گل وِچ ہور اے
از، خضرحیات
اسلام آباد میں مولانا خادم رضوی کے دھرنے سے باقی مذہبی اور سیاسی جماعتیں بالکل لا تعلق رہی ہیں۔ صرف عمران خان نے ہفتے کو اپنی بھرپور سیاسی بصیرت پر مبنی بیان دیا اور دل موہ لیے۔ آپ نے کہا کہ وزیر قانون کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ اور وزیراعظم کو بھی استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ (خان صاحب کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینا) مگر باقی رہنما اور پارٹیاں شاید ڈر کی وجہ سے ہی خاموش رہے۔ مطلب حالات یہ ہیں کہ اسلام آباد سے شروع ہونے والا مسئلہ شہر شہر پہنچ گیا اور سب خاموش رہے، یہ حال ہو گیا ہے ہمارا اور اسی ابتر حال میں ہی ہمارے عظیم نجات دہندہ بھی موجود ہیں اور عظیم تر رہنما بھی مگر فی الحال خاموش ہیں۔ اللہ جانے کب بولیں گے!
حکومت نے ہر معاملے کی طرح یہاں بھی اپنی مخصوص ‘دانشمندی’ کا ثبوت دیتے ہوئے مسئلے کو ٹیڑھی کھیر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور تینوں بڑے ادارے پاک فوج، عدلیہ اور پارلیمنٹ میں ہمیں ایک مرتبہ پھر رسہ کشی نظر آئی۔ پہلے تو کسی کو بھی مظاہرین سے یہ کہنے کی زحمت گوارا نہ ہو سکی کہ وہ اسلام آباد کا رخ نہ کریں اور پھر انہیں فیض آباد پہ ہی روک دیا گیا۔ لوگ خوار ہونا شروع ہوگئے، مریض مرنے لگے، آدھے گھنٹے کا فاصلہ چار گھنٹوں میں طے ہونا لگا، ملکی معیشت کو نقصان پہنچنے لگا اور حکومت مظاہرین کو منانے میں جُتی رہی مگر اس سب کے دوران پاک فوج اور عدلیہ کی طرف سے کچھ نہیں کہا گیا۔ جیسا ہو رہا تھا ویسا ہوتا رہنے دیا گیا۔ پھر جب حکومتی مذاکرات بار بار ناکام ہوئے تو عدالت کو بھی خیال آیا کہ دھرنا ختم کروانا چاہیے۔ اب حکومت جو پہلے دن سے ‘ڈھیل دو’ پالیسی پر عمل پیرا تھی (عمران خان والے دھرنے کے بارے میں بھی یہی پالیسی اختیار کی گئی تھی اور پانامہ والے مسئلے کو بھی سیریس نہیں لیا گیا تھا) اس کے پاس اب کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا کیونکہ عوام کی تو چلو خیر ہے مگر عدلیہ کی توہین شاید اب نہیں کی جا سکتی تھی۔ چاروناچار حکومت نے طاقت کا استعمال کرکے مظاہرین سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور ایک نیم دلانہ سا آپریشن شروع کر دیا۔ نیم دلانہ اس لیے کہ کسی نے اس بارے میں نہ سوچا کہ آپریشن کے بعد پورے ملک میں جو توڑ پھوڑ شروع ہو سکتی ہے اس سے کیسے نمٹیں گے اور پھر یہ بھی سنا ہے کہ پنجاب پولیس اور ایف سی کے نوجوانوں کو راولپنڈی کے راستوں کا ہی علم نہیں تھا جہاں مظاہرین پہلے بھاگ کے چھپ گئے اور پھر دوبارہ سے جمع ہوکر انہوں نے اہلکاروں کی خوب پھینٹی لگائی۔
اس سارے منظرنامے میں فوج کا واضح کردار اب سامنے آتا ہے اور آرمی چیف وزیراعظم کو کہتے ہیں کہ طاقت کا استعمال نہ کیا جائے اور پرامن طریقے سے مظاہرین کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔ پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ پچھلے اکیس روز سے کہاں غائب تھے۔ آپ کو حکومت کی تین ہفتے کی پرامن کوششیں نظر نہیں آ رہیں اور مفت میں ‘وڈے چوہدری صاحب’ بننے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ آپ اگر یہ دھرنا ایک ملاقات اور ایک بیان سے ہی ختم کرا سکتے تھے تو پہلے کیوں خاموش بیٹھے رہے اور اب جبکہ حکومت کے پاس طاقت استعمال کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی طریقہ نہیں بچا تھا تو آپ نے کہہ دیا کہ خبردار لاٹھی گولی نہیں چلانی۔ پھر آپ ہی بتا دیں کہ مظاہرین کو کیسے رام کرتے، پھول بھیج کر، مٹھائی بھیج کر یا حلوہ بھیج کر؟
