گلوبل وارمنگ اور ہماری ذمہ داریاں
از، پروفیسر محمد حسین چوہان
گلوبل وارمنگ نوع انسانیت کا مشترکہ مسئلہ ہے،لیکن انفرادی طور پر ہر انسا ن اس سے بے توجہی کا مظاہرہ کرتاہے،شاید یہ انسان کی خودغرضی ہے کہ وہ اجتماعی مسئلوں اور اجتماعی مفاد کے سلسلے میں کاہل و سست واقع ہوا ہے،اور جہاں اس کو اپنا ذاتی مفاد نظر آتا ہے وہاں وہ اپنی کمر کس لیتا ہے۔انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جانے والے ہر کام کے لیے ضروری ہے کہ انسان ذہنی و فکری طور پر آپنے ذاتی مفاد کے دائرے سے باہر نکلا ہو،اس کی سوچ کا دائرہ وسیع ہو ۔اس کی نشان منزل ستاروں سے پرے ہو کیونکہ ذاتی مفاد اور نفع و نقصان سوچنے والے انسانوں کی سوچیں ان کے جبلی تقاضے پوری کرنے تک محدود ہوتی ہیں،اور سوچ جتنی محدود ہو گی انسان اور سماج کی ترقی کی رفتار بھی اتنی ہی سست اور محدود ہو گی،جو سماج اور ان کے افراد انسانی فلاح وبقا پر اپنی زیادہ صلاحیتیں صرف کرتے ہیں، وہ مقامی اور بین الاقوامی دونوں سظحوں پر عزت و وقار اور بالا دستی کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کاانسانیت کی بھلائی کے لیے اٹھنے والا ہر قدم بہتری وتبدیلی کے لیے سنگ میل ثابت ہوتا ہے۔
اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا ہے مزہ تب ہے جب کوئی دوسروں کے لیے بھی جئے۔سوچ و عمل کا یہ وہ مقام ہے کہ انسان یہاں ایک بلند تر مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے۔اس کے ذاتی عمل کی ارتعاش بھی بین الاقوامی سطح پر محسوس ہوتی ہے یعنی بھلائی کے لیے اٹھنے والے ہر قدم میں انسانی فلاح کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کے لیے ایک باشعور اور باضمیر انسان ہی کوئی قدم اٹھا سکتا ہے یا اس کے نہاں خانہ دل میں ایک بہتر اورصحتمند سماج کے قیام کے لیے ایک بہتر قدرتی ماحول کی اہمیت قائم ہو سکتی ہے۔ورنہ ماحول کی تباہی وخرابی میں عام شہری تو کیا حکومتی ادارے بھی بڑے سنگ دل واقع ہوئے ہیں،ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں حالانکہ یہ سب کا اجتماعی مسئلہ وذمہ داری ہے،اور جس کی سزا اجتماعی طور پر ہم سب بھگت رہے ہیں۔
اس لیے انگریزی میں کہا جاتا ہےact locally think globally یعنی آپ مقامی سطح پر ایک درخت لگا کر عالمی سطح پر بہتر ماحول پیدا کرنے والوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔اس سلسلے میں آدمی کو اپنی کوشش حقیر نظر آتی ہے مگر وہ حقیر نہیں ہوتی بلکہ وہ عالمی سطح پر ایک بہتر قدرتی ماحول کی آبیاری کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔یہی وہ قومی سوچ ہے جب یہ افراد کی سوچ کاحصہ بن جاتی ہے تو وہاں صحرا کم گلستاں زیادہ نظر آتے ہیں۔وہاں کیمیائی ذرات سے بھری ہوئی فضا میں لوگ سانس نہیں لیتے بلکہ ان کو صاف آکسیجن ملتی ہے۔وہاں کے باسی جلدی ا ور سانس کی بیماریوں کا شکار نہیں ہوتے۔جہاں لوگ درخت کاٹتے کم اور لگاتے زیادہ ہیں۔وہاں ایک اچھے موسم اور آب وہوا سے بھی وہ مستفید ہوتے ہیں۔ان کے ہاں بارشوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔فصلوں کی وقت پر بیجائی اور کٹائی ہوتی ہے۔دین متین کا بھی یہی ملخص ہے کہ بہترین کا م وہ ہے جو انسانیت کی بھلائی کے لیے کیا جائے۔یہ سبق پہلا تھا کتاب ہدٰی کا ۔کہ ساری مخلوق ہے کنبہ خدا کا۔
سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ماحول کو خراب کرنے میں سورج کی شعاعوں کا عمل دخل نہیں یہ سب انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے ،آٹھ ہزار سال قبل انسان نے کھیتی باڑی کا آغاز کر کے فطری ماحول کو تباہ کرنا شروع کیا ،مگر صنعتی ترقی کے عمل سے ہوا میں زہریلی گیسیں شامل ہونے سے ماحولیاتی آلودگی میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔اوزون کی تہہ ،جہاں سورج کی شعاعیں چھلنی ہو کر زمین پر پہنچتی ہیں میں ایک وسیع شگاف کی وجہ صنعتوں و مشینوں سے خارج ہونے والی مہلک شعاعیں ہیں۔جب یہ شعاعیں براہ راست زمین پر پہنچتی ہیں تو وہ جلد کے کینسر کا سبب بنتی ہیں۔چمنیوں،فیکٹریوں اور انجنوں سے نکلنے والے دھویں فضا کو آلودہ کرتے ہیں۔بادلوں کے عمل کو خراب کرتے ہیں،جس سے ہماری فضا آلودہ رہتی ہے،بعض اوقات تیزابی بارشیں برستی ہیں۔ خشک سالی،قحط،آندھیاں،سمندری طوفان آنے شروع ہوجاتے ہیں،جس سے نہ صرف انسانی زندگی،بلکہ جنگلی و آبی حیات کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔کیونکہ انسانی و حیوانی زندگی کا انحصار اس کے خارجی ماحول پر ہے۔انسانی جین کی صحت و نشو و نمابھی نوے فیصد خارجی ماحول کی مرہون منت ہے اور دس فیصد توارث شامل ہے انسان وہی کچھ ہے جو کچھ وہ کھاتا ہے،وہی کچھ بنتا ہے جو ماحول اس کو دیتا ہے،فطرحی ماحول اس کی جسمانی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے
دنیا کے دررجہ حرارت میں صفر اعشارہ چھ فیصد اضافہ ہو چکا ہے، اگر ماحول کو خراب کرنے کی سر گرمیاں جاری رہیں تورواں صدی کے اختتام تک چھ سینٹی گریڈ اضافہ کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ جس سے نہ صرف دنیا کا نقشہ تبدیل ہو جائے گا بلکہ انسانی زندگی داوٗ پر لگ جائے گی۔اس وقت جنگوں سے زیادہ انسان کو درجہٗ حرارت کے اضافہ سے زیادہ خطرہ ہے ،کیونکہ ہرچھ اموات میں سے ایک موت ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دنیا میں سالانہ ۹۰ لاکھ افراد کی ہلاکت آلودگی کے سبب سے ہوتی ہے،جس میں دمہ،کینسر،جلدی امراض،ملیریا ، ،نفسیاتی امراض جن کا تعلق شور کی آلودگی سے ہے،اور جین کی صحت سے انسان کے مزاج کی تبدیلی وغیرہ،سب سے بڑا نقصان جو آئے روز دیکھنے میں آتا ہے وہ بارشوں کا نہ ہونا یا بے موقع بارشوں کا برسنا ہے، جس سے نہ صرف انسانی ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فصلوں کی تباہی اور اس کے نتیجہ میں غذائی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ،وطن عزیز پاکستان میں صرف دو ہزار گیارہ بارہ کے سیلاب میں ایک لاکھ سے زائد افراد در بدر ہوئے،ہزاروں کی تعداد میں گھر تباہ ہوئے،دو بلین ڈالر کی معیشت تباہ ہوئی۔
سندھ اور بلوچستان میں خشک سالی سے پچھلے سالوں سے نہ صرف فصلوں کی پیداوار پر برے ثرات مرتب ہوئے ہیں،بلکہ مویشی اور انسان بھی ہلاک ہوئے ہیں۔دس شہروں میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈسے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔بارشوں کی کمی سے بارانی علاقوں میں کھیتی باڑی کا عمل رک گیا ہے اگر کاشتکار کچھ کاشت کرتا بھی ہے تو بے وقت بارشوں کی وجہ سے فصل تیار نہیں ہو پاتی۔مقامی پیداوار مقامی آبادی کی ضرورت پوری نہیں کرتی،جس سے ملکی معیشت پر بوجھ پڑتا ہے۔اب دھواں اور اسموگ سے حد نگاہ صفر ،ذہنی دباؤ کا سبب بنی ہے،وقت کے زیاں سے ملکی کارو بار پر برے اثرات پڑے ہیں،حادثات میں اضافے سے انسانی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ندی و نالے خشک،مرجھائے ہوئے درخت،بنجر بنی ہوئی زمینیں،راہ چلتے انسانوں پر جمی ہوئی گرد،آسماں پر آلودگی کی تنی ہوئی چھتری،قیامت سے پہلے قیامت ہے کا منظر پیش کر رہی ہے،یہ سب ہم انسانوں کی سر گرمیوں کا نتیجہ ہے،مگر مغربی ممالک میں حکومتیں ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے اقدامات بھی اٹھاتی ہیں،ایک یہ اپنی ایکو سسٹم یعنی قدرتی ماحول کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔دھویں چھوڑنے والی گاڑی سڑک پر چل نہیں سکتی جب تک وہ درستگی کا سرٹیفکیٹ حاصل نہ کر لے،کوڑے کو آگ لگانے پر پابندی ہے۔
