کاظم بیکس : پُرتاثیر قیادت اور سخنِ دلنواز کی ساحری
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
کہتے ہیں محبت میں ماضی کا صیغہ ہوتا ہے، نہ ہی مستقبل کا۔ سارے زمانے ڈھل کر حال بن جاتے ہیں۔ وقت ایک لمحے میں رُک جاتا ہے اور پھر یہ لمحہ صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ اُردو کے جُداگانہ اسلوب کے شاعر خورشید رضوی کا کہنا ہے:
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اِس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
کاظم بیکس (Kazim Bacchus) کامعاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اُس کی دوستی کی گلی میں جو ایک بار داخل ہوتا، وہ ہمیشہ وہیں کا ہو کر رہ جاتا۔ کاظم کے ساتھ میرا رشتہ عقیدت کا تھا۔ میرا اور کاظم کا ساتھ تقریباً ایک سال رہا، لیکن اِس مختصر ساتھ نے میری شخصیت پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ کاظم کی قیادت کے مختلف رنگوں کو اس دوران قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جب میں آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ IED)) میں کام کر رہا تھا۔ یہ ٹیچر ایجوکیشن کا انسٹیٹیوٹ تھا، جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے طلباء اعلیٰ تعلیم کے لیے آئے تھے۔ یہاں کاظم کا انتخاب انسٹیٹیوٹ کے بانی ڈائریکٹر کے طور پر ہوا تھا۔
کاظم گیانا میں پیدا ہوا تھا، لیکن تعلیم اور روزگار کے لیے مختلف ممالک کی سیاحت کی اور پھر کینیڈا میں یونیورسٹی آف البرٹا میں ایک طویل عرصہ پڑھایا اور وہیں زندگی کی آخری سانس لی۔ پاکستان آ کر کاظم نے 1993ء سے 1997ء تک بطور ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ کی سربراہی کی اور اپنے وژن، وسیع تجربے، اور دلنواز شخصیت کی بدولت اسے عالمی سطح کا ادارہ بنا دیا۔
کاظم کے ساتھ کام کرنے سے مجھے لیڈرشپ کے ایک ایسے انوکھے اسلوب سے آگاہی ہوئی جس کا خمیر ایسی ساحری سے اٹھا تھا، جس میں دلوں کو تسخیر کیا جاتا ہے، جس میں وژن جذبوں کی آنچ کو بیدار کرتا ہے، جس میں لیڈر ایک (catalyst) کی طرح عمل کو مہمیز دیتا ہے اور جس میں کام کرنے والوں کے لیے کام ایک خوش کن سرگرمی بن جاتا ہے۔
کاظم سے میری ملاقات میری زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے، جس نے تعلیم اور لیڈرشپ کے حوالے سے میرے تصورات کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ کاظم سے میری پہلی ملاقات اسلام آباد کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ہوئی۔ اس ڈنر کا اہتمام کاظم نے کیا تھا۔ اس ملاقات میں کاظم نے مجھے کراچی میں واقع آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ (IED) کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ اس کی گفتگو کا ہر لفظ جذبے کی چاشنی میں گندھا ہوا تھا۔ لگتا تھا، یہ انسٹیٹیوٹ اس کے لیے محض اینٹ اور پتھر کی عمارت نہیں تھا، بلکہ اس کے خوابوں کا نگر تھا جو اسے جان سے زیادہ پیارا تھا۔
