شاید یہ سماج میں دم توڑتی مذہبیت کے آفٹر شاکس ہوں
از، امجد عباس مفتی
نجانے کیوں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مجھے ایسے لگتا ہے کہ مذہب ہمارے سماج میں دم توڑتا جا رہا ہے۔ یورپ میں کلیسا کے بڑھتے ہوئے مظالم، مذہبی رہنماؤں کے متشدانہ رویوں اور مذہبی بحث و مناظروں کا نتیجہ سماج سے مذہب کی بے دخلی کی صورت میں نکلا، کچھ ایسی ہی صورت حال یہاں ہمارے ہاں درپیش ہے۔ آئے روز مذہب کے نام پر دہشت گردی، جلاؤ گھیراؤ، جلسے جلوس، مذہبی جدال و مناظرے یہاں بھی معاملات کو اُسی طرف لے جارہے ہیں جس کا نتیجہ شاید یہی نکلے کہ تادیر یہ صورت حال باقی نہ رہ سکے۔
اسلام آباد میں حالیہ دنوں فیض آباد کے مقام پر جاری دھرنے میں دو ہزار کے لگ بھگ مذہبی علماء و طلباء شریک ہیں، اِس دھرنے سے خطاب کرنے والے رہنماؤں کی چند منٹ گفتگو سُنی جائے تو سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ کہاں مُعلمِ اخلاق نبی اور کہاں اُن کے نام پر ماں، بہن کی گالیاں دینے والے مولوی صاحبان۔
نبیِ اسلام، عالمین کے لیے رحمت تو اُن کے نام لیواؤں کی ایک تعداد، انسانیت کے لیے زحمت اور مذہب کے لیے باعثِ ننگ و عار بن چکی ہے۔
معروف شاعر افتخار عارف اِسی حوالے سے کیا ہی خوب کہتے ہیں
رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایماں
امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے
اسلام میں عام انسانوں کو آزار دینے، عوامی راستے بند کرنے، لوگوں کے کاروبار میں رکاوٹ ڈالنے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ سب و شتم سے روکا گیا ہے۔ صحیح احادیث میں مسلمان کہا ہی اُسے گیا ہے جس کے ہاتھوں اور زبان سے دیگر انسان محفوظ ہوں۔ یہاں تو صورت حال انتہائی افسوس ناک ہے کہ اسلام کے نام نہاد علمبرداروں کے ہاتھوں اور زبان سے دوسرے مسلمان ہی محفوظ نھیں، چہ جائیکہ دوسرے انسان۔ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی میں مسلمانوں کا نام آنا اب کوئی اچنبھے کی بات نھیں رہی۔
عالمی سطح پر مذہبیت دم توڑتی جا رہی ہے، اس وقت لا دینوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے، مسلم ممالک میں بھی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دین بے زار ہو رہی ہے یا اُن کی دین سے وابستگی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔
مشرق میں مذہب بے زاری کے فروغ میں اہلِ مذہب نے خلوص سے حصہ ڈالا ہے، مذہبی رہنماؤں کی جانب سے آئے روز لوگوں کو “توہینِ مذہب” کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے، جلاؤ گھیراؤ اور جلسے جلوسوں نے نیز مذہبی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے باعث یہ سمجھا جارہا ہے کہ مذہب کا کردار کچھ حوصل افزا نھیں ہے۔ مسلم ممالک میں ترقی کے لیے مذہب کو رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ریاستی ادارے سمجھ چکے ہیں کہ ملکی ترقی اور مذہبیت ایک ساتھ نھیں چل سکتے، ایسے میں یہاں بھی مذہبی انتہاء پسندی کو بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
مذہب اپنی شانِ رفتہ کھوتا جا رہا ہے، شاید فیض آباد کے مقام پر حالیہ مذہبی دھرنا دم توڑتی مذہبیت کے آفٹر شاکس میں سے ہو۔
فیض آباد کے مقام پر جاری دھرنے کے تناظر میں بی بی سی اردو کی صحافی ماہ پارہ صفدر نے یُوں لکھا ” اسلام آباد عدالت کا یہ فیصلہ دیر سے سہی مگرعوام اور جمہوریت کے لیے یقیناً خوش آئند ہے کہ کسی شہری کو یہ حق حاصل نہں کہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے دوسرے شہریوں کے لیے مشکلات کا سبب بنے۔ ایک مہذب معاشرے میں ایسے احتجاج غیر آئینی ہیں ،غیر اخلاقی ہیں اور غیر انسانی بھی۔ عدالت کو خاموش اکثریت کے حقوق کا خیال آیا۔”
میں نے اِس پر حاشیہ آرائی کی کہ یہ افعال غیر شرعی بھی ہیں۔ مذہب تو انسانیت کی بھلائی کے لیے آیا تھا۔