اب ایک طرف حکومت توہین عدالت سے ڈر رہی ہے کہ آپریشن نہ کیا تو وہاں خواری ہوگی اور دوسری طرف آپ نے کہہ دیا کہ خبردار گندے بچوں کی طرح مار پیٹ نہیں کرنی۔ حکومت اب کیا کرتی؟ چنانچہ پنجاب پولیس اور ایف سی کے اس غیر مربوط آپریشن کے فوراً بعد رینجرز اور پاک فوج نے صورت حال کو سنھال لیا اور یوں آرمی چیف کی کوششوں کی بدولت وہ معاہدہ ہوا جس کی بدولت دھرنا خاتمے کی طرف بڑھا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ مابدولت آرمی چیف کی بدولت ہی ممکن ہوسکا۔ مثلاً 22 نومبر کو بی بی سی کو انٹرویو میں مولانا خادم رضوی کا ارشاد فرمانا تھا کہ ‘ہم فوج کا ہی موقف مضبوط کرنے کیلیے یہاں بیٹھے ہیں’ اور یہ بھی کہ ‘ہمیں یقین ہے پاک فوج ہمیں اٹھانے نہیں آئے گی’۔
ہماری ریاست جیسی شیردل ریاست بھی دنیا میں شاید ہی کہیں ہو۔ جو کوئی چار لوگ اکٹھے کرکے دھرنا دے دیں، یہ بیچاری اس کے ہاتھوں بلیک میل ہو جاتی ہے۔ یہ کیسی ریاست ہے جو صرف فائر کی آواز پر ہی گر پڑتی ہے۔ بوکھلاہٹ میں ٹی وی چینلز بند کر دیے، سوشل میڈیا بند کر دیا، پھر پنجاب کے سکول بند کرا دیے، ملک میں جلائو گھیرائو بھی ہوگیا، گاڑیاں بھی جل گئیں، کچھ لوگ جانوں سے گزر گئے اور کچھ عہدوں سے۔ وزیرداخلہ پیٹ رہا ہے کہ اس نے یہ آپریشن نہیں کروایا تو پھر کس نے کروایا یہ سوال ابھی چند دن اور چلتا رہے گا۔ شکریہ پاک فوج بھی ہوگیا۔ گریٹ رومن سرکس میں چلنے والا یہ شو بھی کھڑکی توڑ ثابت ہوا مگر اندر کی بات آہستہ آہستہ باہر آئے گی کہ آخر یہ دھرنا اتنا لمبا کیوں ہوا، آپریشن کیا تو نامکمل کیوں چھوڑا، آرمی چیف اس مسئلے میں آئے ہی کیوں اور اگر آئے بھی ہیں تو اس وقت ہی کیوں، پہلے کیوں نہیں۔
ہماری پیاری حکومت کے تذبذب کا قصہ تو چھوڑ ہی دیں۔ یہاں بھی بھارت کو گھسیڑ لیا۔ احسن اقبال صاحب نے ارشاد فرمایا کہ دھرنا دینے والوں کے بھارت سے بھی رابطے ہیں، ہم تحقیق کر رہے ہیں۔ اوئے اللہ کے بندو کب اس چکر سے باہر نکلو گے۔ کیے ہوئے کی ذمہ داری بھارت پہ ڈالنے سے آپ کو کوئی منع نہیں کرے گا، شواہد کے ساتھ منظرعام پر لائیں کہ بھارت کہاں کہاں ملوث ہے۔ مگر بیٹھے بٹھائے یہ کہہ دینا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی سموگ کی صورت حال کا ذمہ دار بھی بھارت ہے اور تحریک لبیک کے دھرنے کے پیچھے بھی بھارتی ہاتھ ہے۔ آپ کب تک دیکھے سمجھے بغیر کچرا اپنی دیوار کے اس پار پھینکتے رہیں گے۔ براہ مہربانی تھوڑی محنت کرکے کچرے کو مقامی طور پر ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایجاد کرلیں اور ذمہ داری لینا اور اپنے لوگوں پر ڈالنا سیکھیں۔ ناجانے آپ کب بڑے ہونگے۔
ہمارے ملک میں جو چیز ہاتھوں ہاتھ بکتی ہے وہ ہیں افواہیں اور یہی افواہیں مل کے ایسی فضا بُنتی ہیں جس میں بے یقینی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کو بند کرکے آپ نے کون سا تیر مار لیا جو ان کے چلتے ہوئے نہیں مار سکتے تھے۔ آپ یہی چاہ رہے تھے کہ آپریشن کے دوران لائیو کوریج سے ملک گیر مظاہرے نہ شروع ہو جائیں مگر وہ تو اس کے باوجود بھی شروع ہو گئے اور آپ نے آپریشن بھی نامکمل چھوڑ دیا۔ اور اب جبکہ نشریات بحال ہوئی ہے تو میڈیا پہ کون سا امن کے گیت گائے جا رہے ہیں، اب بھی تو وہی تقریریں اور وہی مار دھاڑ ہی چل رہی ہے۔ اور میڈیا ویسے کون سا اصل صورت حال دکھا سکتا ہے، چینلز تو ہیں ہی اس لیے کہ کسی صورت حال کے بارے میں مزید کنفیوژ کر سکیں۔ اور اس مرتبہ بھی جو کچھ ہوا ہے اس کی اصل خبریں آہستہ آہستہ سامنے آئیں گی کیونکہ جو کچھ اب تک سامنے آیا ہے وہ پوری صورت حال نہیں ہے اور ہمیں رہ رہ کر شک ہو رہا ہے کہ ‘گل وچ ہور اے’ جو آہستہ آہستہ کھلے گی۔ ہو سکتا ہے اس قسط کے ہیرو بعد میں ولن یا کسی اور روپ میں بے نقاب ہوں۔ مگر آپ کہاں جا رہے ہیں، کھیل تو ابھی باقی ہے۔