اسی ملاقات میں کاظم نے مجھے سے پوچھا: کیا میں اس کے خوابوں کے نگر کا حصہ بن سکتا ہوں؟ اس اچانک پیشکش پر میں نے سوچنے کے لیے کچھ وقت مانگا۔ اس کے ساتھ ہی کاظم نے مجھے کراچی میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ ملاقات کے بعد گھر واپس آتے ہوئے سارے رستے مجھے کاظم کی باتوں کے افسوں نے اپنے حصار میں لیے رکھا۔ مجھے یوں لگا، ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔
کراچی کی کانفرنس میں، میں نے اپنا ریسرچ پیپر پڑھا۔ انسٹی ٹیوٹ کا مشاہدہ کیا۔ وہاں کے تعلیمی پروگراموں سے آگاہی حاصل کی۔ اساتذہ اور طلبا سے ملا۔ تیسرے دن مجھے کراچی سے واپس آنا تھا۔ اس وقت تک میں فیصلہ کر چکا تھا کہ کاظم کے خوابوں کے نگر کا حصہ بنوں گا۔ میں نے جب کاظم کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ میں کراچی آنے کو تیار ہوں تو اس کے ہونٹوں پر وہی دلآویز مسکراہٹ کھِل اٹھی۔ مجھے یوں لگا جیسے کاظم کو شروع سے ہی یقین تھا کہ اس کے خوابوں کے نگر کی کشش مجھے ایک روز وہاں کھینچ لائے گی۔
بہت جلد میں کراچی سے مانوس ہو گیا۔ سمندر کی ہواؤں میں بسی شاموں نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ یہ IED کا ابتدائی دور تھا اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک سے بھی طلبا یہاں پڑھنے آتے تھے۔ اسی طرح یونیورسٹی آف ٹورنٹو اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے اساتذہ اور پاکستانی اساتذہ مل کر پڑھاتے تھے۔ ڈائریکٹر آفس میں کاظم سے پہلی ملاقات مجھے آج تک یاد ہے۔
کاظم نے مجھے خوش آمدید کہا اور بتایا کہ انگریزی کے کورسز کی ذمہ داری مجھ پر ہو گی۔ یہ کورسز یونیورسٹی آف ٹورنٹوکے اساتذہ کے تعاون سے پڑھائے جا رہے تھے۔ کاظم نے مجھے بتایا کہ منصوبہ بندی ہی دراصل کامیابی کی طرف لے جانے والی سیڑھی ہے۔ کاظم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں مشترکہ منصوبہ بندی کے لیے یونیورسٹی آف ٹورنٹو جانے کے لیے تیار ہوں؟ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کا پرانا طالب علم ہونے کے باعث میں نے اس پیشکش کو خوشدلی سے قبول کیا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد میں اب بھی کینیڈا کے اس دورے کو یاد کرتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ادارے میں ایک نووارد کے لیے یہ بہت بڑا محرک تھا۔
کاظم دوسروں کو انسپائر کرنے کا ہنر جانتا تھا۔ کاظم سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنا ایک منفرد علمی اور سیکھنے والا تجربہ تھا۔ حتیٰ کہ فیکلٹی میٹنگنز، جو عموماً بوریت سے بھرپور اور دلچسپی سے خالی ہوتی ہیں، بھی کاظم اپنی موجودگی کے باعث سیکھنے، سکھانے کے دلچسپ تجربات میں بدل دیتا تھا۔ کاظم مشرقی روایت کا سچا نمائندہ تھا، جس میں انکساری کُوٹ کُوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ وہ ایک منکسرالمزاج اور سادہ انسان تھا، تصنع سے پاک۔ ایک حقیقی مرشد کی طرح وہ کبھی دوسروں کے خیالات کی مکمل نفی نہیں کرتا تھا۔