گاڑیوں کے گندے تیل گٹروں میں پھینکنے پر سخت جرمانہ ہوتا ہے۔سگریٹ یا چھوٹا موٹا کچرا سڑک پر پھینکنے پر کم از کم برطانیہ میں تیس پونڈ جرمانہ ہوتا ہے،دریں اثنا عدالتوں میں پیشگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،پبلک مقامات ،دفاتر،پارکوں اور گھر کے اندر خاندان کے ساتھ سگریٹ نو شی پر پابندی ہے ۔اپنی گاڑی میں بچوں کے ساتھ سگریٹ نوشی ایک جرم متصور کیا جاتا ہے،اور یہ مغربی معاشرے کے اخلاقیات کا حصہ بن گیا ہے،کیونکہ ساتھ بیٹھے نن سموکر پر سگریٹ کا اتنا ہی اثر ہوتا ہے جتنا پینے والے پر۔
ماحولیات کا مسئلہ مغربی حکومتوں کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔جبکہ ہمارے ہاں نہ تو اس پر قانون سازی ہوئی ہے اور نہ ارباب بست وکشاد نے اس کو کوئی مسئلہ سمجھا ہے۔بلکہ ہمارے ماحول کو تباہ کرنے میں حکمران طبقہ کا ہاتھ ہے جن کی ذمہ داری بنتی تھی کہ قدرتی ماحول کو بچایا جائے مگر انہوں نے تسلی بخش اقدامات نہیں کیے ۔
خیبر پختون خواہ میں قدرتی ماحول کو بچانے میں تحریک انصاف کی قیادت نے قابل ستائش اقدامات اٹھائے ہیں،دوسرے صوبوں کو بھی اس سلسلے میں ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے اب ہر شہری کو سائنسی اخلاق کا پابند ہونا پڑے گا بحیثیت ایک اچھے شہری کے طور پر ہر شہری سال میں ایک درخت کو پروان چڑھائے۔اپنے گھروں کے دائیں بائیں پودے اورگھر کی چھتوں پربیلیں لگانے کا مشغلہ شروع کر دے،کچرے کو آگ لگانے ،باہر پھینکنے،ندی نالوں میں بہانے کے بر عکس ڈرموں،بنوں میں ڈالنا شروع کردے دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر سگریٹ پینے کو جرم تصور کرے۔ اونچا بولنا اور غیر ضروری ہارن بجانا پر قابو پالے۔ دھویں والی گاڑی کو چلانا برا سمجھے۔خریداری کے لیے پولیتھین بیگ کی جگہ کپڑے کا تھیلا استعمال کرنا شروع کر دے بلکہ پلاسٹک بیگ کو صرف لیکوئڈ کے لیے استعمال کرے،کیونکہ پولی تھین بیگ کبھی مٹی میں تحلیل نہیں ہوتا،اور جہاں جہاں جا کر اٹکتا ہے،سبزہ اگنا بند ہو جاتا ہے۔آبی حیات بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔تقریبٗا آٹھ ملین ٹن سالانہ پلاسٹک سمندر میں شامل ہو کر آبی حیات کو متاثر کرتا ہے۔
حکومتوں کا کام ہے کہ وہ اس سلسلے میں آگاہی مہم چلائیں۔ قانون بنائے اور اس کے نفاذ کو یقینی بنائے۔اس سلسلے میں صاحب علم، دیانتدار اور اہل نمائندہ حکومت کا قیام ضروری ہے، ہمارے تمام تر مسائل کا تعلق سائنسی و علمی مسئلوں سے ہے چاہے وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ،سیاسی معاشیات ان کا تعین کرتی ہے اقدار کی سیاست سے زیادہ عملیت پسندانہ اور تجربی بنیادوں پر مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے،جس کے لیے ملک کے بالائی سیاسی ڈھانچہ کو بھی سائنسی دانش سے متصف ہونا ضروری ہے جس کی تشکیل کی ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے۔اب ہم ایک مکمل بدلے ہوئے سماج میں داخل ہو رہے ہیں،جس کے مسائل صرف وصرف علم و سائنس کی بنیادوں پر حل کیے جا سکتے ہیں۔