فرشتہ بھی نہیں آیا
از، کشور ناہید
پچھلے کچھ دنوں سے وطن کے حالات سے مجھے پاکستان کے قیام کے بعد قائداعظم کی رحلت، لیاقت علی خان کے قتل کے سارے واقعات یاد آگئے۔ کیسے کسی کے لئے غلام محمد، چوہدری محمد علی کی لڑائیاں جاری تھیں۔ ابھی تو پاکستان کا آئین بھی نہیں بنا تھا۔ ابھی تک بننے والے نئے سربراہ کو حکومت برطانیہ کے ملازم کی حیثیت سے حلف اٹھانا ہوتا تھا۔ ابھی پاکستان کی اسٹیشنری بھی نہیں تیار ہوئی تھی۔ ہم لوگ ریڈیو جاتے تو انگریز کے تیار کردہ ایگریمنٹ پر ہاتھ سے کاٹ کر گورنمنٹ آف پاکستان لکھ دیا جاتا تھا۔
ہم محمد علی بوگرہ سے شروع ہوئے اور ہر دفعہ کوئی نیا شوکت عزیز برآمد کر کے، وزارت خزانہ اور کبھی وزارت عظمیٰ کو اس کے سپرد کرتے رہے۔ شاید آنے والے دن بھی کسی درآمد شدہ شخص کو سربراہ یا کچھ اور ( کہلوادیں ) قوم میں تو اتنی طاقت نہیں کہ ترکی اور ارجنٹینا کی طرح نامنظور قوتوں کا محاصرہ کرلے۔
بہرحال میں نے طے کیا کہ نہ اخبار پڑھونگی نہ ٹی وی دیکھوں گی تو پھر کیا کرونگی۔ میرے سامنے فرشتے آگئے۔ کہا یہ پڑھو مگر اس کتاب پر تو لکھا تھا ’’فرشتہ نہیں آیا‘‘۔ یہ افسانے تھے ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے کہ جن کی تنقید کا حوالہ تو بین الاقوامی ہوچکا ہے۔ یہ شخص نصابی تنقید نہیں، فلسفیانہ نظریاتی تنقید کے ذریعے، پوری دنیا میں لکھی جانے والی تنقید اور ادب کا تقابل کرتا ہے اور اردو ادب میں نیا ماحول پیدا کررہا ہے۔
کتاب کا انتساب انتظار حسین کے نام ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے جگہ جگہ انتظار کا آخری آدمی اور زرد کتا یاد آتا گیا۔ وہ کہانی میں جب ابا کا صندوق کھولتا ہے۔ اس میں دھندلا آئینہ، زندگی اور ماضی دونوں کو آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے۔ وہ سارے بوسیدہ کاغذ جو انتظار ہوتے تو انہیں کبھی کریشن مہاراج کے یہاں دریافت کرتے تو کہیں ابن رشد کی مٹی ہوئی تحریروں میں شمار کرتے، مگر ناصر عباس نے تو بتایا ہے کہ یہ کون سی دنیا ہے جہاں آدمی دور بھیڑیے کی آواز سے نہیں ڈرتا مگر آئینے کے عکس سے ڈر جاتا ہے۔
اس نے بتایا ہے کہ نہ صرف اس کے سر پر بلکہ ہم سب کے سر پر ایک مشین لگی ہے۔ وہ اس مشین کو روکنا چاہتا ہے۔ جیسے ہم سب پاکستانی اس سیاست اور اس وحشت میں اپنا ہی منہ نوچ لینا چاہتے ہیں۔ ہم بھی ابا کے صندوق کے ہیرو کی طرح سوچتے ہیں، یہ چھوٹا سا شہر اسلام آباد، دور بستیوں، کھیتوں، پہاڑیوں کو نابود کرتا ہوا، ایک ریوڑ کی طرح یہ شہر پھیل کر ان لوگوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جو کالے دھن سے بیس بیس منزلہ عمارتیں کھڑی کررہے ہیں، جلسہ کرنے والوں کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں اور رنگ رنگ کی ٹوپیوں والوں کے جلوسوں سے ڈر رہے ہیں۔
ناصر عباس کہانی کے ذریعے ان اندھیری گلیوں کی جانب لے آتا ہے جہاں کہیں کسی فرقے کی مسجد جلائی جارہی ہے۔ کہیں خواجہ سرا کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب ہم اپنے بچپن میں خدا کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ تو کچھ یاد پڑتا ہے کہاجاتا تھا، وہ سب سے خوبصورت، سب سے ذہین، سارے جہان کا حاکم اور بہت کچھ، ہم اس تصور میں کہیں اپنے ابا کو اور کبھی بازار میں خاموشی سے بھیک مانگتے اس گوڑے چٹے بابا کو خدا سمجھ لیتے۔
یاد ہے ہم تو 65 اور 71 کی جنگ میں بھی سوچ رہے تھے کہ ہندوستان، بم پھینکتا ہے اور کوئی نہ کوئی فرشتہ وہ بم پکڑ کر فنا کر دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے ناصر عباس نے جیسے میری کہانی لکھ دی ہے جب اماں نے کہا ’’تم اب بڑی ہوگئی ہو۔ دوپٹہ لیا کرو اور لڑکوں کے ساتھ کھیلنا بھی بند کردو۔ میرے سامنے وہ سب لڑکیاں آگئیں جنہیں کبھی چاکلیٹ دینے، خربوزہ دینے اور نوشگفتہ کلیوں کو چھوکر، اپنی وحشت کو نرمی میں بدلتے ہوئے کہتا ہے بس تھوڑی دیر کی بات ہے۔ یہ ساری ابلتی ہوئی کہانی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے‘‘ اوہ میرے خدا، میری مدد کے لیے تو فرشتہ بھی نہیں آیا۔
انتظار حسین اور منٹو کے خاص کر گنجے فرشتے، مجھے ناصر عباس کی حکایات جدیدو مابعید جدید کے افسانچوں، حکایتوں اور تماثیل کا منظر پیش کرتے ہوئے، وہ دیومالائی کہانیوں میں آج کے سچ کو نہیں چھپاتا وہ تو کبھی سوروں، کبھی بھیڑیوں، بدمست ہاتھیوں کے روپ میں، گھسا ہوا جوتا پہنے، ہمارے زمانے کی کھوپڑی کھول کر وہ سب کچھ دکھابھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہاہے کہ گھسا ہوا جوتا کس کا ہے اور کسی کا بھی نہیں۔
حد کردی ناصر عباس نے کہ آج ہمارے سارے حکم چلانے والے، عورت کو بے سر کا نسوانی دھڑ سمجھتے، سمجھانے میں اپنی ساری قوتیں لگا دیتے ہیں اور گاؤں کی ایک لڑکی عالمی امن کا انعام لینے، یو این او میں جاتی ہے تو وہ اس کو مبارکباد دیتے ہوئے بھی سہم رہے ہیں کہ کہیں کوئی ان کی حکومت نہ چھین لے۔
یہ شخص جس کا نام ناصر عباس نیر ہے، بہاولنگر کا رہنے والا ہے۔ کیا اس نے اپنی دادی سے پریوں کی کہانیاں نہیں سنیں۔ اگر سنی ہوتیں تو وہ ان پر لکھتا۔ میرے آج کے محسوس زمانے کی خاموشی کو بولنا سکھا رہا ہے جانتا ہے کہ ہمیں چھڑانے کوئی فرشتہ نہیں آئے گا۔