور انسانیت دیکھنا آزار کی ایک وجہ بن جاتا ہے۔
پڑھے لکھوں سے تو گلہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ شاندار قسم کی گیجیٹس ان کے پاس ہیں اور ایک کلک سے وہ دنیا بھر کے انسانوں کی کثیر الجہتی دریافت کر سکتے ہیں اور مشترکہ انسانیت کو پسند بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ گانے جو کسی کے ہونے پر اتنا اصرار کرتے ہیں کہ آدمی اپنا ہو ہی نہیں سکتا۔
اب دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتیں بھی ہمارے جیسے تعصبات کے سفر پر نکل پڑی ہیں، جس کے نتیجے میں معاملات گھمبیر ہوتے جائیں گے، گھمبیر اور تباہ کن، جن کا سدباب تعصبات کو ختم کرنے سے ہی کیا جا سکتا ہے لیکن سطحیت کے ساتھ وہ مزے وابستہ کر دیے گئے ہیں کہ توتوں کو یہ بتانا مشکل ہو گیا کہ جسے وہ شیرینی سمجھتے ہیں، وہ زہر قاتل ہے۔