وہ پوری توجہ سے ہماری بات سنتا اور اکثر اوقات ہمارے خیالات میں فلسفی کی چاشنی شامل کرکے انہیں ارفع بنا دیتا، اور ہم خود پر فخر محسوس کرنے لگتے۔ اس کی یہی خوبی اس کی پُرتاثیر قیادت کا راز تھی۔ وہ اپنے رفقاء کار میں ہمہ وقت یہ احساس اجاگر کرتا کہ وہ سارے اس کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔
ایک کھرے لیڈر کی مانند اپنے ساتھیوں کو اعتماد سے لیس کرکے غیرمحسوس انداز میں ان کی تربیت کرتا، ان کی حوصلہ افزائی کرتا تاکہ وہ خود سے نئے اقدامات کر سکیں۔ وہ اکثر ہماری چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر خوشی منا کرکے انہیں celebrate کرتا۔ یوں وہ غیر محسوس طریقے سے مستقبل کے رہنماؤں کی پنیری تیار کر رہا تھا۔
کاظم کا اس بات پر پُختہ ایمان تھا کہ پاکستان کے تعلیمی حلقوں میں صرف اسی صورت میں بامعنی تبدیلی آئے گی، جب ہم مرکزی دھارے کے سرکاری سکولوں میں تبدیلی لائیں گے۔ اسی وجہ سے وہ سرکاری سکولوں سے رابطے پر بڑا زور دیتے تھے۔ یوں کاظم سرکاری اور نجی باہمی شراکت کا بڑا داعی تھا۔ وہ صرف کرسی پر بیٹھ کر افسری کے مزے لینے والا ڈائریکٹر نہیں تھا بلکہ وہ عملی میدان میں لوگوں سے براہِ راست رابطے کا قائل تھا۔ IED ایک انگریزی میڈیم ادارہ تھا۔ دور دراز سے آئے کچھ طلبا کے لیے یہ مشکل تھا کہ وہ انگریزی لکھ سکیں یا اس میں ہم کلام ہو سکیں۔
کاظم ان کے زبان کے مسائل پر خصوصی توجہ دیتا کیونکہ اسے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ IED کے یہی شرکاء ادارے کے علمبردار بنیں گے، اور اب میں سوچتا ہوں کا اس کا اندازہ کتنا درست تھا۔ کاظم کو IED میں خدمات سرانجام دینے کے بعد کینیڈا جانا پڑا جہاں وہ یونیورسٹی آف البرٹا میں پروفیسر ایمرطس تعینات ہو گیا۔ پاکستان سے رخصت ہونے کے بعد بھی وہ پاکستانیوں سے جُڑا رہا۔
آخری دنوں میں بیماری نے کاظم کو وہیل چیئر تک محدود کر دیا تھا۔ اس عالم میں بھی اس نے لکھنا پڑھنا نہیں چھوڑا۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے میں نے کاظم کو اپنی کتاب کا فلیپ لکھنے کے لیے کہا۔ بیماری کے باوجود کچھ ہی دنوں میں کاظم نے مجھے فلیپ لکھ بھیجا۔ یہ فلیپ کاظم کے ساتھ میرا آخری رابطہ تھا۔ اس آخری تحریر میں بھی کاظم نے ہمیشہ کی طرح میری حوصلہ افزائی کی۔ کاظم اگرچہ جسمانی طور پر یہاں موجود نہیں لیکن وہ مینارِ نور کی طرح ہمارے ساتھ رہے گا۔
میں نے کاظم سے پُرتاثیر قیادت کے رہنما اصول اخذ کیے۔ میں نے کاظم سے سیکھا کہ قیادت محض اپنی بات منوانے یا مرضی چلانے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ اس سے بڑھ کرکوئی شے ہے۔ قیادت تو بصیرت ہے، ذہن سازی ہے، مہربانی ہے، دوسروں کے لیے فکر، ان کے لیے احساس اور مل بانٹنے کا نام ہے۔ اصل جادو تو شفقت و محبت میں ہے، جو دلوں کو مسخر کرتا ہے۔
کاظم ایسا ہی قائد تھا، جس نے ہمیں محبت کے لازوال رشتے میں باندھ دیا تھا۔ سچ ہی کہتے ہیں، محبت میں ماضی کا صیغہ ہوتا ہے نہ ہی مستقبل کا۔ سارے زمانے ڈھل کر حال بن جاتے ہیں۔ وقت ایک لمحے میں رُک جاتا ہے اور پھر یہ لمحہ صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے۔